کتابی اور نظری بحث اپنی جگہ‘ زندگی مگر زمین پر چلتی اور یہیں اپنا راستہ بناتی ہے۔کہیں میدان، کہیں، پہاڑ اور کہیں جنگل۔ اسے رواں دواں رہنے کے لیے ان ہی میں سے گزرنا اور راہ تلاش کر نا ہے۔ مشرقِ وسطیٰ کا تنازع، ہم جانتے ہیں کہ سیاسی ہے، مذہبی نہیں۔مذہب مگر ہمیشہ سیاسی مقاصد کے لیے استعمال ہو تا ہے۔اب بھی ہو رہاہے۔کیا ہم تحفظِ حرمین کے عنوان سے ہونے والے جلسے اور جلوس نہیں دیکھ رہے؟کیا ایران کی حمایت میں آوازیں نہیں اٹھ رہیں؟حرمین کو اللہ کا شکر ہے کہ کوئی خطرہ نہیں۔ایران بھی براہ راست فریق نہیں۔پھریہ اضطراب کیسا؟ اگر دنیا میں دو ہی فریق پائے جاتے ہیں توان میں حزب اللہ کون ہے اور حزب الشیطان کون؟
زمینی حقیقت کیا ہے؟ایران مذہبی انتہا پسندی کے بوجھ تلے دب گیا تھا۔یہ اپنے عہد سے روٹھ کر زندگی گزارنے کی ایک کوشش تھی جو کبھی کامیاب نہیں ہوتی۔ایران کے عوام انقلاب کے رومان سے نکلے تو زندگی اپنی حقیقتوں کے ساتھ سامنے کھڑی تھی۔ہر آنے والا دن انہیں یاد دلا تا رہا ہے کہ ان حقائق کا سامنا کیے بغیر کوئی چارہ نہیں۔بالآخر انہوں نے اس راز کو پا لیا اورحسن روحانی کے ہاتھ میں اپنی باگ دے دی۔عالمی قوتوں سے معاہدہ ہوا توانہوں نے قوم سے خطاب کیا:''کہا گیا‘ دوراستے ہیں:تصادم یاسرافگندگی۔ہمارا دونوں پر یقین نہیں۔ایک تیسرا راستہ بھی ہے۔ہم دنیا کے ساتھ چلیں گے۔‘‘دنیا کے جنگلوں اور صحراؤں میں آگے بڑھنے کے لیے تیسرا راستہ ہی کام آتا ہے۔اسے اعتدال کہتے ہیں۔صرف ایران پر ہی نہیں،صدر اوباما پر بھی یہ راز کھلا۔نہ کھلتا تو امریکہ کی عالمی قوت کا بھرم کھل جا تا۔
یہ راز سب سے پہلے انقلاب کے بانی، روح اللہ خمینی صاحب پر کھلا۔ایرانی قوم اپنے امامِ کے انتظار میں تھی۔ہاتھ پر ہاتھ دھرے منتظِرِ فردا۔خمینی صاحب نے بتا یا کہ وہ اپنے وقت پر تشریف لائیں گے جو کوئی نہیں جانتا۔انتظار کے ساتھ ہمیں اپنے حصے کا کام کر نا ہے۔اِس وقت جب امام غائب ہیں، قوم کو ولایتِ فقیہ کی ضرورت ہے۔ایک نائبِ امام کی،جو امامِ منتظَر کی آمد تک قوم کی راہنمائی کرے۔انہوں نے قوم کے مذہبی تصورات کو ایک نیا آہنگ دیا اور انہیں زمینی حقائق سے ہم آہنگ کر دیا۔قوم کو روشنی دکھائی دی اور انقلاب برپا ہو گیا۔ نائبِ امام، انتظارِامام اور انکارِ امام کے درمیان تیسرا راستہ تھا۔پھر ایرانی قوم نے اس راستہ کو چھوڑ دیا۔دنیا کے ساتھ تصادم کی ٹھانی۔مشکلات بڑھتی گئیں یہاں تک کہ زمینی حقائق نے خود کو منوا لیا۔ایرانی وفد مذاکرا ت سے لوٹا تو ایران میں جشن کا سماں تھا۔قوم نے تیسرے راستے پر مہرِ تصدیق ثبت کر دی۔
یہ راستہ کس نے کھولا؟جمہوریت نے۔ایران میں جمہوریت نہ ہو تی تو یہ تبدیلی نہ آتی۔اہلِ مذہب انہیں پیش گوئیاں سنا رہے ہوتے اور وقت کی باگ کسی اور کے ہاتھ میں ہوتی۔یا کوئی شہنشاہ اپنے خاندانی اقتدار کے لیے پوری قوم کوبڑی قوتوں کے ہاتھ رہن رکھ دیتا۔حکمران جب قوم کی ترجمانی نہیں کرتے تو وہ ان کے فیصلوں میں شریک نہیں ہوتی۔یوں حکومت کے فیصلے بے وقعت ہوجا تے ہیں۔آج سب مان رہے ہیں کہ ایرانی قوم میں صلاحیت ہے اور وہ اپنا جہاں آباد کر سکتی ہے۔
عرب کی بادشاہتوں کو بھی یہ بات سمجھنا ہو گی۔انہوں نے وقت کے دھارے کے خلاف تیرنے کا فیصلہ کیا ہے۔انسان کو زندہ رہنے کے لیے صرف مادی آسودگی نہیں چاہیے۔اسے اظہارِذات کے لیے سازگار ما حو ل کی بھی ضرورت ہے۔اس کی خودی کو آسائشوں کے بوجھ تلے دبا یا نہیں جا سکتا۔اس کے اندر مو جود مفکر، مصور،اداکار، شاعر، ادیب،موسیقار اورفنکار کو بھی رزق کی ضرورت ہوتی ہے۔اس کا رزق اظہار کے مواقع ہیں۔یہ ایک جمہوری کلچر ہی میں ممکن ہے۔اسی سے ایک عام آ دمی ریاست کے امور سے وابستہ ہوتا اور اس کو اپنے لیے سائبان سمجھتا ہے۔آج سعودی عرب مشرقِ وسطیٰ میں اسلحے کا سب سے بڑا خریدار ہے۔اس کا دفاعی بجٹ ستر ارب ڈالر ہے۔پاکستان کا صرف سات ارب۔ سعودی عرب لیکن پاکستان کی مدد کا طلب گار ہے۔آخر اسے‘ لڑنے والے‘ اپنے ملک سے کیوں میسر نہیں آ سکے؟
عرب حکمرانوں کو اس سوال کا جواب تلاش کر نا ہے۔انہیں سمجھنا ہو گا کہ عوام کو فیصلوں میں شریک کیے بغیر ،حکومتی فیصلوں کو عوامی تائید میسر نہیں آتی۔بادشاہت اب ماضی کا قصہ ہے۔کسی ایک خاندان یا کسی ایک طبقے کی حکومت کو عصری شعور نے مسترد کر دیا ہے۔جنرل سیسی کی حمایت کو اس دور کا انسان ہضم نہیں کر سکتا۔پاکستان پر سعودی عرب کے احسانات ہیں۔ریاست حمایت پر مجبور ہے۔پاکستان مگرایک جمہوری ریاست بھی ہے۔حکمران بادشاہ نہیں ہیں۔وہ عوام کی ناراضی کے متحمل نہیں ہو سکتے۔پاکستان شاید اس طرح ان کی حمایت نہ کر سکے جیسے وہ چاہتے ہیں۔اس کے لیے انہیں اپنے عوام کی طرف دیکھنا ہو گا۔ انہیں اس سوال کا سامنا کر نا ہے کہ عوام فیصلہ سازی میں کتنے شریک ہیں؟
عالمی قوتوں کے ساتھ ایران کی مفاہمت نے مشرقِ وسطیٰ میں ایک نئے سیاسی رجحان کو جنم دیا ہے۔عرب اگر اپنے اندازِ نظر کو تبدیل نہیں کریں گے‘ تویہ راستہ انہیں اسرائیل کے کیمپ میں لا کھڑا کرے گا۔اگر ایسا ہوا تو عرب دنیا میں ایک بڑی بغاوت جنم لے سکتی ہے۔سعودی عرب کو بطورِ خاص متنبہ رہنا ہے کہ جنرل سیسی کی حمایت کر کے، انہوں نے عالمِ اسلام میں عوام الناس کی ہمدردیوں کو بڑی حد تک کھو دیا ہے۔اگر وہ مسلم دنیا کی قیادت چاہتے ہیں تو اس کے لیے حرمین شریفین کی خدمت کے علاوہ انہیں مسلم دنیا میں جنم لینے والے احساسات کو بھی پیش ِنظر رکھنا ہوگا۔پاکستان میں سعودی عرب کے دوستوں کو چاہیے کہ وہ اس معاملے میں ان کے ساتھ خیر خواہی کا حق ادا کریں۔ان کے حق میں جلسوں اور ریلیوںکے انعقاد سے سعودی عرب کو کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔اس باب میں انہیں مو لانا ابوا لحسن علی ندوی کے طرزِ عمل کو مثال بنا نا چاہیے۔وہ انہیں ایسی نصیحت کریں جو ان کے لیے باعثِ خیر ہو۔
واقعہ یہ ہے کہ یمن کا فساد مذہبی نہیں ہے۔لیکن یہ بھی خلافِ واقعہ نہیں ہے کہ ہم ہر تصادم اور واقعے کو مذہبی رنگ میں دیکھتے ہیں۔اسی لیے ہمیں دنیا دو گروہوں میں منقسم دکھائی دیتی ہے: حزب اللہ اور حزب الشیطان ۔یہ الگ بات ہے کہ ہم اس کا تعین نہیں کر سکتے۔سعودی عرب اور ایران کے تصادم میں کون کیا ہے ؟داعش اور عرب ریاستوں کے جھگڑے میں حزب اللہ کون ہے؟یہی معاملہ پیش گوئیوں کا بھی ہے۔ہر دور میں لوگ دارالفتن کی روایتوں کو لیتے اور ان کا مصداق اپنے عہد میں تلاش کر تے رہے۔یہ مشق آج بھی جاری ہے۔اگر ہم دنیا کے مسائل کو غیر مذہبی سمجھ کر ان کا جائزہ لیں تو میرا خیال ہے کہ معاملے کی تفہیم آسان ہو سکتی ہے۔پھر سعودی عرب یا ایران کے حق میں کوئی مذہبی استدلال تلاش کرنے کی ضرورت نہیں رہے گی۔اس وقت یہی پاکستان کی ضرورت ہے۔
ایران نے دنیا کو حقیقت کی نظر سے دیکھنا شروع کیا ہے۔ عربوں کو بھی ایسا ہی کرنا ہو گا اور ہمیں بھی۔جب ہم مانتے ہیں کہ یمن کا فساد مذہبی نہیں تو ہمیں اسے مذہبی حوالے سے نہیں دیکھنا چاہیے۔ہم اگر سعودی عرب کی حمایت کا فیصلہ کرتے ہیں تو اس وجہ سے نہ کریں کہ یہ مذہب کا تقاضا ہے۔ ہم اس کی اساس اس مقدمے پر رکھیں کہ پاکستان کا مفا د کیا ہے۔ اس کے بعد ہی ممکن ہو گا کہ ہم پاکستان کوفرقہ وارانہ آویزش کامرکز بننے سے روک سکیں۔ہم نے ماضی میں روس اور امریکہ کی سرد جنگ کو بھی مذہبی آنکھ سے دیکھا۔ آج کون ہے جو اس کی مذہبی تعبیر کا قائل رہ گیا ہے؟