"KNC" (space) message & send to 7575

روح قائد سے گفتگو

کیا آپ قائد اعظم کی روح سے ہم کلام ہونا چاہتے ہیں؟
گزشتہ اتوار ایک انگریزی روزنامے میں علی عثمان قاسمی کا ایک دلچسپ مضمون شائع ہوا۔ مضمون میں‘ وینکٹ دھولی پالا کی کتاب ''ایک نئی ریاست مدینہ کا قیام‘‘ میں سامنے لائی گئی ایک دستاویز کا تذکرہ ہے۔ یہ دستاویز ایک گفتگو کی روداد ہے جو روح قائد کے ساتھ کی گئی۔ یہ واقعہ ہے 13 مارچ 1955ء کا۔ قائد اعظم کی وفات سے کم و بیش سات سال بعد۔ مصنف نے اس کے لیے برٹش لائبریری میں موجود جناح پیپرز کی مائیکرو فلم سے استفادہ کیا۔ علی عثمان کی حسّ تحقیق انہیں نیشنل آرکائیوز آف پاکستان تک لے گئی اور یوں انہوں نے جناح پیپرز کے متعلقہ صفحات کی نقل حاصل کر لی۔
دستیاب ریکارڈ سے اس گفتگو کا سیاق و سباق معلوم نہیں کیا جا سکتا۔ یوں اس سوال کا جواب دینا مشکل ہے کی اس گفتگو کا اہتمام کس نے کیا اور کیوں؟ مضمون نگار نے ملک کے سیاسی حالات کو پیش نظر رکھتے ہوئے قیاس کیا ہے؛ تاہم اُن پر بھی واضح ہے کہ یہ محض قیاس ہے۔ یہ بات بھی اہم ہے کہ جب یہ گفتگو ہوئی تو منصہ شہود پر نہیں آئی۔ یوں یہ معلوم تاریخ کا حصہ نہیں۔ اب شاید مورخین اس کا کھوج لگائیں کہ اس گفتگو سے کیا حاصل کرنا مقصود تھا اور کیا کسی کو اس سے کوئی فائدہ پہنچا؟ اس ریکارڈ کے مطابق یہ گفتگو ایک ماہر روحانیات کے توسط سے ہوئی۔ جو آدمی قائد سے مخاطب ہے، وہ ابراہیم نام کا ایک سرکاری افسر ہے۔ انگریزی زبان میں کی گئی اس گفتگو کا ایک حصہ، میں آپ کے سامنے رکھ رہا ہوں۔
''ماہر روحانیات: آپ مسٹر جناح ہیں؟
قائد: جی ہاں دوست، میں جناح ہوں۔
ماہر روحانیات: تشریف رکھیں۔
قائد: میں بیٹھ چکا۔ مجھے یاد ہے کہ میں کچھ عرصہ پہلے بھی یہاں آیا تھا۔
ماہر روحانیات: جی ہاں ! آپ پہلے یہاں آ چکے ہیں۔
قائد: اس لیے مجھے یاد ہے۔
ماہر روحانیات: جب آپ پہلے تشریف لائے تھے تو آپ نے شکایت کی تھی کہ آپ ایک تاریک اور سرد مقام پر ہیں۔ اب آپ کیسے ہیں؟
قائد: جی، اُس وقت ایسا ہی تھا۔ لیکن اب میں ایک بہت اچھی جگہ پر ہوں جہاں شاندار روشنی ہے۔ بہت سے پھول ہیں اور میں بہت خوش ہوں۔
ماہر روحانیات: میرے ساتھ ایک دوست ہیں مسٹر ابراہیم، ایک سرکاری افسر۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ ایک بار آپ سے مل چکے۔ انہوں نے دو بارآپ کو خط بھی لکھا اور آپ نے ان کے جواب بھی دیے۔
قائد: مجھے اچھی طرح یاد نہیں، ایسا ہوا ہو گا۔
ماہر روحانیات: یہ آپ سے چند سوالات کرنا چاہتے ہیں۔
قائد: بہت اچھا۔ انہیں موقع دیجیے۔
مسٹر ابراہیم: کیا آپ ایک سگریٹ پینا چاہیں گے؟
قائد : جی ہاں۔ ( ایک سگریٹ سلگا کر ایک جگہ پر رکھ دیا گیا)۔‘‘
یہ اس گفتگو کا ابتدائیہ ہے۔ اس کے بعد قائد اعظم سے پاکستان کے حالات پر سوالات کیے گئے۔ قائد نے ان پر تشویش کا اظہار کیا۔ ان کے نزدیک قومی قیادت میں موجود خود غرض عناصر پاکستان کے بحران کا سبب ہیں۔ قائد سے جب راہنمائی کی درخواست کی گئی تو انہوں نے اس سے معذرت کر لی کہ یہاں بیٹھ کر میں کوئی راہنمائی نہیں دے سکتا۔ ان کا کہنا تھا کہ یہاں پاکستان کی جو تصویر دکھائی دے رہی ہے، وہ بہت خوشگوار نہیں۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا پاکستان کا مستقبل خوشحال اور بہتر ہے؟ اس پر ان کا کہنا تھا: ''میرا نہیں خیال۔ کسی ملک کی خوشحالی کا دارومدار ان لوگوں کی بے غرضی پر ہوتا ہے جن کے ہاتھ میں قوم کی باگ ڈور ہو۔‘‘ ایک سوال محترمہ فاطمہ جناح سے متعلق بھی پوچھا گیا۔ اس پر قائد نے کہا: ''میں ان کے لیے ٹھنڈے دل و دماغ کی خواہش رکھتا ہوں۔ انہیں سیاست سے دور رہنا چاہیے۔ انہیں اپنے آپ کو خدائے بزرگ و برتر کی عبادت کے لیے وقف کر دینا چاہیے۔‘‘
یہ گفتگو دلچسپ ہے تاہم اس کے محرکات کا تعین آسان نہیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ روح قائد کے ساتھ ایسی ایک نشست اس سے پہلے بھی ہو چکی ہے۔ کیا اس کا کوئی ریکارڈ بھی کہیں محفوظ ہے؟ یہ مسٹر ابراہیم کون تھے؟ اس گفتگو کے باب میں قیاس ہی کیا جا سکتا ہے۔ میرا قیاس دو اطراف کو جاتا ہے۔ ایک یہ کہ ہمارے ہاں ایک مکتب فکر موجود رہا ہے جو تاریخِ پاکستان کی ایک مابعدالطبیعیاتی تعبیر کرتا ہے۔ اس کا خیال ہے کہ قیام پاکستان ایک الٰہی فیصلہ تھا۔ اس مقدمے کا تمام تر انحصار خوابوں پر ہے۔ مولانا اشرف علی تھانوی سے لے کر کئی معروف افراد تک، یہ سلسلہ پھیلا ہوا ہے۔ پاکستان کی ابتدائی تاریخ میں قدرت اللہ شہاب جیسے لوگ بیوروکریسی میں موجود رہے ہیں‘ جو زندگی کو اسی آنکھ سے دیکھتے تھے۔ ممکن ہے یہ انہی کی جولانیٔ فکر کا نتیجہ ہو لیکن اس کا ذکر ''شہاب نامہ‘‘ میں نہیں ہے۔ دوسرا قیاس محترمہ فاطمہ جناح کے سیاسی کردار سے متعلق ہے۔ اس گفتگو سے یہ واضح ہے کہ قائد اعظم ان کے سیاسی کردار کی تحسین نہیں کر رہے۔ وہ انہیں سیاست سے دور رہ کر اﷲ اﷲ کرنے کا مشورہ دے رہے ہیں۔ محترمہ فاطمہ جناح کا سیاسی کردار کن لوگوں کو کھٹکتا تھا، ان کو پہچاننا بہت مشکل نہیں ہے۔ کن لوگوں نے انہیں غدار قرار دیا اور انتخابات میں ان کے خلاف دھاندلی کے مرتکب ہوئے، قوم انہیںجانتی ہے۔ یہ ممکن ہے کہ انہیں سیاست سے دور رکھنے کے لیے اس گفتگو کا اہتمام کیا گیا ہو؛ تاہم ایک بات اس قیاس کے راستے میں حائل ہے۔ محترمہ فاطمہ جناح کے خلاف کسی مہم میں، قائد کی اس گفتگو کو استعمال نہیں کیا گیا۔ اگر ایسا ہوتا تو لازم تھا کہ اس سے فائدہ اٹھایا جاتا۔ یوں بھی محترمہ کا سیاسی کردار تو بہت بعد میں سامنے آیا، جس کی 1955ء میں پیش بندی دور کی کوڑی معلوم ہوتی ہے۔
اس گفتگو سے، اس لیے کوئی واضح نتیجہ اخذ کرنا مشکل ہے کہ یہ ایک بے معنی مشق بھی ہو سکتی ہے، جس کا کوئی تعلق ممکن ہے کہ کسی سیاسی مقصد سے نہ ہو۔ یہ بات البتہ قابل غور ہے کہ اسے باقاعدہ ریکارڈ کا حصہ کیوں اور کیسے بنایا گیا؟ تاریخ کا کوئی استاد یا طالب علم اس کا کھوج لگا سکتا ہے؛ تاہم اس بحث کا ایک زاویہ حال اور مستقبل سے متعلق بھی ہے۔ اگر روح قائد سے 1955ء میں گفتگو ممکن تھی تو 2015ء میں کیوں نہیں؟ قائد کے باب میں کچھ سوالات آج بھی اٹھ رہے ہیں۔ کیا ہی اچھا ہو کہ کوئی ماہر روحانیات آج بھی اس کا اہتمام کرے کہ روح قائد کو طلب کرے اور ان کے خیالات جان لے۔ اگر کوئی روحانیات کا ماہر ایسا کر سکے تو میری درخواست ہے کہ وہ قائداعظم سے ایک سوال ضرور پوچھے: وہ کیسا پاکستان چاہتے تھے؟ سیکولر یا اسلامی؟ اگر اسلامی تو کون سا؟ طالبان والا، ایران والا، سعودی عرب والا یا اقبال والا؟ اگر انہوں نے کہہ دیا کہ اقبال والا تو پھر ایک نئی بحث کھڑی ہو جائے گی کہ اقبال کیسا پاکستان چاہتے تھے؟ لگتا ہے ماہر روحانیات کو ایک بار پھر زحمت دینا پڑے گی کہ روح اقبال کو بھی حاضر کیا جائے۔ جہاں زندہ لوگ مسائل کے حل کی صلاحیت نہ رکھتے ہوں، وہاں ماہر روحانیات ہی پر بھروسہ کیا جاتا ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں