تبدیلی کیا کراچی کے دروازے پر دستک دے رہی ہے؟ یقینا لیکن اس مفہوم میںنہیں، جس میں یہ لفظ پچھلے آٹھ ماہ سے مستعمل ہے۔
الفاظ کا معاملہ بھی عجیب ہے۔اُن کا مفہوم لغت سے نہیں، استعمال سے متعین ہو تا ہے۔لغت لفظ کی بناوٹ کی خبر دیتی ہے۔ وہ یہ بھی بتاتی ہے کہ لفظ کے کیا کیا مفاہیم ممکن ہیں اور کیسے ارتقائی مراحل ان مفاہیم پر اثر انداز ہوئے ہیں۔لفظ کلام کے داخلی اور خارجی نظم میں بندھا ہو تا ہے۔ یوں اس کا مفہوم سماجی اور مقامی سیاق و سباق کا محتاج ہو تا ہے۔قرآن مجید کی تفسیر میں لوگوں نے اس بات کو نظر انداز کیا اور یوں اللہ کی کتاب کو چیستاں بنا دیا جس کا دعویٰ ہی یہ ہے کہ وہ عربیٔ مبین میں نازل ہوئی۔'تبدیلی‘ کا لفظ تحریکِ انصاف اوردھرنا سیاست کے پس منظر میں،جس طرح سوئے استعمال کی نذر ہوا ،اس کے بعد اب یہ بتا نا پڑتا ہے کہ کالم نگار کا سیاق و سباق دوسرا ہے۔اسے عمومی مفہوم میں لیا جائے جو اس شاذ مطلب سے پہلے سمجھا اور جا ناجا تا تھا۔کراچی میں تبدیلی کا مفہوم کسی ضمنی انتخاب میں تحریکِ انصاف کی امکانی کامیابی سے نہیں ہے۔
یہ تبدیلی کیا ہے؟کراچی میں جرم اور سیاست کو الگ کیا جا رہا ہے۔یہی حقیقی تبدیلی ہے۔میں نے بار ہالکھاہے کہ جرم اور سیاسی عصبیت مل جائیں تو جرم کی سنگینی کئی گنا بڑھ جا تی ہے۔ایسے مجرموں پر ہاتھ ڈالنا بسا اوقات مشکل ہی نہیں ناممکن ہو تا ہے۔مجرم اسی سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔کراچی میں بھی ایسا ہی تھا۔تاہم فطری ترتیب سے ایک وقت آتا ہے جب سماج خود جرم اور سیاست کے اس اتحاد کے خلاف یکسو ہو جاتا ہے۔اُس وقت اگر ریاست کوئی اقدام کرتی ہے توپھر کسی ردِ عمل کا امکان نہیں رہتا۔کراچی میں اب یہ وقت آ گیا ہے۔وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ، جرم ا ور سیاست کا یہ اجتماع صرف ایم کیو ایم تک محدود نہیں رہا۔دوسرے گروہوں نے بھی اسے بقا کی واحد صورت جانا اور یوں یہ عمل پھیلتا چلا گیا۔یہاں تک کہ زندگی مفلوج ہوتی گئی۔اب ایم کیو ایم کے حامیوں نے بھی جان لیا کہ جرم اور سیاست ایک ساتھ نہیں چل سکتے۔ریاست جو اس باب میں یک سو نہیں تھی، اسے بھی اقدام کا موقع مل گیا۔
اس تبدیلی کے نتیجے میں، ایم کیو ایم اگر ایک سیاسی قوت کے طور پر زندہ رہنا چاہے تو اس کے لیے اسباب مو جود ہیں۔لیکن اگر وہ یہ چاہے کہ جرم ا ورسیاست کا پرانا اتحاد برقرا ررہے تو یہ اب ممکن نہیں ہو گا۔اس تبدیلی سے حوصلہ پا کر، تحریکِ انصاف اور دوسری جماعتیںبھی متحرک ہو گئی ہیں۔اب کراچی میں سیاست ہو گی۔یہ ایک مثبت عمل ہے ۔اس میں یہ بات بے معنی ہے کہ کسی حلقہ ء انتخاب میں کو ن سی جماعت کامیاب ہو تی ہے۔ ایم کیو ایم اگر ایک سیاسی عمل کا حصہ بنتی اور کامیاب ہو تی ہے تواس میں کوئی برائی نہیں۔ ایم کیو ایم کو بھی شایداس تبدیلی کا احساس ہوگیا۔ اب وہ ہر اس آ دمی سے اعلانِ لاتعلقی کر رہی ہے جو کسی جرم میں ملوث پا یا جارہا ہے اور خود اس کا اعتراف کر رہا ہے۔اگر یہ عمل جاری رہتا ہے تو اس لاتعلقی کا دائرہ بیرون ملک تک پھیل سکتا ہے۔اگر ایسا ہوتا ہے تو پھر سمجھا جائے گا کہ تبدیلی اپنے منطقی انجام تک پہنچ گئی ہے۔
حلقہ NA-246کے ضمنی انتخابات،تبدیلی کے اس عمل کو مہمیز دیں گے۔واقعہ یہ ہے کہ جماعت اسلامی نے جس جرأت کے ساتھ جرم اور سیاست کے اس اجتماع کے خلاف آواز اٹھائی اور قربانی دی،وہ اس تبدیلی کے بنیادی محرکات میں شمار ہوگی۔اگرچہ ایسے واقعات کا ذکر بھی ہوا جب جماعت اسلامی پر تشدد کا الزام لگا اور سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں اس جانب اشارہ بھی کیا،لیکن فی الجملہ جماعت تشدد کا ہدف رہی نہ کہ محرک۔اس وجہ سے اس حلقے میں اگر ایم کیو ایم کا کوئی حقیقی حریف ہے تو وہ جماعت اسلامی ہے۔ تحریکِ انصاف کراچی کی سیاست میں نو وارد ہے۔میڈیا کی حمایت اور گلیمر نے کراچی میں اُسے حقیقی سائز سے بڑا کر کے دکھایا ہے۔ اس حلقے میں تحریکِ انصاف کی جیت کا امکان زیادہ نہیں۔اگر وہ اپنا امیدوار جماعت اسلامی کے حق میں بٹھا دے توجہاں اس کا بھرم قائم رہے گا وہاں جماعت اسلامی کے ساتھ اس کے اتحاد کو بھی تقویت ملے گی۔
ایم کیوایم کے بارے میں خیال یہی ہے کہ وہ اس حلقے میں مضبوط سیاسی قوت ہے۔یہاں اگر جرم بروئے کار نہ آئے تو بھی،اس کی جیت کے امکانات ، سب سے زیادہ ہیں۔اس حقیقت سے انکار محال ہے کہ ایم کیو ایم ایک سیاسی قوت بھی ہے۔یہ حلقہ اس کا مظہر ہے۔ڈاکٹر اعجاز شفیع گیلانی کا تجزیہ یہ ہے کہ دھاندلی بالعموم وہی کرتا ہے جو جیتنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ایم کیو ایم دھاندلی کے بغیر بھی جیت سکتی ہے۔میرا خیال ہے کہ اگر متحدہ ان انتخابات ،میں کامیاب ہو تی ہے تویہ اس کے لیے اعتماد کا باعث بنے گی اورداخلی حلقوں میں اس سوچ کو فروغ دے گی کہ جرم کی تائید کے بغیربھی سیاسی جدو جہد نتیجہ خیز ہو سکتی ہے۔ایم کیو ایم کو اب اسی سوچ کی ضرورت ہے۔
تاریخ کا سبق یہ ہے کہ اگر کوئی گروہ سیاسی عصبیت رکھتا ہے تو اسے مصنوعی طریقے سے مٹا یا نہیں جا سکتا۔ ایسی ہر کوشش ناکام ہو ئی ہے۔جنرل ضیاالحق نے پیپلزپارٹی کو اسی طریقے سے ختم کر نا چاہا۔نتیجہ یہ ہوا کہ جب وہ دنیا سے رخصت ہوئے، پہلے انتخابات ہی میں پیپلزپارٹی برسرِ اقتدار آ گئی۔ جنرل مشرف نے یہی سلوک ن لیگ کے ساتھ کیا۔اس کا انجام بھی ہمارے سامنے ہے۔آج جنرل صاحب غداری کے مقدمات بھگت رہے ہیں اور ن لیگ برسرِ اقتدار ہے۔متحدہ کے معاملے میںہمیں یہ تاریخ نہیں دھرانی چاہیے۔جرم کو سیاست سے الگ کر نا ضروری ہے لیکن اس میں دوباتیں ضرور پیشِ نظر رکھنی چاہئیں۔ ایک یہ کہ یہ عمل صرف ایم کیو ایم تک محدود نہیں رہنا چاہیے۔دوسری جماعتوں کے جرائم پیشہ عناصر بھی قانون کی گرفت میں آنے چاہئیں۔ دوسرا یہ کہ ایم کیو ایم کو سیاسی قوت کے طور پر پنپنے کا موقع ملنا چاہیے اور اسے مصنوعی طور پر ختم کر نی کی کوشش نہیں کر نی چاہیے۔
یہ بات بھی اہم ہے کہ متحدہ کو خود اس تبدیلی کا کتنا احساس ہے۔کیا اس نے نوشتہ ء دیوار پڑھ لیا ہے؟کیا اسے اندازہ ہو گیا کہ کراچی میں جرم اور سیاست کا اتحادمزید جاری نہیں رہ سکتا؟بقا کا اصول یہ ہے کہ خود کوتبدیلی کے سانچے میں ڈھا لا جائے۔جو جا ندار، اس کا اہتما م نہیں کرتا، قانون ِفطرت کے تحت وہ مٹ جا تا ہے۔ڈارون کی یہ بات سیاست اور سماج کے باب میں درست ثابت ہوئی ہے۔قومی جماعتیں اگر اپنا کردار موثر طور پر ادا کر سکتیں تو مہاجروں کو کسی سیاسی جماعت کی ضرورت نہیں تھی۔ایم کیو ایم کا ابھرنا اس بات کی دلیل تھی کہ سیاسی جماعتیں انہیں اپنے وجود میں سمیٹنے میں ناکام رہیں۔ تحریکِ انصاف اور جماعت اسلامی اگر انہیں متبادل فراہم کر سکیں تو یہ ایک مثبت پیش رفت ہوگی؛ تاہم اگر مہاجر خود کو سیاسی طور پر منظم کرتے ہیں تو اس میں بھی کوئی حرج نہیں۔سب کوبہرحال کراچی میں آنے والی اس تبدیلی کاادراک کر نا ہوگا۔ تبدیلی شاذ معنوں میں نہیں، مستعمل معنوں میں!