"KNC" (space) message & send to 7575

قومی مزاج کی ایک جھلک

چین کے صدر نے پاکستان کا دوروزہ دورہ کیا۔اس دورے پر ہمارا ردِ عمل ہمارے عمومی رویے کا ایک دلچسپ پرتو ہے۔ آئیے، آپ کو چند جھلکیاں دکھائیں۔
٭ اس ملک میں بطلِ حریت ہونے کے لیے لازم ہے کہ حکومتِ وقت کے کسی اقدام کی تعریف نہ کی جائے۔ یہ صرف اہلِ سیاست کا معاملہ نہیں ہے، اس کا اطلاق زندگی کے ہر طبقے پر ہوتا ہے۔کراچی میں امن آیا ہے تو اس کا کریڈٹ عمران خان کے نام۔وزیرستان میں آیا ہے تواس کا سہرا کسی اور کے سر۔رہی حکومتِ وقت تو اس کے لیے کلمۂ خیر کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ہم حکومت کے ہاتھوں بکے ہوئے ہیں۔ اس الزام سے بچنے اورخود کو بطلِ حریت ثابت کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ہر قابلِ مذمت اقدام حکومت کے نام کیا جائے اور ہر کارِ خیر کا کریڈٹ کسی اور کو دیا جائے۔ اسی کا اظہار چینی صدر کی آ مد پر بھی ہوا۔ معلوم ہوا کہ اس میں نواز شریف صاحب کا کردار بس اتنا ہے کہ پروٹوکول کا فریضہ انہوں نے نبھانا ہے۔ جہاں تک اس دورے کو مشکلات کے باوجود ایک عملی حقیقت بنانے کاسوال ہے تو اس میں اُن کا کوئی کردار نہیں۔ ہاں، چین کے ساتھ معاہدوں میں اگر کوئی خرابی ہے تو اس کی تمام تر ذمہ داری حکومت پر ڈالنا ہم نہیں بھولے۔
٭ چینی صدر کی آمد کوئی ایسی بڑی خبر نہیں۔ لوگ آتے جاتے رہتے ہیں۔ اصل خبر یہ ہے کہ عمران خان نے کیا کہا۔ پرویز رشید صاحب نے جواباً کیا فرمایا اور ہاں، کراچی کے ضمنی انتخاب میں کیا ہو رہا ہے۔ میں نے چینی صدرکی آ مد کے بعد ایک ٹی وی چینل دیکھا۔ مہمان کا آنا خبروں کی ترجیحات میں اِس کا مستحق قرار پایا کہ اسے چھٹی خبر کے طور پر نشر کیا گیا۔ اس سے کہیں اہم خبر یہ تھی کہ کراچی کے ضمنی انتخابات کی ایک کارنر میٹنگ میں عمران اسماعیل نے کن خیالات کا اظہار کیا۔ بھارت سمیت دنیا کے میڈیا میں اسے بریکنگ نیوزکے طور پرپیش کیا گیا لیکن ہمیں اس سے کوئی غرض نہیں۔
٭ چین امریکہ کاایک متبادل ہے۔ لہٰذا ہمیں جلد از جلد امریکہ سے جان چھڑا کر خود کو چین سے وابستہ کر لینا چاہیے۔ ہم نے کبھی چین سے پو چھنے کی کوشش نہیں کی کہ کیا وہ خود کو امریکہ کا متبادل سمجھتا ہے یا اس تگ و دو میں ہے کہ اسے متبادل مان لیا جا ئے۔ جب محترم منور حسن صاحب نے بطور امیر جماعت اسلامی چین کا دورہ کیا تو واپسی پر ان سے ملاقات ہوئی۔ میں نے ان سے پوچھا کہ کیا اس مو ضوع پرکوئی بات ہوئی کہ عالمی سطح پر امریکی بالادستی کے خلاف اقوامِ عالم کاکوئی اتحاد وجود میں آئے؟کیا چین اس میں کوئی دلچسپی رکھتا ہے؟ منور صاحب کا کہنا تھا کہ ہم نے اس پر بات کی لیکن چینی قیادت کی طرف سے کسی گرم جوشی کا اظہار نہیں ہوا۔ ان کا تاثر تھا کہ چین کی ساری توجہ اپنی تعمیر پر ہے۔ دیگر شواہد بھی یہی کہہ رہے ہیں۔ چین اس وقت عالمی سیاست میںکسی عملی کردار کے لیے کوئی دلچسپی نہیں رکھتا۔ وہ امریکہ سے بھی الجھنا نہیں چاہتا۔
آج معاملہ یہ ہے کہ امریکہ اور چین کے مابین نوے اداراتی تعامل جاری ہیں۔اس کا مطلب یہ ہے کہ کم از کم نوے ایسے ریاستی و حکومتی ادارے ہیں جو باہمی طور پر ایک دوسرے سے معاملہ کررہے ہیں۔ یہ بین الاقوامی تعلقات کے باب میں ایک منفرد معاملہ ہے۔ امریکہ اپنے کسی اتحادی کے ساتھ بھی اس سطح کا تعامل نہیںکر رہا۔ اس وقت امریکہ چین کی برآمدات کا سب سے بڑا مرکز ہے ۔ دوسری طرف کینیڈا اور میکسیکو کے بعد چین امریکی برآمدات کا سب سے بڑا مرکز ہے۔ اس میں شبہ نہیں کہ چین دنیا میں سب سے تیزی کے ساتھ ترقی کرتی معیشت ہے لیکن اس کے باوجود امریکہ اور چین کے مابین ایک بڑا فاصلہ حائل ہے۔ یہ معیشت میں ہے اوراس کے ساتھ سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں بھی۔ چین کے لیے ابھی ممکن نہیں ہے کہ وہ اسے چیلنج کرے۔ چین کو یہ بات اچھی طرح معلوم ہے۔ اس لیے وہ پہلے خود کو معاشی استحکام کے ایک خاص درجے تک لا نا چاہتا ہے۔ اس کے بعد یقیناً وہ عالمی سیاست میں ایک بڑاکردار ادا کرے گا لیکن اس میں ابھی بہت وقت ہے۔ دنیا کا کوئی ملک اس بات کا متحمل نہیں ہو سکتا کہ آج امریکہ سے بیر پال کر آسودہ زندگی گزار سکے۔ ہمارے لیے بھی سبق یہی ہے کہ چین اور امریکہ کے ساتھ تعلقات کو ایک دوسرے کے ساتھ مشروط نہ کیاجائے۔ چین بھی ہم سے اس طرح کا کو ئی مطالبہ نہیںکر رہا۔
٭ ایک خیال یہ ہے کہ چین پاکستان کا ایسا ایک دوست ہے جیسے گاؤںکے دو دوست ہوتے ہیں۔ وہ بھارت کے خلاف اور ہر میدان میں پاکستان کے شانہ بشانہ کھڑا ہو گا۔ یہ بات بھی خلافِ واقعہ ہے۔ بھارت کے ساتھ چین کا سرحدی تنازع ہے۔ 1962ء میں دونوں کے مابین جنگ ہو چکی۔ اس وقت بھی کشیدگی مو جود ہے۔ 2013ء میں آسٹریلیا کے ایک ادارے'لوئی انسٹیٹیوٹ فارانٹر نیشنل پالیسی‘ نے ایک سروے کیا۔ اس کے مطابق بھارت کے 83فیصد لوگوں نے چین کو سب سے بڑا 'سکیورٹی تھریٹ‘ قرار دیا۔ اس کے باوجود گزشہ سال جب موجودہ چینی صدر شی چن پنگ نے بھارت کا دورہ کیا تو انہوں نے اپنی پالیسی کے عین مطابق بھارت کو یہ پیغام دیا کہ ہم اپنے اختلاف کو ایک گٹھڑی میں باند ھ کر ایک طرف رکھیں اور باہمی تعاون کے امکانات کو تلاش کریں۔ چین نے یہی پیغام پاکستان کو بھی دیا کہ وہ بھارت کے ساتھ تعلقات کو اسی طرح آگے بڑھائے۔ اس پس منظر میں یہ خیال کر نا غیر حقیقت پسندانہ ہوگا کہ چین بھارت کے ساتھ کسی تصادم کی حمایت کر سکتا ہے۔
٭چین کے سیاسی و اقتصادی نظام کے بارے میں بھی ہمارے ہاں ابہام ہے۔ 1980ء کی دہائی سے چین نے جو نظام اختیار کیا،یہ سوشلزم اورکیپیٹل ازم کا ایک ملغوبہ ہے۔ چین نے عالمی معیشت کا حصہ بنتے ہوئے، فری مارکیٹ اکانومی کے تصورکو قبول کیا لیکن سرمایہ دارانہ نظام سے وابستہ جمہوریت اور انسانی حقوق کے تصورکو رد کر دیا۔ اس نے بعض مسائل کوجنم دیا۔ اس وقت چین میں امیر اور غریب کافرق بہت بڑھ گیا ہے۔ چین کی شہری آبادی دیہی آ بادی سے زیادہ ہو گئی ہے۔ حالیہ تاریخ کایہ شاید واحد واقعہ ہے۔
٭ اس دورے کے مو قعے پر بھی شہباز شریف صاحب سب سے زیادہ متحرک دکھائی دیے، وزیراعظم سے بھی زیادہ۔ چین کے ساتھ اقتصادی راہداری کا جو تاریخی معاہدہ ہوا ہے، اس کا سب سے زیادہ اثر بلو چستان پر پڑے گا۔ بلوچستان کے وزیراعلیٰ ایک ٹی وی انٹر ویو میں چین کے بارے میں منفی رائے کااظہارکر چکے ہیں۔ اس تاثرکے خاتمے کے لیے ضروری تھاکہ انہیں نمایاں رکھا جاتا۔ اس کے برعکس شہباز شریف جس طرح ممتاز رہے، اس سے یہ دکھائی دیتا تھا کہ جیسے چین کے صدر پاکستان کا نہیں، پنجاب کا دورہ کر رہے ہیں۔ شریف خاندان کے اسلوبِ حکومت کا یہ پہلو اس دورے میں بھی نمایاں رہا کہ حکومت میں آنے کے بعد ، وہ دوسرے ممالک کے ساتھ ریاستی سطح سے زیادہ ذاتی سطح پر تعلقات مستحکم کرنے کی کوشش کر تے ہیں۔ یہ تعمیر میں خرابی کی ایک ایسی صورت مضمر ہے جو ان کے لیے سیاسی مسائل کا سبب بن رہی ہے۔
صدر چین کا دورہ ہمارے قومی مزاج کا ایک پر تو تھا۔ ہم جیسے ہیں ویسے ہی دکھائی دیے۔ اگر اس قومی تصویر میں کوئی خوبی ہے تو اسے باقی رہنا چاہیے۔ اگر کوئی پہلو قابلِ اصلاح ہے تو اس پر توجہ دینے میں بھی کوئی حرج نہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں