"KNC" (space) message & send to 7575

ایم کیوایم، سیاسی عصبیت اور جرم

مکرر گزارش ہے کہ جرم اور سیاسی عصبیت جمع ہو جائیں تو پھرجرم و سزا کا عمومی قانون قابلِ عمل نہیں رہتا۔
دو باتوں سے انکار محال ہے۔ ایک یہ کہ الطاف حسین صاحب اور ایم کیو ایم ایک ساتھ نہیں چل سکتے۔ دوسرا یہ کہ ایم کیو ایم ایک سیاسی قوت بھی ہے جسے ریاستی طاقت سے مٹانا ایک نئے بحران کو جنم دے گا۔ دوسری بات پہلے۔
عبد اللہ ابن ابی مدینہ کا بڑا سیاسی لیڈرتھا۔ رسالت مآبﷺ اگر مدینہ تشریف نہ لا تے توحکمرانی کا تاج اسی کے سرپر رکھا جا نا تھا۔ آپﷺ کی آ مد نے اس کے سب خواب چکنا چور کر دیے۔ اُس کے دل میں ایسی گرہ پڑی کہ تمام عمرآپؐ کی ذاتِ گرامی کے درپے رہا۔ بظاہر ایمان قبول کیا مگر کوئی ایساموقع ہاتھ سے جانے نہ دیا جب وہ رسالت مآبؐ کی ذاتِ گرامی کو ہدف بنا سکتا تھا۔ ام المو منین سیدہ عائشہؓ پر تہمت لگی توقیادت اسی کے ہاتھ میں تھی۔ اللہ کے رسولؐ اس کی شرارتوں سے اتنا تنگ آئے کہ فرمایا:کوئی ہے جو مجھے اس کی اذیت ناکی سے نجات دلا سکے؟سید نا عمرؓ نے کہا: آپ فرمائیں تو زمین کو اس کے شر سے پاک کر دیا جائے۔آپؐ نے منع فرما دیا۔کچھ وقت گزرا تو آپؐ نے اس کی حکمت واضح فرمائی۔ ابن ابی کی شرارتیں اتنی عام ہوئیں کہ عام مسلمانوں پر بھی اس کا پول کُھل گیا۔ پھر وہ وقت آیا کہ اس کے بیٹے جو صاحبِ ایمان تھے، رسولؐ اللہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اوراجازت چاہی کہ وہ اس منافق کا سر تن سے جدا کر دیں۔ آپؐ کی رحمت نے درگزر کو ترجیح دی۔اس مو قع پرآپؐ نے اپنے موقف کی حکمت واضح فرماتے ہوئے سید نا عمرؓ کو مخاطب کیا اورکہا: عمر! جب تم چاہ رہے تھے، اس وقت اگر میں اجازت دیتا تو بہت سے حلقوں میں ردِ عمل ہوتا (آپؐ نے عربی کا ایک محاورہ ارشاد فرمایا) اور یہ بھی فرمایا: لوگ کہتے کہ محمدﷺ اپنے ساتھیوں کو قتل کرتا ہے۔ آج اگر میں اجازت دوں تو اس کا کوئی امکان باقی نہیں رہاکہ ردِ عمل ہو۔گویا اس کی سیاسی قوت ٹوٹ چکی۔ اگرچہ آپؐ کی رحمت اس وقت بھی غالب رہی اور آپؐ نے اسے معاف کر دیا، یہاں تک کہ دنیا سے رخصت ہوا تو اپنا کرتہ کفن کے لیے عنایت فرمایا۔
کس چیز نے آنحضرتؐ کواقدام سے روکا؟ابن ابی کی سیاسی عصبیت۔اسے فساد کے جرم میں سزا دی جا سکتی تھی لیکن آپ جانتے تھے کہ وہ ایک گروہ کا قائد ہے۔ اگر اس وقت اُس پر ہاتھ ڈالا گیا تو اسے کوئی مفہوم بھی دیا جا سکتاہے۔ آپؐ نے صبر کیا یہاں تک کہ وقت نے حقیقت کے چہرے پر کوئی نقاب باقی نہیں رہنے دیا۔ اس کا سیاسی زور ٹوٹا اوراس کا وجود وعدم ایک ہوگئے۔ وہ زندہ تھا لیکن زندگی سے دور۔
مشرقی پاکستان میں کیا ہوا؟ جرم اور سیاسی عصبیت جمع ہوگئے۔ ہمارے ذمہ داران نے اس کا خیال نہیں رکھا۔انہوں نے جرم کے ساتھ عمومی قانون کے تحت نمٹنا چاہا۔ نتیجہ ہمارے سامنے ہے۔ حسینہ واجد کی رگ رگ میں پاکستان کی نفرت کچھ اس طرح سرایت کرگئی ہے کہ وہ سفارتی آداب تک سے بے نیاز ہوگئی ہیں۔انہیں پاکستان کی شکست اتنی عزیز ہے کہ وہ اپنے جذبات چھپا نہیں سکتیں اور کرکٹ کے میدان میں دوڑی چلی آتی ہیں۔ ملک دو لخت ہوا سوہوا، لیکن نفرت آج بھی توانا ہے۔کراچی میں جرم کا زور توڑنا لازم ہے لیکن ریاست کو دیکھنا پڑے گا کہ جرم کی پشت پر سیاسی عصبیت بھی ہے۔ اس کا اصل امتحان یہ ہے کہ وہ ان دونوں کو الگ کرے۔ ریاست کی رٹ طاقت ہی سے نہیں، حکمت سے بھی وابستہ ہے۔ طالبان کے خلاف اقدام بھی اس وقت تک نتیجہ خیز نہیں ہو گا جب تک سماج میں موجود ان کی نظری عصبیت کے خاتمے کو مو ضوع نہیں بنایا جاتا۔
ایم کیو ایم نے ضمنی انتخابات میں اپنی سیاسی زندگی کا ثبوت دیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ سیاسی توانائی رکھتی ہے۔ اسے سیاسی قوت کے طور پر زندہ رہنے کے لیے جرم کی تائید کی ضرورت نہیں۔ اسے سنجیدگی سے سوچنا ہو گا کہ الطاف حسین اب جماعت کے لیے اثاثہ نہیں رہے، ایک بوجھ بن چکے ہیں۔ وہ سنگین الزامات کی گرفت میں ہیں۔ جب تک وہ اُن سے دامن نہیں چھڑا لیتے ، ایم کیو ایم کے لیے مسائل کا سبب رہیں گے۔ایم کیو ایم کو چاہیے کہ وہ الطاف صاحب سے یہ درخواست کرے کہ وہ رضاکارانہ طور پر قیادت سے الگ ہو جائیں ۔ اس کے بعد ان کے پاس دو راستے ہیں۔ ایک یہ کہ عدالت کا سامنے پیش ہوں اور اپنی صفائی دیں۔ دوسرا یہ کہ وہ خاموشی سے ایک طرف ہو جا ئیں۔کوئی تیسری صورت اس وقت دکھائی نہیں دیتی۔ آج وہ اپنی ذات ہی نہیں، جماعت کے لیے بھی مشکلات میں اضافہ کر رہے ہیں۔
ریاست کو بھی ایم کیو ایم کی قیادت سے بات کر نی چاہیے اور انہیں اس پر آمادہ کرنا چاہیے کہ وہ جرم اور سیاست میں طلاق کا اہتمام کریں۔ ریاست اس میں معاونت کرے۔ ریاستی ادارے بالخصوص فوج، اگر کسی سیاسی گروہ کے مقابلے میں فریق بن جائیں تواس کا نقصان ریاست ہی کو ہوتا ہے۔ ہم اس طرح کے بہت سے تجربات سے گزر چکے ہیں۔ عوامی لیگ کی مثال میں دے چکا۔ پیپلزپارٹی دوسری اور ن لیگ تیسری مثال ہے۔ اب ہمیں مزید تاریخ کو دہرانے سے گریز کرنا اور پرانے تجربات سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔ اس کے لیے دو کام ضروری ہیں۔ ایک یہ کہ حکومت اس تاثر کو ختم کرے کہ اس معاملے میں ایک طرف فوج اور دوسری طرف ایم کیو ایم ہے۔ عوام کو معلوم ہو نا چاہیے کہ یہ ایک سیاسی حکومت کا فیصلہ ہے، فوج اور رینجرزجس پرعمل پیرا ہیں۔ اس وقت حکومت کہیں دکھائی نہیں دیتی۔ اس آپریشن کی قیادت وزیر داخلہ کے پاس ہونی چاہیے نہ کہ ڈی جی رینجرز کے پاس۔ اگر کراچی کے واقعے پر عوام اور میڈیا تک کوئی خبر پہنچانی ہے تو یہ کام وزارتِ اطلاعات کو کرنا چاہیے۔
فوج کو بھی چاہیے کہ وہ اپنا مقدمہ حکومت کے سامنے رکھے۔ اگر الطاف حسین صاحب کی تقریر کے خلاف کسی قانونی چارہ جوئی کی ضرورت ہے تو یہ بات آئی ایس پی آر کی بجائے، وزارتِ اطلاعات کی طرف سے آنی چاہیے۔ فوج کا مقدمہ ریاست لڑے نہ کہ فوج خود فریق ہو۔ اگر کوئی فرد فوج کے خلاف کچھ کہتا ہے تو دراصل یہ ریاست کے خلاف اقدام ہے۔ اس کا جواب بھی ریاست ہی کو دینا چاہیے۔ آج ضروری ہے کہ فوج اور حکومت کے مابین ایک اشتراکِ عمل ہو اور حکومت فوج اور رینجرزکے ہراقدام کی ذمہ داری قبول کرے۔ یہ وحدتِ عمل اس وقت دکھائی نہیں دے رہی۔ اس کانقصان ریاست کو ہورہا ہے۔
ایم کیو ایم کو جرم سے پاک کرنا، اس وقت مطمح ِ نظر ہو نا چاہیے نہ کہ اس کو ختم کرنا۔ اس کے لیے ایک کام ریاست کوکرنا ہے اور دوسرا خود ایم کیو ایم کو۔ حکومت جرم کو ختم کرے لیکن ایم کیو ایم کی سیاسی فعالیت کے اسباب پیدا کرے۔ ایم کیو ایم الطاف حسین صاحب سے اظہارِ لاتعلقی کرے۔ اس کے لیے آسان تر راستہ یہ ہے کہ الطاف صاحب رضاکارانہ طور پر قیادت سے الگ ہو جائیں اور خود کو قانون کے سامنے پیش کرنے کاا علان کریں۔ اس سے ایم کیو ایم دفاعی حکمت عملی کے بجائے، ایک جوازکے ساتھ سیاسی میدان میں کھڑی رہ سکتی ہے۔
ریاست کی رٹ قائم رکھنے کے لیے صرف طاقت ہی نہیں، حکمت کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ سیدنا امیر معاویہؓ سے کسی نے کامیاب حکمرانی کا راز پوچھا۔ کہا: میں عوام کے ساتھ ایک دھاگے کے ساتھ بندھا ہوا ہوں۔ وہ کھینچتے ہیں تو میں ڈھیلا کر دیتا ہوں۔ وہ ڈھیلا کرتے ہیں تو میں کھینچ لیتا ہوں۔ سادہ لفظوں میں اسی کا نام حکمت ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں