کسی انتخابی ٹربیونل کا یہ پہلا فیصلہ ہے نہ ہی کسی حلقے میں بے قاعدگی کا پہلا واقعہ ؛ تاہم اس کی منفرد سیاسی اہمیت ہے۔ این اے 125 کے بارے میں یہ فیصلہ تحریکِ انصاف کے لیے نئی زندگی کا باعث بنا ہے اور ایک پہلو سے اُس کے مو قف کی تائید ہے۔ اِس کا دوسرا پہلو بھی ہے جو اُس کی حکمت ِ عملی کو غلط ثابت کر رہا ہے۔ تیسرا پہلو اس فیصلے کے عمومی اثرات سے متعلق ہے جو کم اہمیت کے حامل نہیں۔
عمران خان جن چار حلقوں کو کھولنے کا مطالبہ کر رہے تھے، اُن میں سے ایک حلقہ این اے 125بھی تھا۔ انتخابی ٹربیونل کا فیصلہ یہ ہے کہ یہاں بے قاعدگی ہو ئی ہے۔ یہ ان کے موقف کی تائید ہے۔ یوں بظاہرباقی حلقوں کے بارے میں بھی ان کی رائے میں وزن پیدا ہو گیا ہے۔ سعد رفیق صاحب نے اس باب میں جو موقف اختیار کیا ہے، وہ کمزور ہے۔ یہ کہنا کہ اس کا ذمہ دارانتخابی عملہ ہے، وہ نہیں، ایک کمزور دلیل ہے۔ ایسے مقدمات میں یہ دیکھا جا تا ہے کہ فائدہ کسے ہوا۔ اگر عملے نے اس بے ضابطگی پر نظر نہیں رکھی جس کا فائدہ سعد رفیق صاحب کو پہنچ رہا تھا تو اس سے جہاں عملہ مجرم ثابت ہو تا ہے، وہاں امیدوار بھی بری الزمہ نہیں ہوسکتا۔ یہی سبب ہے کہ انتخابی عذرداریوں کا فیصلہ ہمیشہ کسی امیدوار کے حق یا کسی کے خلاف دیا جا تا ہے۔
اب آئیے دوسرے پہلو کی طرف۔ یہ فیصلہ اُسی نظام کی عطا ہے، جس پر عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے عمران خا ن نے دھرنا دیا تھا۔ یہ وہی ٹربیونل ہے جس کی طرف رجوع کر نے کا انہیں مشورہ دیا جا تا تھا۔اسی سے انہیں بار بار نوٹس ملتے تھے اور وہ وہاں مقدمہ درج کرانے کے باوجودحاضر نہیں ہو تے تھے۔ اس راستے کی مو جود گی میں انہوں نے دھرنے کا فیصلہ کیا توکیوں؟ اس قوم کے آٹھ ماہ برباد ہوئے اوراس ملک کی معاشرت ، معیشت اور سیاست پر ایسے منفی اثرات مرتب ہوئے، جنہیں ختم ہونے میں، نہیں معلوم کتنا وقت لگے۔ ٹربیونل کا فیصلہ بتا رہا ہے کہ عمران خان کا دھرنا ایک غیر ضروری قدم تھا اور اِس فیصلے سے اُس موقف کی تائید ہوتی ہے جو جاوید ہاشمی صاحب نے اختیارکیا اور جس کی دوسرے حلقے بھی تصدیق کررہے ہیں۔ دھرنا انتخابی دھاندلی کے خلاف نہیں، کسی اور مقصد کے لیے تھا، جو کہا جاتا ہے کہ حاصل ہو چکا۔ یہ فیصلہ اس بات کا اعلان ہے کہ احتجاجی سیاست کا راستہ غلط ہے۔ اس نظام میں خرابیاں ہیں اور وہ اصلاح طلب ہیں۔ اس اصلاح کے لیے لیکن پر امن اور قانونی جدو جہد کا راستہ کھلا ہے اور اسے اختیار کیا جا نا چاہیے۔
2013ء کے انتخابات ن لیگ کے اہتمام میں نہیں ہوئے۔ اگر انتخابی عمل میں کمزوریاں تھیں تو اِن کا فائدہ یا نقصان سب کو یکساں طور پر پہنچا۔ اِن کی اصلاح کے لیے انتخابی اصلاحات کی پارلیمانی کمیٹی بن چکی، جس میں تحریکِ انصاف شامل ہے۔ ہم بہتری کی طرف بڑھ رہے ہیں اور یہ کام ملک اورقوم کو کسی احتجاجی سیاست کے عذاب میں مبتلا کیے بغیر بھی ہو سکتا ہے۔ یہ فیصلہ دھرنا اور احتجاجی سیاست کی نفی کر رہا ہے۔ یہ کمزور بات ہے کہ دھرنا نہ ہو تا تو یہ فیصلہ نہ آتا۔ یہ جملہ بھی در اصل اس نظام پر عدم اعتماد کاا علان ہے۔ اس سے یہ بھی معلوم ہو تا ہے کہ اگر فیصلہ اِس کے برخلاف آتا تو تحریکِ انصاف کا ردِ عمل بالکل دوسرا ہوتا۔ اس فیصلے سے یہ سبق ملتا ہے کہ ہمیں عدالتی نظام پر بھروسہ کر نا چاہیے اور عدالت کے فیصلے کو تسلیم کر نا چاہیے، اگر وہ ہمارے خلاف بھی ہو۔ تسلیم کر نے کا مطلب یہ نہیں کہ آپ اپیل کا حق استعمال نہیں کر سکتے۔ اپیل کا حق ظاہر ہے قانون دیتا ہے اور اس کا استعمال نظام پر عدم اعتماد نہیں۔
اس فیصلے کو عمومی رنگ دینا بھی میرے نزدیک قرینِ انصاف نہیں۔ ایک حلقے میں اگرکوئی بے ضابطگی ہوئی ہے، تو اس کا یہ مطلب کسی طرح نہیں لیا جا سکتا کہ باقی حلقوں کا معاملہ بھی یہی ہے۔ این اے 19 کا فیصلہ ہمارے سامنے ہے۔ ابتدائی نتائج میں تحریکِ انصاف کے راجہ عامر زمان کامیاب قرار پائے، ن لیگ کے امید وار عمر ایوب نے دھاندلی کا الزام لگایا اور انتخابی ٹربیونل کا رخ کیا۔ سات حلقوں میں دھاندلی ثابت ہوئی اور دوبارہ پولنگ کا حکم جاری ہوا۔ نتیجہ سامنے آیا تو عمر ایوب کو کامیاب قرار دیا گیا۔ اگر این اے 19 کے انتخابات کا بارے میں عدالتی فیصلے سے یہ نتیجہ اخذ نہیں کیا جا سکتا کہ سارا انتخابی عمل مشتبہ تھا یا تحریکِ انصاف کا ہر امیدوار دھاندلی سے جیتا ہے تو این اے 125 کے فیصلے سے یہ نتیجہ برآمد کر نا بھی درست نہیں۔ یہ ایک حلقے کے بارے میں فیصلہ تھا اور اسے یہاں تک ہی محدود رکھنا چاہیے۔ جہاں تک اس مقدمے کا تعلق ہے کہ تمام تر انتخابی عمل مشکوک ہے یا کسی ایک جماعت کوجتوا نا مقصود تھا، اس کے لیے ہمیں عدالتی کمیشن کے فیصلے کا انتظار کر نا چاہیے۔
میرے نزدیک اس فیصلے کے عمومی اثرات بھی ہیں جو کم اہم نہیں۔ ایک مدت کے بعد یہ احساس ہوا تھا کہ پاکستان میں زندگی معمول کی طرف لوٹ رہی ہے۔ دہشت گردی کے خلاف اور کراچی میں فیصلہ کن آپریشن جاری ہیں اورآثار یہی ہیں کہ انشاء اللہ یہ نتیجہ خیز ہوں گے۔ معیشت اپنے پاؤں پر کھڑی ہو رہی ہے۔'اکانومسٹ‘ کی گواہی ایسی نہیں جسے آسانی سے نظر انداز کیا جا سکے۔ آج افراطِ زر کی شرح، گزشتہ دس سال کے مقابلے سب سے کم ہے۔ چین کی سرمایہ کاری عالمی معیشت کی ایک بڑی خبر ہے۔ افغانستان کے باب میں سٹریٹیجک ڈیپتھ کو خیر باد کہہ دیا گیا ہے اور باہمی تعلقات کے ایک نئے دورکا آ غاز ہو گیا ہے۔ اس کی ایک شہادت اشرف غنی صاحب کا بے ثمر دورہ بھارت ہے۔ آج تمام پیمانے یہی بتا رہے ہیں کہ بہتری کا عمل شروع ہو چکا۔ اس کا
کریڈٹ اگر کوئی حکومت کو نہ دینا چاہے تو وہ اس کا حق رکھتا ہے لیکن وہ اس بات کا اعتراف ضرورکرے گا کہ اصلاحِ احوال کے سفر کا آغاز ہو چکا۔
معمول کی طرف لوٹتی اس فضا میں ٹربیونل کے فیصلے نے ایک ارتعاش پیدا کر دیا ہے۔ تحریکِ انصاف کی بے سمت قومی سیاست کو ایک سہارا مل گیا ہے۔گزشتہ چند ماہ میں عمران خان کو اندازہ ہو چلا تھا کہ انہیں خیبر پختون خوا پر اپنی توجہ مرتکز کر نی چاہیے۔ اب وہ ایسا کررہے تھے اور اس کے اچھے نتائج سامنے آنے لگے تھے۔ معلوم ہوتا تھا کہ سیاست مثبت مسابقت کے مر حلے میں داخل ہو گئی ہے اوراسی میں ملک کا بھلا تھا۔ اس فیصلے سے ہو سکتا ہے کہ ایک بار عدم استحکام کا دروازہ کھل جائے۔ مجبوری سے چپ بیٹھنے والا جنون پھر بیدار ہو جائے اورعمران خان اس سیاست کا رخ کریں جس سے انہیں اور ملک کو بہت نقصان ہو چکا۔ وہ کئی دنوں سے 2015ء کو انتخابات کا سال قرار دے رہے ہیں۔ ایسا نہ ہو کہ و ہ اس خواہش کو حقیقت بنانے کے لیے پھر سڑکوں پہ نکل آئیں۔
میرا خیال ہے کہ یہ فیصلہ سیاسی قوتوں بالخصوص تحریکِ انصاف کا امتحان ہے۔ اگر عدالتی کمیشن یہ فیصلہ دیتا ہے کہ انتخابات میں منظم دھاندلی ہوئی ہے اور ایک جماعت کو کامیابی دلانا مقصود تھا تو عمران خان نئے انتخابات کے مطالبے کا حق رکھتے ہیں۔ بصورتِ دیگر انہیں 2018ء کا انتظار کر نا چاہیے ۔ ن لیگ کے لیے زیادہ بہتر راستہ یہ ہے کہ وہ اپیل کے بجائے عوام کی طرف رخ کرے اورنئے انتخابات کو ترجیح دے۔ ن لیگ کی سیاسی ساکھ اس سے بحال ہوجائے گی جسے ٹربیونل کے فیصلے سے دھچکا لگا ہے۔