''رجوانہ صاحب یقینا شریف آ دمی ہیںلیکن سوال یہ ہے کہ کیا شریف آ دمی جنوبی پنجاب کے مسائل حل کر سکتا ہے؟‘‘
یہ جملہ برادرم رئوف کلاسرا کے کالم سے لیا گیا ہے۔اسے پڑھ کر میں سوچ رہا ہوں کہ اگر اس جملے میں 'جنوبی پنجاب‘ کے بجائے 'پاکستان‘یا 'دنیا‘ لکھ دیا جائے تو کیا پھر بھی اس کی معنویت برقرار رہے گی؟میرا جواب تو اثبات میں ہے۔
کسی سماج میں امورِ جہاں بانی، میرا تصورِ تاریخ یہ ہے کہ دو اصولوں کے تحت ودیعت ہوتے ہیں۔ایک الہٰی سکیم کے تحت، جس کامقصد ابن ِ آدم کوکسی بڑی حقیقت کی طرف متوجہ کرنا ہے۔جیسے رسولوں کا اقتدار۔یہ قیامت کی یاد دہانی ہے۔اللہ تعالیٰ اپنے قانون کے مطابق اس زمین پر ایک قیامتِ صغریٰ برپا کرتا اور اس حقیقت کو چھوٹے پیمانے پر مشہود کر دیتا ہے کہ وہ ایک دن ساری دنیا کے انسانوں کوجمع کرے گا اور انہیں دو گروہوں میں بانٹ دے گا۔ابرار اور فجار۔ایک کی منزل نعیم، دوسرے کی جحیم۔اقتدارتک رسائی کا دوسرا اصول یہ ہے کہ جو قانونِ فطر ت کے تحت حصولِ اقتدارکے لوازم جمع کر لے،اقتدار کی دیوی اس پر مہربان ہو جا تی ہے۔ان لوازم کا تعلق اخلاقیات سے نہیں ہے۔یہ لوازم کسی خاص سماجی پس منظر میں جنم لیتے اور فیصلہ کن ہو جا تے ہیں۔عام مشاہدہ یہ ہے کہ اعلیٰ انسانی اقدار سے وابستگی ان لوازم میں کم ہی شامل ہوتی ہے۔
میں اپنے حق میں ایک شہادت تاریخ سے پیش کر نا چاہتا ہوں۔سید نا عثمانؓ بلا شبہ خلیفہ راشد تھے۔انسانی شرافت کاایسا پیکرکہ اللہ کے فرشتے بھی اُن سے حیا کرتے تھے۔سخاوت کا لازوال استعارہ اورعطا کا بہتا دریا۔حکومت کی ذ مہ داری سنبھالی تو ان کے یہ اوصاف بھی ایوانِ اقتدار کے مکین بن گئے۔اہلِ شر نے ان خوبیوں کو پروپیگنڈے کے زور سے، ان کی خامیوں میں بدل ڈالا۔پھر وہ وقت آیا کہ بلوائیوں نے قصرِ حکومت کا گھیراؤ کر لیا۔احباب اور خیر خواہوں کو اندیشہ ہوا کہ آپ کی جان خطرے میں ہے۔سیدنا علیؓ کی تشویش اتنی بڑھی کہ اپنے بیٹوں حسنؓ اور حسینؓ کو درِ عثمان پر کھڑا کر دیا کہ امیر المومنین کی جان کو بچانے کے لیے اپنی جان کو خطرے میں ڈال دیں۔سیدنا عثمان ؓ کو مشورہ دیا گیا کہ طاقت سے فسادیوں کو روک دیا جائے۔یہ مشورہ سیاسی اخلاقیات کے تابع تھا کہ مسئلہ ایک فرد کا نہیں،مسلمانوں کی سیاسی وحدت کا تھا،سید عثمانؓ جس کی علامت تھے۔ اُن کے حلم نے گوارا نہ کیاکہ ان کے حکم سے کسی کی جان لی جائے۔یوں ان کی جان گئی اور ساتھ مدینۃ النبی فسا د سے بھر گیا۔سیدنا علیؓ آئے اور وہ بھی اعلیٰ انسانی اخلاقیات کا نمو نہ۔ان کا انجام بھی سید نا عثمان ؓسے مختلف نہیں ہوا۔اقتدار کے کھیل میں اخلاقیات کو شکست ہو گئی۔
یہ اُس سماج کا قصہ ہے جہاں اللہ کے آ خری رسول ﷺنے 63 برس گزارے۔جوابھی ابوبکرؓو عمرؓکی حسین یادوں سے مہک رہا تھا۔جس میں ام المومنین سیدہ عائشہ ؓ جیسی بے مثل زاہدہ و عالمہ موجود تھیں۔ جہاں عبداللہ ابن عمرؓ اور عبداللہؓ ابن مسعودجیسے ذی علم بستے تھے۔اقتدارلیکن انہی کی پاس رہا جو اس کے لوازم پورے کر سکے۔ رہیں داستانیں تو ماضی کے باب میں کچھ بھی کہا جا سکتا ہے۔لکھی تاریخ سے زیادہ نا قابلِ اعتبار چیز کوئی نہیں۔ انسان تعصبات کے ساتھ جیتا ہے اور تاریخ اِسی کا پر تو ہے، الا ما شااللہ۔یہ تجزیہ اُس سماج کی عمومی خوبیوں کی نفی نہیں کررہا۔ صرف اس حقیقت کو بیان کر رہا ہے کہ اقتدار کی حرکیات کیا ہیں۔
لوگ مستثنیات کا ذکرکرتے اوراس ا صول کی نفی کرنا چاہتے ہیں۔جیسے عمربن عبدالعزیزیا قائد اعظم۔استثنا کسی عموم کا رد نہیں ہوتا۔پھر ان مستثنیات کا اگر عقیدت سے ہٹ کر جائزہ لیا جائے تومعلوم ہو تا ہے کہ کہاں کہاں مصلحتیں قدموں سے لپٹتی رہیں۔کہاں کہاں زمینی حقیقتوں سے مفاہمت کرنا پڑی۔پاکستان کو دیکھ لیجیے۔کیا یہ وہی جغرافیہ ہے ،ہم جس کا مطالبہ لے کر کھڑے ہوئے تھے؟ حیدر آباد کہاں ہے؟بائونڈری کمیشن کا فیصلہ کس کے حق میں آیا؟'شریف آ دمی‘ کے یا'مکار‘کے؟لارڈ ماؤنٹ بیٹن کے خاندان سے قائد اعظم ویسے مراسم تو نہیں رکھ سکتے تھے جیسے نہرو کے تھے۔لارڈ صاحب نے پھر کس کا خیال رکھا؟
اقتدار کے فیصلے جس قانونِ فطرت کے تحت ہوتے ہیں، لازم نہیں کہ اس کی ہر شق شریف آ دمی کے خلاف ہی ہو۔میرا کہنا یہ ہے کہ یہ قانون اخلاقیات کے تابع نہیں ہو تا۔جہا ںتک گورنر کا معاملہ ہے تو اب اسے اقتدار کا حصہ کہنا بھی شاید تکلف ہے۔اب گورنر ہاؤس میں 'شریف آ دمی‘ بآسانی رہ سکتا ہے،چوہدری سرورصاحب نہیں۔یہ اب محض ایک علامت ہے۔ اقتدار اختیار کے بغیر نہیں ہوتا۔اس نظام میں اختیار کے مراکز کہیں اور ہیں۔یہ وزیراعظم یا وزیر اعلیٰ کے ایوان ہیں۔
اس پس منظر میں جب کوئی کہتا ہے کہ فلاں سیاست دان بڑا دیانت دار ہے تو مجھ اس سادگی پہ حیرت ہو تی ہے۔یہ کیسی دیانت ہے جو بددیانتی کواپنے دائیں بائیں گوارا ہی نہیںکرتی، پسند کرتی ہے۔جو سیاست میں جھوٹ کو جائز سمجھتی ہے۔جو اس اصول کو مانتی ہے کہ کرپشن وہی ہوتی ہے جو سیاسی مخالفین میں پائی جائے۔اپنی صفوں میں پائی جانی والی کرپشن کو کرپشن نہیں کہتے۔جو حسبِ ضرورت غیر سیاسی قوتوں سے سازباز کرسکتی ہے۔یہ نظر بندی ہے،لوگ جس کا شکار ہوجاتے ہیں۔وہ رسیوں کو سانپ سمجھنے لگتے ہیں۔مغرب میں بھی ایسا ہی ہوتا ہے۔کروڑوں روپے خرچ کر کے ساکھ بنائی جاتی ہے۔ میڈیا اس باب میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ہمارے ہاں بھی ایسا ہی ہوتا ہے۔پروپیگنڈے کے زور پرسامری بچھڑے کو خدا منوا لیتاہے۔
اگر اقتدارتک رسائی سماجی عوامل کے تابع ہے تو کیا انہیں بدلا جا سکتا ہے؟اس کا جواب اثبات میں ہے لیکن سیاست کی حرکیات کو الگ سے سمجھنا بھی ضروری ہے۔ہمارے ہاں تو ابھی وہ وقت نہیں آیا کہ اقتدار کی دیوی کسی شریف آدمی پر مہربان ہو۔مغرب میں بھی جہاں سیاست کو اخلاقیات کے تابع کرنے کا عمل ناقابلِ یقین منازل طے کر چکا،بنیادی لوازم اب بھی اخلاقیا ت کے تابع نہیں ہیں۔اس میں کس کو کلام ہو گا کہ امریکہ کی بین الاقوامی سیاست کا اخلاقیات سے کوئی تعلق نہیں۔ اگر وہ اسے اخلاقیات کے تابع رکھے تواسے دنیا کا اقتدار نہیں مل سکتا۔امریکی صدر جب امریکی سرحدوں سے باہر جھانکتا ہے وہ اخلاقیات کو ایک طرف رکھ دیتا ہے۔اب قتل،جھوٹ ،دھوکہ ،ہر بات روا ہو جاتی ہے۔جو امریکہ کے خلاف نبرد آزماہیں، ہمیں معلوم ہے کہ ان کا بھی اخلاقیات سے دور کا واسطہ نہیں، اگرچہ وہ مذہب کا نام لیتے ہیں جس کا مخاطب ہی انسان کا اخلاقی وجود ہے۔وہ انسانوں کو ذبح کرتے اور اسے اپنے کارنامے کے طور پر پیش کر تے ہیں۔
حاصل یہ ہے کہ جب شریف آ دمی اقتدارتک پہنچ ہی نہیں سکتا تومسائل کیسے حل کرے گا؟ گورنر کا اقتدار سے کیا تعلق؟جن کا ہے ان کا اخلاقیا ت سے کیا تعلق، الا ماشااللہ۔میرا احساس ہے کہ سیاست کو ایک حد سے زیادہ اخلاقیا ت کے تابع کر نا مشکل ہے۔یہاں ہمیں میسر میں سے بہتر کو تلاش کر نا ہے۔سماج کو البتہ بیدار رہنا چاہیے تاکہ اہلِ اقتدار کو احتساب کاخطرہ لاحق رہے اور انہیں یقین ہو کہ عوام کی ناراضی انہیں اقتدار سے محروم کر سکتی ہے۔یہ احساس انہیں شریف آ دمی بننے پر مجبور کر سکتا ہے۔