پینتیس سال سے طاری وحشت کے سائے، کیا اب چھٹ رہے ہیں؟ کیا ایک صبحِ نو ہمارے دروازے پر دستک دے رہی ہے؟
ایک طرف پہلا جہاز گوادر کے پانیوں میں اترا اور دوسری طرف پاکستان کے وزیرِ اعظم اور سپہ سالار کابل کی سرزمین پر۔ اشرف غنی چند روز پہلے بھارت کے ایک بے ثمر سفر سے واپس لوٹے ہیں۔ صدر بننے کے سات ماہ بعد انہوں نے بھارت کا قصد کیا۔ سب سے پہلے وہ چین گئے، پھرپاکستان آئے۔ پاکستان کے وزیرِ اعظم اور سپہ سالار اس سے پہلے بھی افغانستان جا چکے۔ آثار یہ ہیں کہ قدرت اس خطے پر مہربان ہو رہی ہے۔ ماضی کی غلطیاں مستقبل کے لیے راہنما بن رہی ہیں۔
جنرل ضیاالحق مرحوم نے پاکستان کو جس دلدل میں دھکیلا تھا، موجودہ فوجی قیادت نے اِس سے نکلنے کا فیصلہ کیا۔ نیتوں کا حال تو عالم کا پروردگار جانتا ہے، ہم انسان فیصلوں پر تبصرہ کرنے کے مجاز ہیں اور ہمیں اپنی اِن حدود کا خیال رکھنا چاہیے۔ مرحوم جنرل کی حکمتِ عملی کے بنیادی اجزا دو تھے۔ افغانستان کو پاکستان کی ذیلی ریاست بنانا اور غیر ریاستی عناصر کی مدد سے قومی مفاد کو آگے بڑھانا۔ یہ دونوں تصورا ت تباہ کن ثابت ہوئے۔ یہ تاریخی عمل سے بے خبری کی دلیل تھی۔ بیسویں صدی کے آخری ماہ و سال میں، یہ حکمتِ عملی وہی ذہن تشکیل دے سکتا تھا جو نسیم حجازی کے ناولوں سے وجود میں آیا ہو۔
نسیم حجازی اِس وقت میرا موضوع نہیں۔ لیکن ایک بات بطور جملہ معترضہ کہے بغیر آگے نہیں بڑھ سکتا۔ بیسویں صدی کی دوسری نصف صدی میں اردو کے دو ناول نگاروں کو غیر معمولی شہرت ملی۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ دونوں کی حیثیت تاریخ ساز کی ہے۔ نسیم حجازی اور ابنِ صفی۔ میرا احساس ہے کہ دونوں نے دو مختلف ذہن تشکیل دیے۔ایک عہدِ حاضرمیں اجنبی رومانوی مجاہد،دوسرا دورِجدیدکا خوشگوار اور حقیقت پسند مہم جُو۔برسوں پہلے پروفیسر رفیق اختر صاحب کے ہاں بہت آنا جانا تھا۔ اُن سے ملنے کی خواہش اب بھی ہوتی ہے لیکن سفر سے گریز اور طبیعت کا تساہل مانع رہتا ہے۔ اُس وقت خلیل ملک زندہ تھے اور وہ مجھے کھینچتے لے جاتے تھے۔ پروفیسر صاحب کی سب سے بڑی خوبی اُن کا بے تکلف انداز زندگی ہے۔ کوئی بات اخفا میں نہیں۔ یوں ہم جیسے لوگوں کی رسائی ان کے بیڈ روم تک تھی، جو دن بھر ڈرائنگ روم بنا رہتا ۔خیال یہ ہے کہ صورتِ حال اب بھی وہی ہوگی کہ افتادِ طبع کہاں بدلتی ہے۔ میں پہلی دفعہ گیا تو ایک بات نے حیرت میں ڈال دیا۔ اُن کے کمرے میں رکھی الماری ابن صفی کے ناولوں سے بھری پڑی تھی۔ قرآن مجید کا ایک نسخہ اور غالباً بخاری کا ایک اردو ترجمہ۔ اس کے سوا کوئی دینی کتاب مجھے دکھائی نہیں دی۔ایک عالمِ دین کے کمرے کا یہ ماحول غیر مانوس لگا۔ معلوم ہوا کہ پروفیسر صاحب کو ابن صفی بہت پسند ہیں۔ ان کا شاید ہی کوئی ناول ہو جو اس کمرے میں موجود نہ ہو۔ اب سوچتا ہوں تو خیال ہوتا ہے کہ ان کی ذہنی تشکیل میں ابن صفی کا ایک کردار ہو سکتاہے۔دورِ جدیدکا ایک خوش گوار عالم۔ یہ ذہنی مزاج، جسے قرآن مجید شاکلہ کہتا ہے، کیا ہے؟ اس پر پھرکبھی بات ہو گی۔ اس وقت تو مجھے صرف یہ کہنا ہے کہ دوسرا ذہن وہ ہے جو نسیم حجازی کے زیر اثر وجود میں آیا۔دورِحاضرکا ایک مہمِ جُو،جو ماضی سے جذبہ ہی نہیں، حکمتِ عملی بھی کشید کرتا ہے۔جنرل ضیاء الحق یا جنرل حمید گل اِس کا کلاسیکی نمونہ کہے جا سکتے ہیں۔
جنرل راحیل شریف نے، معلوم نہیں ابن صفی کو پڑھاہے یا نہیں، لیکن ان کی حکمتِ عملی سے یہ واضح ہے کہ ان کی ذہنی تشکیل نسیم حجازی کے ناولوں کے زیر اثر نہیں ہوئی۔ انہیں اندازہ ہوا کہ پاکستان ایک دلدل میں دھنس رہا ہے اور اسے اب فوج کا کوئی سپہ سالار ہی نکال سکتا ہے۔کسی سیاسی قیادت کو ابھی یہ ذمہ داری منتقل نہیںہو سکتی۔ یوں انہوں نے افغانستان کی آزادحیثیت اور غیر ریاستی عناصر کی سرپرستی سے گریز کی بنیاد پرایک حکمت عملی تشکیل دی۔ میرا خیال ہے کہ یہ وہ بنیادی فیصلہ ہے جس سے اب خطے کی تاریخ بدل جائے گی۔ اس خطے میں ظاہر کہ پاکستان بھی شامل ہے۔
پاکستان اور افغانستان دونوں کی یہ خوش بختی ہے کہ یہاں نواز شریف صاحب اور جنرل راحیل شریف کو قیادت ملی اور وہاں اشرف غنی صاحب برسراقتدار آئے۔ دونوں نے حقیقت پسندی
کے ساتھ معاملات کو آگے بڑھایا۔ پاکستان نے جان لیا کہ افغانستان کو زیر تسلط رکھنے کی خواہش اور غیر ریاستی عناصر کی معرفت، قومی ایجنڈے کی تکمیل، غیر حقیقی خواہشات ہیں، جن سے رجوع لازم ہے۔اسی طرح افغانستان میں سب انڈے ایک ٹوکری میں نہیں ڈالے جا سکتے۔ اشرف غنی صاحب نے بھی ادراک کیا کہ بھارت ہو یا ایران، افغانستان کے لیے کوئی ملک پاکستان کا متبادل نہیں بن سکتا۔ بھارت کو افغانستان سے کوئی دلچسپی ہو سکتی ہے نہ محبت۔ ان کے مابین تاریخی ہم آہنگی ہے نہ مذہبی و ثقافتی۔ بھارت صرف افغانستان کو پاکستان کے خلاف ایک مورچہ بنانا چاہتا ہے۔ اِس کے برخلاف پاکستان کے ساتھ زمین ہی نہیںتاریخ، ثقافت، مذہب ، نہیں معلوم کتنے میدان ہیں جہاں ہم آہنگی تاریخی عمل سے ماورا ہیں۔ یوں بھارت کا افغانستان کی ترجیحات میں ہونا غیر فطری ہے۔ فطری تعلق پاکستان اور پھر چین سے ہی ہو سکتا ہے۔ اشرف غنی صاحب نے اس بابت پیش رفت کی۔ یوں ایک نئے دور کی بنیاد رکھ دی گئی۔
کچھ دن پہلے اشرف غنی صاحب نے بھارت کا دورہ کیا۔ اس دورے میں کوئی نیا معاہدہ نہیںہوا۔ اشرف غنی صاحب نے ٹیگور کے مشہور اور شاندار افسانے''کابلی والا‘‘ کا ذکر کیا اور اسے باہمی تجارت و بھائی چارے کے لیے استعارہ بنایا۔ کرزئی صاحب نے بھارت کو افغانستان کا قریب ترین دوست کہا تھا۔ اشرف غنی صاحب کے دورے سے معلوم ہوا کہ یہ خیال حامد کرزئی صاحب کے خاتمۂ اقتدار کے ساتھ ہی دم توڑ چکا۔ پاکستان میں نئی چینی سرمایہ کاری اور گوادر کی تعمیر نے بھارت کی تشویش میں بے پناہ اضافہ کر دیا ہے۔ وہ اب چاہتا ہے کہ ایرانی بندرگاہ چاہ بہار کو متبادل بنا کر بھارت، ایران اور افغانستان کا اتحاد تشکیل دے۔پچھلے سال بھارت نے اس بندرگاہ کی تعمیر کے لیے ایک سو ملین ڈالر ،مختص کیے۔دو دن پہلے بھارت نے ایران سے ایک معاہدہ کیا جس کے تحت وہ یہاں195ملین ڈالرخرچ کرے گا۔ مودی صاحب نے اشرف غنی صاحب کو بھی اس جانب راغب کرنا چاہا۔افغانستان ظاہر ہے کہ متبادل راستے بند نہیں کرسکتا۔اسے بھارت کے ساتھ بھی تعلق رکھنا ہے لیکن اب وہ جان گیا ہے کہ بھارت اس کی ترجیح نہیں بن سکتا۔
یہ وہ تبدیلیاں ہے جو جنوبی ایشیا میں آچکیں۔ کیا ہمارے اہلِ سیاست اور اہلِ دانش کواس کا ادراک ہے؟ کیاہم ایک حلقہ انتخاب کے تنگ نائے سے نکل کر خطے کے وسیع افق پر نظر ڈال سکتے ہیں؟ میرا خیال ہے کہ اس وقت سیاست اور دانش کا اصل امتحان یہی ہے۔ عدالتیں اپنا کام کر رہی ہیں اور ہم ان پر اعتماد کا اظہار کرچکے۔ یوں داخلی احتساب اور بہتری کا سفر بھی شروع ہو چکا۔ یہ بے بصیرتی کی انتہا ہو گی کہ حقیر سیاسی فائدوں کے لیے امکانات کی ایسی دنیا کو برباد کر دیا جائے۔ گزارش ہے کہ اقبال کا مشورہ مانتے ہوئے، مشرق سے ابھرتے ہوئے اس سورج کو دیکھا جائے۔خواتین و حضرات! تبدیلی تو آ چکی!
کھول آنکھ زمین دیکھ، فلک دیکھ، فضا دیکھ