علم کے ساتھ جو ہوا، سو ہوا مگر یہ طبیعت کی نرمی کہاں گئی؟
قرآن مجید میں عالم کے پروردگار نے اپنے بارے میں فرمایا ہے کہ وہ 'لطیف‘ہے۔ خدا لطیف کیسے ہے؟ سید سلیمان ندوی نے امام بیہقیؒ کا ایک بیان نقل کیا ہے: ''اس لیے کہ وہ اپنے بندوں کے ساتھ بھلائی فرماتا ہے۔ اُن کے ساتھ اس طرح لطف کرتا ہے جس کا علم ان کو بھی نہیں ہوتا۔ اس طرح ان کی مصلحتوں کا سامان فراہم کرتا ہے جس کا گمان بھی اُن کو نہیں ہو تا‘‘۔ غزالی کہتے ہیں: ''جب عمل میں نرمی اور ادراک میں لطافت ہو تو لطیف کے معنی پورے ہوتے ہیں‘‘۔ قرآن کہتا ہے: ''اللہ اپنے بندوں کے لیے لطیف ہے۔ جس کو چاہتا ہے رزق عطا فرماتا ہے‘‘(الشوریٰ 42:19)۔ اس آیت سے پہلے مومنوں اور کافروں کا ذکر ہے اور بعد میں بھی۔ اہلِ تفسیر کہتے ہیں: اس سے ظاہر ہو تا ہے کہ یہ لطفِ الٰہی کافر اور مومن دونوں کے ساتھ ہے کہ وہ دونوں کو یکساں رزق پہنچاتا ہے... وہ رب العالمین ہے۔
اللہ تعالیٰ نے اپنے خلیل، سیدنا ابراہیم ؑ کا تعارف اِن لفظوں میں کرایا: بے شک ابراہیم بردبار، نرم دل، حق کی طرف رجوع کر نے والے تھے۔ (ھود 11:75)۔ قرآن مجید نے سلسلۂ کلام بتایا ہے کہ سیدنا ابراہیمؑ قومِ لوط کے باب میں اپنے رب سے مجادلہ اور بحث کر رہے تھے۔ اس قوم کے اخلاقی جرائم تو اس کا تعارف بن گئے۔ امام امین احسن اصلاحی نے اس آیت کی تفسیر میں لکھا: ''جب حضرت ابراہیم قوم لوط جیسی ناہنجار قوم کی سفارش میں اس طرح اپنے دل کو نچوڑ کر رکھ دیتے ہیں تو ان کے حلم اور ان کی درد مندی میں کیا شک کی گنجائش رہی اور کمالِ انابت کی اس سے بڑھ کر اور کیا مثال ہو سکتی ہے کہ بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ اب قومِ لوط کا پیمانہ لبریز ہے لیکن وہ برابر دعا اور التجا میں سرگرم ہیں‘‘۔ یہ بحث کیا تھی، تورات نے اس کی تفصیل بیان کی ہے۔ کالم کی طوالت متحمل نہیں ہو سکتی ورنہ میں وہ مکالمہ نقل کرتا کہ ایک قوم کو اللہ کے عذاب سے بچانے کے لیے سیدنا ابراہیمؑ نے کیا کیا جتن کیے اور کیوں عالم کے پروردگار کو اپنے محبوب بندے پر اتنا پیار آیا اور اس کا ذکر اس التفات کے ساتھ اور ایسے دل نشیں اسلوب میں کیا۔
اللہ کے آ خری رسول سیدنا حضرت محمدﷺ کا معاملہ بھی اپنے جدِ امجد سے مختلف نہیں تھا۔ لطافت تو گویا آپ کے وجود پاک میں ڈھل گئی تھیِ۔ ام المومنین سیدہ عائشہ ؓ سے فرمایا: نرمی جس چیز میں ہو، اس کو زینت دیتی ہے اور جس چیز سے الگ کر دی جائے، اس کو بدنما بنا دیتی ہے۔ (مسلم)۔ مسلم ہی کی روایت ہے کہ آپ نے فرمایا: جو نرمی سے محروم رہا، وہ بھلائی سے محروم رہا۔ سیدنا زیدؓ آپ کے خادم تھے۔ ان کے صاحب زادے اسامہ ؓکہتے ہیں کہ اللہ کے رسولؐ ایک زانو پر مجھے اور دوسرے پر حسنؓ کو بٹھا لیتے۔ پھر دونوں زانو ملا کر کہتے: خداوند! ان دونوں پر رحم کر کیونکہ میں ان دونوں پر رحم کرتا ہوں (بخاری)۔ بچوں سے پیار کرتے۔ اپنے نواسوں کا آپؐ بوسہ لیتے۔ ایک بدو نے آپؐ کو بچوں سے پیار کرتے دیکھا تو حیرت
ہوئی، کہا: میرے دس بچے ہیں، میں نے تو کبھی بوسہ نہیں لیا۔ اللہ کے رسولﷺ نے ارشاد فرمایا: خدا نے تمہارے دل سے رحم نکال دیا تو میرا کیا زور؟ (بخاری)۔
یہ دین ہے؛ بلکہ یہی دین ہے۔ یہ اسوۂ حسنہ ہے۔ آج دین کی دعوت میں مگر اس کا کہیں گزر نہیں۔ انسانوں کو ذبح کیا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ یہ دین ہے۔ ایک شخص نے دربارِِ نبوت میں عرض کیا: یا رسول اللہ! میں بکری کو ذبح کرتا ہوں تو مجھے اس پر ترس آتا ہے۔ پیغمبرِ رحمتﷺ نے فرمایا: ''اگر تم بکری پر رحم کرتے ہو تو خدا بھی تم پر رحم کرے گا‘‘۔ آج لوگ دین کا علم اٹھاتے اور زمین کو انسانی لہو سے بھر دیتے ہیں۔ مفتی اور عالم کی شہرت رکھنے والے تُرش روئی کو خُو کر لیں تو آدمی حیرت سے سوچتا ہے کہ کیا یہ وہی رویہ ہے، اللہ کے رسولؐ نے جس کی آبیاری فرمائی۔ لوگ وارث پیغمبر کہلوانے کا شوق تو رکھتے ہیں لیکن افسوس کہ پیغمبر کی سیرت کو راہنما ماننے کے لیے آمادہ نہیں۔ دین کی حفاظت کفر کے فتووں سے نہیں، داعیانہ مزاج سے ہوتی ہے۔ وہ مزاج‘ اللہ کے پیغمبر جس کا کامل نمونہ ہوتے ہیں۔ ابھی سیدنا ابراہیم ؑ کا ذکر ہم نے پڑھا اور سیدنا محمدﷺ کے اسوۂ حسنہ کی ایک جھلک ہم نے دیکھی، اسی نے لوگوں کے دل دین کے لیے کھول دیے۔ قرآن مجید نے گواہی دی: یہ اللہ کی رحمت ہے کہ آپ ان لوگوں کے لیے نرم دل و نرم خو ہیں۔ اگر آپ مزاج اور دل کے سخت ہوتے تو لوگ آپ کے پاس سے چھٹ جاتے (اٰل عمران 3:159)۔
دین میں سختی بھی ہے لیکن مجرموں کے ساتھ۔ میدان جنگ میں برسر پیکار دشمنوں کے ساتھ۔ تاہم اس کا تعلق بھی ریاست سے ہے، علما یا باہمی سماجی تعلقات سے نہیں۔ تبلیغی جماعت کا پیغام کیسے عام ہوا؟ یہی رحم دلی اور لوگوں کے لیے محبت اس کا سبب بنی۔ مو لانا محمد الیاس کے واقعات لوگوں نے جمع کیے ہیں۔ آدمی پڑھتا اور پکار اٹھتا ہے: ایسا دردِ دل ناکام نہیں ہو سکتا۔ سر سید احمد خان کو دین کے بعض مسائل سمجھنے میں ٹھوکر لگی لیکن سوزِ دل ایسا کہ سبحان اللہ! ایک نواب صاحب کے پاس پہنچے اور علی گڑھ کالج کے لیے چندے کی درخواست کی۔ نواب صاحب نے ڈانٹ کر گھر سے نکال دیا کہ ان کی دینی تعبیرات سے اتفاق نہیں رکھتے تھے۔ سر سید کو معلوم ہوا کہ نواب صاحب ہر روز شام کی سیر کو نکلتے ہیں۔ اُس وقت گداگر قطار بنا کر راستے میں بیٹھ جاتے ہیں اور نواب صاحب سب کی جھولی میں کچھ نہ کچھ ڈال دیتے ہیں۔ اگلے دن سر سید بھکاریوں کی درمیان بیٹھ گئے۔ نواب صاحب قریب آئے تو اپنی جھولی پھیلا دی۔ نواب صاحب کی سفید ریش پر نگاہ پڑی تو خود کو سنبھال نہ سکے۔ اٹھایا، احترام سے گھر لے گئے اور کالج کے لیے جو بن پایا کر گزرے۔ یہ بلا وجہ نہیں کہ سرسید کا فیضان عام ہوا اور موت اُن کے ہاتھوں شکست کھا گئی۔ لوگ بلاوجہ جمع نہیں ہوتے۔ یہ خوئے دل نوازی ہے جو کھینچ لے آتی ہے۔
ہجوم کیوں ہے زیادہ شراب خانے میں
فقط یہ بات کہ پیرِ مغاں ہے مردِ خلیق
اگر دین یہی ہے، تو محراب و منبر سے یہ بیان کیوں نہیں ہوتا؟ دین اگر سوزِ دل ہے تو اہلِ مذہب کے ہاں اس کی جھلک، الا ماشااللہ، کیوں دکھائی نہیں دیتی؟ دین اگر دعوت ہے تو اسلام سے اخراج کے فتوے کیوں؟ دین اگر اسوہ ِ حسنہ کا بیان ہے تو علم برداران مذہب کی طبیعت میں سختی کیوں؟ دین اگر رحمت ہے تو اسلام کے نام پر انسانوں کو ذبح کرنے والے قصابوں کے حق میں کالم کیوں؟ ہر روز کوئی نہ کوئی واقعہ ایسا ضرور ہوتا ہے کہ یہ سب سوالات، صف بستہ سامنے آ کھڑے ہوتے ہیں۔ ان کے جواب کے لیے مکرم و محترم مفتی محمد نعیم صاحب مدظلہ العالی کیا ہماری راہنمائی فرمائیں گے؟ میرے بھائی قاری محمد حنیف جالندھری دامت برکاتہم کیا ہماری مدد کریں گے؟ خانقاہوں سے کیا ہماری دست گیری ہو گی؟
علم کے ساتھ جو ہوا، سو ہوا مگر یہ طبیعت کی نرمی کہاں گئی؟ دماغ تو پہلے ہی مخاطب نہیں تھے۔ اگر دل بھی نہ رہے تو ذمہ دار کون ہو گا؟ کیا فرماتے ہیں علمائے دین؟