کل پھر یہ ہوا کہ وہ بوڑھی اماں دروازے پہ تھیں۔
مئی کی تیز دھوپ اور ایک نحیف وجود۔اہلیہ نے دروازہ کھولا تودیکھا کہ اُس کے ہاتھ میں ایک شاپر تھا جس میں دودھ تھا۔کہا:''بیٹا!اسے فریج میں رکھ دو۔میں کہاں کہاں لیے پھروں گی۔گرمی میں کہیں خراب نہ ہو جائے۔واپسی پہ لیتی جاؤں گی‘‘۔''اچھا، اماں جی!‘‘۔اہلیہ نے لفافہ لے لیا اور وہ چل دیں۔تیسرے چوتھے دن یہ بوڑھی اماں آتی ہیں۔کچھ دیر بیٹھتی ہیں، میری اہلیہ سے چند باتیں کرتی ہیں اور چلی جاتی ہیں۔کل جب وہ آئیں تو میں اتفاق سے گھر پہ ہی تھا۔میں نے انہیں دیکھا تووہ تنہا نہیں تھیں۔کئی گزرے ماہ وسال بھی اُن کے جلو میں تھے۔
تین برس تو ہوگئے ہوں گے ، اس بات کو۔یا پھرایک مہینہ کم یا زیادہ۔گھنٹی بجی اور بجتی چلی گئی۔مجھے جھنجھلاہٹ ہوئی۔ دستک دینے والے کو یہ گمان کیوں ہے کہ یہاں بہرے بستے ہیں۔یہ سوچتے ہوئے دروازہ کھولا توایک لمحے کو چونک گیا۔ساری جھنجھلاہٹ معلوم نہیں کہاں گئی۔اب دل میں اسی جگہ ایک گدازتھا یابے چینی۔وہ میری ماں تو نہیں تھی لیکن بالکل ماں کی طرح تھی۔ویسا ہی دبلا پتلا سراپا۔جیسے کوئی گڑیا بوڑھی ہو جائے۔جیسے وقت معصومیت کو اپنی چادر اوڑھا دے اور اس کی سلوٹیں وجود کا احاطہ کر لیں۔میں نے اس معصومیت کو کئی سال دیکھاہے،اپنی ماں کے روپ میں۔اُس وقت میری والدہ کو آسودۂ خاک ہوئے کم و بیش تین برس ہوئے تھے۔دل اور گھر ان کی یادوں سے ابھی تک مہک رہے تھے۔آج بھی وہ خوشبو کم نہیں ہوئی۔دل بے چین ہوگیا:''جی اماںجی‘‘؟ بس اتنا ہی کہہ سکا۔''بیٹا کچھ مدد کر دو‘‘۔یہ سنا تولگا جیسے ماں نے پسِ مرگ پکارا ہو۔دل لہو سے بھر گیا۔'' اندر آ جائیں‘‘۔یہی کہہ سکا۔اتنے میں میری اہلیہ بھی آ گئیں۔یہ ملاقات پھر ایک مسلسل تعلق میں بدل گئی۔
بڑھاپا میری کمزوری ہے۔ میں کسی بوڑھے آ دمی کو ہاتھ پھیلاتا یا کس مپرسی کے عالم میںدیکھ لوںتو خود پر قابو نہیں رہتا۔میں اِن مردوں اور عورتوں میں اپنے والدین کو دیکھتا ہوں۔میں نے دونوں کا بڑھاپا دیکھا ہے۔ اللہ کا شکر ہے کہ وہ قابلِ رشک اور باوقار تھا۔دونوں چلتے پھرتے دنیا سے رخصت ہوئے۔حتیٰ کہ آ خری نماز تک قضا نہ ہوئی۔بڑھاپا لیکن پھر بھی بڑھاپا ہو تا ہے۔توانائی ڈھل جاتی ہے۔اگر معاشی بے بسی بھی ساتھ ہو توبڑھاپا المیہ بن جا تا ہے ۔ہمارے گردو پیش ایسی کہانیاں بکھری ہیں کہ دل دہل جاتا ہے۔کل ہی ایک دوست نے اسلام آباد کے ایک گھرانے کا قصہ سنایا۔ہسپتال کے بستر پر ماں کا بے جان وجود پڑا تھا اور بیٹوں میں یہ تکرار تھی کہ کون اسے اپنے گھر لے جائے۔بیٹوں کے گھر تنگ پڑ گئے تھے کہ ان میں ماں کے جسدِ خاکی کے لیے کوئی جگہ نہیں تھی۔استدلال یہ تھا کہ بچوں کو اچھا نہیں لگتا۔بد نصیبی کی بدترین صورت یہ ہے کہ نیکی کی توفیق سلب ہو جائے۔آدمی زندہ ہو مگر نیکیاں شمار کرنے والا فرشتہ اپنا دفتر سمیٹ کر رخصت ہو جائے۔
اللہ کا شکر ہے کہ ہماری معاشرتی روایات میں ابھی کچھ جان باقی ہے۔اس سماج میں سجاد چیمہ جیسے لوگ بھی ہیں کہ ماں کی خدمت کے لیے، پنکھے کے بغیر، گیارہ سال اس کے کمرے میںگزار دیتے ہیں۔گرمی تنگ کرتی تو قمیص اتارتے اور اسے پانی سے گیلا کر لیتے۔اسلام آباد کے سب سے پوش علاقے کے ایک گھر میں وہ رہتے ہیں جس میں دس دس ا ے سی لگے ہیں۔ذوالفقار چیمہ صاحب نے کل ہی میرے ساتھ ایک ٹی وی پروگرام میں بتایا کہ ایک آ دمی نے ماں پر ان کا کالم پڑھا اور صرف ماں کی سہولت کے لیے ایک گاڑی الگ سے خرید لی کہ انہیں آنے جانے میں کوئی مشکل پیش نہ آئے۔ایسے واقعات اپنی جگہ مگر ِان کے ساتھ بے حسی ہے اوربے بسی بھی جو پھیل رہی ہیں۔بے حسی کا علاج تو اخلاقی تربیت ہے لیکن بے بسی کا علاج سماج کو تلا ش کرنا ہے۔ریاست کو ایسے لوگوں کی ذمہ داری اٹھانی ہے۔
ان معاملات میں ہم سیدنا عمر ؓ کو یا دکر تے ہیں۔کیسی جلیل القدر شخصیت تھی کہ کوئی با ت کرو، بطور مثال سامنے آ کھڑی ہو تی ہے۔ایک بوڑھے یہودی کو دیکھا کہ بھیک مانگ رہا ہے۔پوچھا تو اس نے کہاکہ جزیہ دینا ہے اورادا کرنے کی سکت نہیں۔سید نا عمر ؓ اسے گھر لے آئے۔کچھ نقد دیا اور بیت المال کے داروغے کو بلا یا۔ حکم جاری کیا کہ بوڑھے اہلِ ذمہ کا جزیہ معاف اور ساتھ ہی بیت المال سے وظیفہ بھی ملے گا۔فرما یا کہ جن کی جوانی سے ریاست نے فائدہ اٹھا یا ہو،یہ ظلم ہے کہ بڑھاپے میں انہیں تنہا چھوڑ دیا جائے۔ ۔بنیادی ذمہ داری تو یقیناً ریاست کی ہے۔لیکن اگر وہ ادا نہ کر پائے تو مسلمان فقہا نے لکھاہے کہ بے بسوں کی کفالت پھر سماج کے لیے فرض کفایہ ہے۔میرا خیال ہے کہ یہاں ایسے ادارے بننے چاہئیں جو صرف بوڑھے لوگوں کی کفالت اور دوسری ضروریات کا اہتمام کریں۔
ہم مغرب کو کوستے ہیں کہ اس نے اولڈ ہائوسز بنا دیے۔کیسے لوگ ہیں کہ 'فادر ڈے‘ مناتے ہیں یا 'مدر ڈے‘۔ میرا احساس ہے کہ بدلتی معاشرتی اقدار کو دیکھتے ہوئے، یہ ایک مستحسن فیصلہ تھا۔اُن بچوں کوبرا بھلا کہنے کے بجائے، جو والدین کو بڑھاپے میں تنہا چھوڑ دیتے ہیں، یہ بہتر ہے کہ ریاست ایسے لوگوں کو متبادل فراہم کرے۔ہمارے ہاں لوگوں کو ان کی اخلاقی ذمہ داریوں کی طرف متوجہ کرنا جن کی ذمہ داری تھی، وہ مدت ہوئی کہ اپنی دکان بڑھا گئے۔اب وہ شہرِ سیاست کے مکین ہیں۔ان کا خیال ہے کہ جب تک اقتدار مذہبی پیشواؤں کو منتقل نہیں ہو جاتا،کسی اخلاقی تبدیلی کا بھی امکان نہیں۔اس لیے انہوں نے اس ذمہ داری سے دست کش ہوتے ہوئے،ساری توانائیاں سیاسی انقلاب کے لیے وقف کر دی ہیں۔تو کیا سول سوسائٹی اس مسئلے کو اپنی ترجیح بنا سکتی ہے؟اُس کا معاملہ بھی اب بدقسمتی سے یہ ہو گیا ہے کہ وہ مغرب کی آنکھ سے اپنے سماج کو دیکھتی ہے۔اس کے نزدیک مسئلہ وہی ہو سکتاہے جسے مغرب مسئلہ قرار دے۔میںسوچتاہوں کہ ہماری ریاست اور سماج کب حقیقی مسائل کے بارے میں حساس ہوں گے؟
کل جب بوڑھی اماں دودھ لینے واپس آئی تو میں گھر پہ نہیں تھا۔میری اہلیہ نے حسب معمول اسے بٹھایا۔معلوم ہوا کہ اس کے پوتے کا بازو ٹوٹ گیاہے جس کا با پ مر چکا اور اس کے بچے کی کفالت بھی اس کے ناتواں کندھوں پر ہے۔ وہ چاہ رہی تھی کہ اسے میرے بیٹے کے کچھ پرانے کپڑے ،اپنے پوتے کے لیے مل جائیں۔اس نے یہ بھی بتا یا کہ اس کی بیوہ بیٹی بھی اب اس کے پاس لوٹ آئی ہے۔دوسرابیٹاکرا چی میں ہے جس نے کبھی خبر نہیں لی۔میں گھر واپس آیا تو اہلیہ نے ساری کہانی سنائی۔میں ابھی تک اس کہانی کی گرفت میں ہوں۔بوڑھی اماں اور میری ماں کے وجود ایک دوسرے میں گڈ مڈ ہورہے ہیں۔ماں کا وجودسارے ماحول کو اپنی لپیٹ میں لے رہا ہے۔ میں سوچتا ہوں کہ اس سماج میں کتنے بوڑھے ہوں گے جو اپنے ناتواں کاندھے پر نہ صرف اپنا ،بلکہ یتیم پوتے اور بیوہ بیٹی کا بوجھ اٹھائے ہوئے ہیں۔ہم میں سے کتنے ہیں جو اِسے اٹھانے میں مدد گار بن سکتے ہیں؟
کیا آپ کے دروازے پر بھی کسی بوڑھے ہاتھ نے کبھی دستک دی؟کیا آپ نے بھی معصومیت کو وقت اور بے بسی کی چادرمیں لپٹے دیکھا ہے؟