"KNC" (space) message & send to 7575

ایک تہذیبی المیہ

یہ چند روز پہلے کا واقعہ ہے۔
مجھے ایک حوالے کے لیے مولانا مودودی کی کتاب ''تعلیمات‘‘ کی ضرورت پیش آئی۔ گھر میں ڈھونڈا تو معلوم ہوا کہ کتابوں کے ذخیرے میں کہیں کھو گئی ہے۔میرے پاس اتنا وقت نہیں تھا کہ میں اسے تلاش میں صرف کرتا۔میں نے بازار کا رخ کیاکہ نئی کتاب خریدلی جائے۔راولپنڈی کے کالج روڈ پر میرے ایک دوست کی دکان ہے جن کا تعلق جماعت اسلامی سے ہے۔میرا سالوں سے وہاں آ نا جا نا ہے۔ کبھی ایسا نہیں ہوا کہ جماعت کے لٹریچریا مو لا نا مودودی کی کتب کی ضرورت پڑی ہو اور وہاں میسر نہ ہوں۔میری حیرت کی انتہا نہ رہی کہ وہاں ''تعلیمات‘‘ مو جود نہیں تھی۔میں نے چند دوسری دکانوں میں تلاش کیا لیکن مجھے یہ کتاب نہ مل سکی۔حسنِ اتفاق سے یہ جماعت ا سلامی کے ایک پرانے رکن کے ہاں سے مل گئی جو میرے محلے میں رہتے ہیں۔میرا کام نکل گیا لیکن یہ تجربہ میرے لیے ایک حادثے سے کم نہیں تھا۔
کم و بیش ایک ماہ پہلے بھی مجھے ایسے ہی ایک صدمے سے گزرنا پڑا۔میرا بیٹا احمد چھٹی جماعت میں پڑھتا ہے۔اس کی اردو کی درسی کتاب میں ابن انشا کی کتاب 'خمارِ گندم‘‘ کاایک اقتباس ہے۔اُس نے اس مضمون کا ذکرکیا اور اپنی پسندیدگی کا اظہار بھی۔ میں نے اس سے وعدہ کر لیا کہ اسے یہ کتاب لا دوں گا۔میں جب کتابوں کی چند دکانوں پہ گیا تو معلوم ہوا کہ کسی کے پاس ابن انشا کی کتابیں مو جود نہیں ہیں۔اتفاق سے اُن دنوں اسلام آباد میں کتب میلوں کا انعقاد کیا گیا تھا۔میںایک میلے میں گیا جس کا اہتمام نیشنل بک فاؤنڈیشن نے کیا تھا۔مجھے یہ کتاب یہاں بھی مل نہیں سکی۔ صرف ایک دکان پر ابن انشا کے ایک شعری مجموعے کا سراغ ملا۔اس تجربے نے بھی وہی سوال اٹھایا۔ کیامو لا نا مودودی اور ابن انشا متروک ہو چکے ؟ اگر ایسا ہے تو کیا یہ ایک تہذیبی المیہ نہیں ہے؟
ڈاکٹر انعام الحق جا وید نے بتا یا کہ نیشنل بک فاؤنڈیشن کے کتاب میلے میں پونے تین کروڑروپے کی کتب فروخت ہوئیں۔میں سوچتارہا کہ یہ کیسی کتب ہوں گی؟میرے پاس کوئی ایسا ذریعہ نہیں کہ اس سوال کا جواب تلاش کر سکوں۔تاہم ایک اندازہ ضرور کیا جا سکتا ہے۔سب سے زیادہ تو نصابی کتابیں فروخت ہوئی ہوں گی۔پھر کہانیاں۔ دنیا بھر میں فکشن سب سے زیادہ پڑھا جا تا ہے۔کہانی سے انسان کی دلچسپی ازل سے ہے۔کسی دور میں یہ دلچسپی کم نہیں ہوئی۔ پندرہ بیس سال پہلے کا ایک سروے، میرے ذہن میں کہیں محفوظ ہے جس سے معلوم ہوا تھا کہ پاکستان میں سب سے زیادہ مکتبہ داستان کی کتابیں فروخت ہوتی ہیں۔ان دنوں احمد یار خان صاحب کی کہانیاں بہت شوق سے پڑھی جاتی تھیں۔سفر نامے بھی بہت پڑھے جاتے ہیں۔اسی طرح شاعری کو بھی لوگ پسند کرتے ہیں۔ ہمارے ہاں گزشتہ عرصے میں اخباری کالم بھی مقبول ہوئے۔ اس سے کالموں کے مجموعے شائع کرنے کا رواج ہوا۔مقبول کالم نگاروں کے یہ مجموعے بھی کہا جا تا ہے کہ بڑی تعداد میں فروخت ہوتے ہیں۔ مذہبی کتابیں بھی ہر دور میں سب سے زیادہ پڑھی جانے والی کتابوں میں شمار ہوتی ہیں۔ طنزو مزاح کا معاملہ بھی یہی ہے۔میرا سوال مگر اپنی جگہ کھڑا ہے۔مو لا نا مودوی کی کتب مذہبی کتابوں میں 'بیسٹ سیلرز‘ میں شمار ہوتی تھیں۔ ادبی کتب میں یہی حال ابن انشا کا تھا۔وہ شاعری اور نثر دونوں میں منفرد تھے۔ایسی خوش گوار تحریرلکھنا کم ہی لوگوں کو نصیب ہو ا۔ان کی کتب کیا آج نہیں پڑھی جا رہیں؟اگر پڑھی جا رہی ہیں توکتب فروشوں کے پاس کیوں نہیں پائی جا تیں؟
میرا احساس ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ،لوگوں کا مذہبی اور ادبی ذوق پست ہو اہے۔ہمارے ہاںایک دور ایسا بھی رہا ہے جب مذہبی مصنفین میں مو لا نا شبلی نعمانی،مو لا نا ابوالکلام آزاد،سید سلیمان ندوی اور مو لا نا مودودی جیسے لوگ مقبول تھے، جنہیں ادبی مشاہیر میں شامل کیا جا تا ہے ۔شبلی تو با ضابطہ طور پر اردو کے ارکانِ خمسہ میں شمار ہوتے ہیں۔ان کا علمی مرتبہ بھی ایسا ہے کہ آج تک ہم ان کا متبادل پیش نہیں کر سکے۔میرا حساس ہے کہ مو لا نا آزاد ایک استثنا کے طور پرعالمی اور سیاسی حوالے سے آج بھی غیر متعلق نہیں ہوئے۔اسی ہفتے میں نے ایک انگریزی اخبار کے ہفت روزہ ادبی وعلمی ایڈیشن میں اشتہار دیکھا کہ کسی ادارے نے ان کا تمام کام چند جلدوں میں جمع کر دیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کی کتب کے خریدار اب بھی موجود ہیں۔ذوق کے عمو می زوال میں میرے لیے یہ استثناحیرت انگیز ہے۔ اس کے علاوہ کم ہی ایسی شہادت میسر ہے جو مذہبی حوالے سے خوش ذوق قارئین کی موجودگی کا پتا دیتی ہو۔ بعض اہلِ مذہب کے مریدوں اور مسلکوں کے حلقے ہیں جن میں وہ پڑھے جاتے ہیں۔اس کی وجہ ظاہر ہے کہ عقیدت و محبت ہے، ذوق یا معیار نہیں۔
ادب کا معاملہ بھی ایسا ہی ہے۔شاعری کے میدان میں کیا ہو رہاہے،اگر آپ ظفراقبال صاحب کے کالم پڑھتے ہیں تو آپ سے کچھ چھپا نہیں ہو گا۔فکشن حسبِ روایت پڑھی جاتی ہے لیکن اس میں بھی خوش ذوقی کے مظاہر کم ہی دکھائی دیتے ہیں۔تنقید بھارت میں بہتر لکھی جا رہی ہے۔ہر میدان میں ہمیں کچھ لوگ مل جائیں گے جنہوں نے معیار کا خیال رکھا ہے لیکن ان کا شمار مقبول لکھاریوں میں نہیں ہوتا۔کالم کا معاملہ بھی یہی ہے۔ادب میں بھی ایک استثنا ہے اور یہ مشتاق احمد یو سفی صاحب کا ہے۔میرا خیال ہے کہ ان کی پزیرائی کا سبب ادب شناسی نہیں، فیشن ہے۔کچھ عرصے سے میڈیا نے یو سفی صاحب میں دلچسپی لینا شروع کی ہے اورگھر میں ان کی کتابوں کا ہونا،پڑھا لکھا ہونے کی نشانی بن گیا۔ورنہ جس سماج میں
ابن انشا اور شفیق الرحمن کا ذوق نہ ہو وہاں یوسفی صاحب کی مقبولیت زیادہ قابلِ فہم نہیں۔ سوال یہ نہیں ہے کہ مذہب و ادب کے باب میں سنجیدہ یا قابلِ ذکر کتابیں سامنے نہیں آرہیں، سوال یہ ہے کہ کیاسنجیدہ اور معیاری ادب پڑھا جا رہا ہے ؟
میرا کہنا ہے کہ ایسا نہیں ہے ۔مذہب اورادب دونوں کے باب میں ذوق پست ہوا ہے ۔اس کے دو اسباب ہیں۔ایک تو یہ کہ اردوزبان سماج میں اجنبی ہو گئی ہے۔زبان کا اعلیٰ ذوق تو اس کا اگلا مر حلہ ہے۔دوسرا یہ کہ میڈیا نے زبان اور ذوق کو بگاڑنے میں بھر پورکردار ادا کیا ہے۔بحیثیت مجموعی، پرنٹ اور الیکٹرانک، دونوں طرح کے میڈیا میں زبان و بیان اب ثانوی اہمیت کے حامل ہیں۔کہیں پہ زبان کی صحت پیشِ نظر نہیں۔ الاماشااللہ۔کالم کا معاملہ تو مزید افسوس ناک ہے۔اظہار الحق صاحب ، محترم ہارون الرشید، وجاہت مسعود یا برادرم عامر خاکوانی جیسے چند خوش ذوق باقی ہیں جو صحت ِ زبان کو اہمیت دیتے ہیں ورنہ ذوق کی پستی میںمقبول کالم کا بھی حصہ ہے۔اس پس منظر میں اگر مولانا مودودی یا ابن انشا کی کتابیں نہیں مل رہیں تو میرا خیال ہے کہ یہ قابلِ فہم ہے۔
زبان اور ادب روایت سے وابستہ ہیں۔ جس سماج میں روایت سے وابستگی کمزور ہو جائے وہاں ثقافت سے تعلق باقی نہیں رہتا۔سر سید، شبلی، مو لا نا مودودی یا غالب،اقبال اور ابن انشا سے تعلق کی کمزوری ،اس بات کاا علان ہے کہ ہم روایت سے کٹ رہے ہیں، جڑ سے کٹ کر کوئی پودا ہرا نہیں رہ سکتا۔ یہ ایک تہذیبی المیہ ہے جس کے بارے میں متنبہ ہو نا چاہیے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں