سترہ سال بعد 28 مئی ہی کو، ایک اورکارنامہ نواز شریف صاحب کے نامہ اعمال میں درج ہو گیا۔ اقتصادی راہداری کا مسئلہ الجھتا جا رہا تھا۔ اس اڑتی گرد میں طوفان بننے کے آثار تھے۔ ایک باخبر صحافی نے مجھ سے کہا: یہی منصوبہ آنے والی سیاست کے تیور طے کرے گا۔ مطلب یہ تھا کہ بدامنی کا ایک نیا دور ہمارے دروازے پر دستک دے رہا ہے۔ اسفند یار ولی صاحب اور پرویز خٹک صاحب کا لہجہ بتا رہا تھا کہ گروہی مفادات قومی مفاد پر غالب آتے جا رہے ہیں۔ بھارت اور ہمسایہ ممالک کی بڑھتی تشویش اس گرد کو ہوا دے رہی تھی۔ چنگاری بھڑک رہی تھی اور تیل ڈالنے والے کم نہیں تھے۔ یوں ایک خیر کو شر میں بدلنے کے امکانات 'روشن‘ تھے۔ اس وقت وزراتِ عظمیٰ کے منصب پر کسی ایسے فرد کی ضرورت تھی جو معاملات کو وسیع تر تناظر میں دیکھنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔ اللہ کا شکر ہے کہ اس موقع پر قسمت نے ہمارا ساتھ نہیں چھوڑا۔
میں پارلیمنٹ کی موجودگی میں اے پی سی کو سیاسی بدعت سمجھتا ہوں۔ یہ ایسا ہی ہے کہ اسلامی نظریاتی کونسل کی موجودگی میں، حکومت دینی معاملات میں راہنمائی کے لیے دوسرے علما سے رابطہ کرے۔ اگر کونسل میں بیٹھے علما دینی امور میں رائے دینے کے اہل ہیں تو اِدھر اُدھر دیکھنے کی حاجت کیا ہے؟ اگر وہ اہلیت نہیں رکھتے تو آپ نے کونسل کے لیے ان کا انتخاب کیوں کیا؟ اسی طرح اگر پارلیمنٹ اتفاقِ رائے کا فورم نہیں بن سکتا تو اس کا وجود کس کام کا اور ہم کس پارلیمنٹ کی بالادستی کا عَلم اٹھائے پھرتے ہیں؟ اگر اہل ہے اور عوام کی نمائندہ ہے تو اے پی سی کیوں؟ اس ملک میں پارلیمانی نظام کی ساکھ اور مستقبل اس سوال کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں؛ تاہم ہمیں اس موقع پر آموں سے غرض تھی، وہ مل گئے۔ کم از کم اس وقت تو درختوں کی گنتی کارِ عبث ہے۔
اے پی سی میں کوئی نئی بات سامنے نہیں آئی۔ سب باتیں وہی کی گئیں جو پہلے کہی جاتی رہی ہیں‘ سوائے ایک بات کے۔ اب ایک پارلیمانی کمیٹی بنائی جائے گی‘ جس میں سب جماعتوں کی نمائندگی ہو گی اور وہ اس کی نگرانی کرے گی۔ یہ اچھا قدم ہے۔ ایک منصوبے کی اونرشپ بڑھے گی تو استحکام بھی بڑھے گا۔ اس منصوبے نے 2030ء تک جاری رہنا ہے، انشاء اللہ۔ معلوم نہیں اس وقت کون حکمران ہو۔ اس لیے لازم تھا کہ اسے کسی خاص جماعت یا حکومت کے پس منظر میں نہ دیکھا جاتا۔ سیاسی قیادت نے بھی، کم از کم تادم ِتحریر، سیاسی بلوغت کا مظاہرہ کیا ہے۔ اللہ کرے کہ مستقبل میں کوئی غلط فہمی، کوئی کج فہمی یا کوئی ترغیب اس منصوبے کی راہ میں حائل نہ ہو۔
ہمارے شب و روز سے کچھ اچھی خبریں بھی ظہور کرتی ہیں۔ افسوس کہ تشہیر خرابیوں کی زیادہ ہے۔ اسی 28 مئی کو ہم نے ایک اور سنگِ میل عبور کیا۔ ہم نے تھر کول سے بجلی پیدا کرنے کا کامیاب تجربہ کیا۔ یہ اس بات کی نوید ہے کہ ہم آنے والے دنوں میں توانائی کے بحران پر قابو پا سکیں گے۔ معیشت کے باب میں بحیثیت مجموعی حوصلہ افزا پیش رفت ہے۔ استحکام کے امکانات موجود ہیں اور اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ضربِ عضب ہی اس کا نقطہ آغاز بنی۔ کچھ لوگوں نے ملک و قوم کے لیے اپنی جان ہتھیلی پر رکھی تو یہ ممکن ہوا۔ ان میں وہ جوان شامل ہیں جو رات کی تاریکیوں میں پہاڑوں اور ویرانوں میں انسانی لہو بہانے والوں کا پیچھا کرتے ہیں اور وہ بھی جو سیاسی ایوانوں میں بیٹھ کر مشکل فیصلے کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ مدد کرے گا اور یہ ملک امن کا گہوارہ بنے گا۔ امن معاشی استحکام کی پہلی سیڑھی ہے۔
نواز شریف صاحب نے اقتصادیات کے معاملے میں جس بصیرت اور وژن کا مظاہرہ کیا ہے، اب ضرورت ہے کہ گورننس کے باب میں بھی اس کا ظہور ہو۔ گورننس کے معاملات بدستور اصلاح طلب ہیں۔ قومی ادارے شدت سے تشکیلِ نو کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ ریلوے کے سوا، کہیں سے کوئی اچھی خبر نہیں آ رہی۔ ایک عام آدمی کے لیے کوئی ایسا نظام وضع نہیں کیا جا سکا جو اسے کسی وزیر یا اعلیٰ افسر تک رسائی دلا سکے۔ اگر نچلے درجے میں شکایات کا ازالہ ہو سکتا تو اس کی ضرورت نہیں تھی۔ ہمیں معلوم ہے کہ ایسا نہیں ہو رہا۔ وزرا کے احتساب کا کوئی نظام نہیں ہے۔ کبھی ایسی خبر نہیں سنی گئی کہ وزیر اعظم نے کسی وزیر کو بلایا اور اس سے وزارت کے باب میں سوال کیا ہو۔ اخبارات میں اعلیٰ سطح پر کرپشن کی خبریں شائع ہوتی اور کالموں کا موضوع بنتی ہیں۔ کبھی سننے میں نہیں آیا کہ ان پر کسی ردِعمل کا اظہار ہوا ہے۔ اگر کوئی خبر غلط ہے تو اس کی وضاحت آنی چاہیے۔ اگر درست ہے تو اصلاح ہونی چاہیے۔ ایک خبر آئی تھی کہ گندم سکینڈل کی تحقیقات کے لیے وزیر اعظم نے ایک کمیٹی بنائی ہے، عوام ابھی تک بے خبر ہیں کہ اس کا حاصلِ تحقیق کیا ہے؟
بڑے منصوبوں کی کامیابی کو سماجی انصاف سے الگ نہیں کیا جا سکتا۔ سماجی انصاف سے متعلق اکثر محکمے صوبوں کے پاس ہیں لیکن ان کی نگرانی بھی وفاق کا کام ہے۔ ان سے باز پرس ہونی چاہیے۔ ہم مرکزی حکومت کو ان سے الگ کر کے نہیں دیکھ سکتے۔ پنجاب اور بلوچستان کی حکومتیں تو مرکز سے ہم آہنگ ہیں۔ سندھ کے ساتھ بھی وحدت ہے۔ کے پی کا معاملہ البتہ مختلف ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ وہاں حکومت کا کوئی حریف بیٹھا ہوا ہے۔ تحریکِ انصاف کی سیاست تو اسی کی متقاضی ہے کہ وہ ہر روز مرکز کو للکارے۔ مرکز کو مگر کوشش کرنی چاہیے کہ وہ اسے وحدت کا حصہ بنائے۔ ایک خاندان اور ایک صوبے کی حکومت کا تاثر ختم کرے۔ ن لیگ اور مرکزی حکومت، دونوں کو قومی سطح پر بروئے کار آ نا چاہیے۔ پنجاب کا معاملہ بطور خاص ایسا ہے کہ اسے مرکز سے الگ کرکے نہیں دیکھا جا سکتا۔ پنجاب حکومت کی ناکامیاں اور کامیابیاں دونوں شریف خاندان ہی کے نامہ اعمال میں درج ہوتی ہیں۔ شہباز شریف کا تحرک اپنی جگہ، مگر سماجی انصاف کے معاملے میں شکایات میں کمی نہیں آ رہی۔ وزیر اعلیٰ کا معاملہ یہ ہوتا جا رہا ہے کہ واقعہ ہو جاتا ہے اور ان کے نوٹس کی خبر آتی ہے۔ اس پہ مستزاد ایک خاندان کی حکومت کا گہرا ہوتا تاثر۔
نواز شریف صاحب کے اقتصادی وژن کی کامیابی کے لیے سماجی انصاف ناگزیر ہے۔ انہوں نے اقتصادی راہداری کے معاملے میں جس بصیرت اور بالغ نظری کا ثبوت دیا ہے، اب لازم ہے کہ اس کا مظاہرہ اس میدان میں بھی ہو۔ قوم کو اب معلوم ہونا چاہیے کہ گورننس کے باب میں ان کا وژن کیا ہے۔ بجٹ سیشن کے بعد، اگر وہ قوم سے خطاب کریں اور اپنا وژن پارلیمنٹ کی معرفت قوم کے سامنے رکھیں تو اس سے ان کے شخصی وقار میں اضافہ ہو گا۔ اس کے لیے اگر وہ قائد اعظم کی مشہور عالم تقریر پڑھ لیں تو بہتر ہو گا جو انہوں نے 11 اگست 1947ء کو مجلس دستور ساز کے سامنے کی۔ اس میں انہوں نے اقربا پروری کے بارے میں بھی کچھ نصیحتیں کی ہیں۔
یہ کارنامہ بہرحال ان کے نامہ اعمال میں درج ہو چکا کہ انہوں نے قومی ترقی کے ایک منصوبے کو سبوتاژ ہونے سے بچا لیا۔ تاریخ اگر ایک اعزاز کے لیے کسی کا انتخاب کر لے تواُس سے الجھنا نہیں چاہیے۔ اسی تاریخ نے 1973ء کے آئین کی تشکیل بھٹو صاحب کے اعمال نامے میں لکھی۔ ہم ان سے یہ اعزاز چھین نہیں سکتے۔ 1992 ء کا کرکٹ ورلڈ کپ عمران خان کے نام لکھ دیا گیا توکوئی کیا کر سکتا ہے۔ تاریخ لیکن اعزاز ہی کے لیے نہیں، آ زمائش کے لیے بھی انتخاب کرتی ہے۔ وہ یہ بھی فیصلہ سناتی ہے کہ کون آزمائش میں پورا اترا۔ ہم سب عرصہ آزمائش میں ہیں۔کسی کے لیے حکومت آزمائش ہے اور کسی کے لیے قلم!