"KNC" (space) message & send to 7575

دھاندلی کی چیمپئن؟

تحریکِ انصاف کے لیے یہ خطاب ، جماعت اسلامی کی عطا ہے۔ وہی جماعت جو تحریک انصاف کی سیاسی حلیف ہے۔ مزید کہا گیا: دھاندلی کا منصوبہ وزیر اعلیٰ ہاؤس میں تیار ہوا۔
بصیرت کیا ہے؟ گمان کی سرحدوں سے نکل کر یقین کی اقلیم میں قدم رکھنا۔ عمران خان اور تحریک انصاف کے حق میں جو کچھ لکھااور کہا گیا، محض گمان تھا۔ خوش گمانی کے ان گنت رنگ جو حرف وصوت کی دنیا میں بکھرے رہے۔ چند برس‘ میںبھی اسی دنیا میں رہا۔ اپنے مزاج کے بر خلاف، 2002ء کے انتخابات میں نے کئی دن عمران خان کی انتخابی مہم کی نذر کر دیے۔ ان کی معیت میں ان کا حلقۂ انتخاب کھنگال ڈالا۔ اس پر مستزاد میرے کالم، جو ایک قومی اخبار کے صفحات میں محفوظ ہیں۔گمان کی سرحد لیکن میں نے جلد عبور کر لی۔ یہی جان پایا کہ تحریک انصاف موجود جماعتوں کی صف میں ایک اضافے سے زیادہ کچھ نہیں۔ بعض معاملات میں بہتر، بعض میں کہتر۔
خیبر پختون خوا کے بلدیاتی انتخابات کا نتیجہ بھی یہی ہے۔ سیاست کے حمام میں، اب کوئی دوسرے کو کم لباسی کا طعنہ نہیں دے سکتا۔ ہر کوئی اپنے اپنے وقت پر آزمایا گیا اور اکثریت ناکام رہی۔ تحریک انصاف اُسی سیاسی کلچر کی دَین ہے جس نے اس سے پہلے ہمیں پیپلز پارٹی ، ن لیگ ،جمعیت علمائے اسلام اور اے این پی سے نوازا۔ جماعت اسلامی نے طویل عرصہ اپنا امتیاز برقرار رکھا۔ بالآخر کانِ نمک میں نمک ہو گئی۔ آج وہ تحریک انصاف کی دھاندلی کے ''ثبوت ‘‘ لیے پھرتی ہے اور تحریک انصاف ، جماعت اسلامی سے متعلق ''حقائق ‘‘ سامنے لا رہی ہے۔ میرا خیال ہے اس معاملے میں دونوں سچ کہہ رہے ہیں۔
جماعت اسلامی طویل عرصہ صالحیت کے مینار پر رونق افروز رہی۔ تجربے سے معلوم ہوا کہ اِس بلندی سے تو عوام کے ساتھ اختلاط نہیں ہو سکتا۔ عوام سے ہم کلام ہونے کے لیے اس چوٹی سے اترنا پڑے گا۔ ابتدائی خیال تویہی تھا کہ عوام کو اس چوٹی تک لایا جائے۔ نتیجہ مگریہ نکلاکہ کروڑوں لوگوں کے معیار اخلاق کو بلند کرنے سے آسان تر ہے کہ اپنے معیار کو پست کر دیا جائے کہ اس میں چند ہزار ہی کو قلبِ ماہیت سے گزرنا ہوگا۔ اس سہل راستے کا انتخاب ہوا اور پھر صالحین و عوام شیر و شکر ہو گئے۔ اس کاکسی حد تک فائدہ ہوا۔ خیبر پختون خوا میں اقتدار کی دیوی مہربان ہو ئی۔ تحریک انصاف نے اس راز کو جماعت کے مقابلے میں کم وقت ضائع کرتے ہوئے پا لیا۔ جماعت کی اخلاقی بنیاد پر چونکہ زیادہ محنت ہوئی تھی، اس لیے اِن برے حالات میںبھی وہ اخلاقاً دوسروں سے بہتر ہے۔ تحریک انصاف کا سارا معاملہ گمان پر تھا جو عمران خان کی ذات سے متعلق ہے۔ گمان تو پھرگمان ہوتا ہے۔ حیرت ہے کہ اب بھی لوگ اس کے حصار میں ہیں جب معاملہ عین الیقین تک پہنچ چکا۔
تو کیا اس کا حاصل یہ ہے کہ ایک نئی سیاسی جماعت کا ظہور ہونا چاہیے؟ گویا زہریلے دودھ کو پھر بلویا جائے؟ تحریک انصاف بھی اسی جذبے کے ساتھ نمودار ہوئی تھی۔ '' ایک نئی سیاسی جماعت ‘‘۔ چند ہی سالوں میں وہ '' پرانی ‘‘ ہو گئی۔ اب خیراندیش پھر یہی بات کہتے ہیں۔ ان کی خدمت میں مکرر عرض ہے کہ وہ جماعت اسلامی اور کسی حد تک تحریک انصاف کے تجربات پردوبارہ غور فرما لیں۔ سماجی اخلاقیات کو تبدیل کیے بغیر سیاسی جماعت سے توقعات کی وابستگی کارِ لا حاصل ہے۔ سماج بدلتا ہے تو سیاست ومعیشت پر بھی اس کے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ ابھی تو سماجی اخلاقیات کو کسی نے موضوع ہی نہیں بنایا۔ بیج بوئے بغیر پھل کی توقع خوش گمانی ہے۔ ہم کب گمان سے نکل کربصیرت کی سرحد میں قدم رکھیں گے؟
جمہوریت البتہ ایک ایسی سیاسی قدر ہے جو اس سارے نظام میں تبدیلی کی واحد امید ہے۔ جس دن یہ سیاسی سے سماجی قدر میں بدل گئی، حقیقی تبدیلی کے آثار نمودار ہوں گے۔تبدیلی کا فطری سفر تو سماج سے سیاست کی طرف ہوتا ہے، لیکن زندگی ظاہر ہے کہ بیک وقت بہت سے شعبوں میں متحرک ہوتی ہے، جن میں سے ایک سیاست بھی ہے۔ سماجی تبدیلی کے انتظار میں سیاسی عمل رک نہیں سکتا۔ اسے اگر آگے بڑھنا ہے اور ظاہر ہے کہ بڑھنا ہے تو پھر اس کی واحد صورت جمہوریت ہے۔ اس جمہوریت کے دو فائدے اب بھی ہوئے، جنہیں اس انتخابی مشقت کے مثبت نتائج میں شمار کرنا چاہیے۔
ایک تو یہ کہ ان انتخابات سے ہزاروں نئے افراد سسٹم کا حصہ بنے ہیں۔ اگر زیادہ لوگ سسٹم سے وابستہ ہو جائیں تو وہ اس کے استحکام کا باعث بنتے ہیں۔ عمران خان کو اس بات کا کریڈٹ ملنا چاہیے کہ سب سے زیادہ انہوں نے ہی بلدیاتی انتخابات پر اصرار کیا۔ اس سے بہت سے نوجوان اب نظام کا حصہ بن گئے جو کچھ کرنے کا جذبہ رکھتے تھے لیکن ان کے سامنے کوئی منزل نہیں تھی۔ یہی لوگ دراصل انتہا پسند تنظیموں کی غذا بنتے ہیں۔ صوبائی حکومت کی نااہلی سے تشدد کے واقعات ہوئے جنہوں نے اس مثبت پہلو پر پردہ ڈال دیا۔ اس سے صرف نظر کیا جائے تو ہزاروں پرعزم نوجوان اب اس نظام کا حصہ بنے ہیںجو اس کے استحکام کے ساتھ‘ امید ہے کہ اس میں اصلاح کی بھی آواز بنیں گے۔ یوں سسٹم کے اندر سے، اصلاح کی صدا اٹھے گی۔
دوسرا یہ کہ جمہوریت کے ایک ثمر، آزاد میڈیا کے سبب یہ ممکن ہوا کہ لوگ اہل سیاست کے اصل چہرے دیکھ سکیں۔ جس میڈیا نے دھرنے کے دنوں میں بعض چہروں پر سچائی کا نقاب اوڑھایا تھا، اب اسی نے نوچ بھی لیا ہے۔ بیلٹ بکس اٹھا کر بھاگتے وزیر اس میڈیا کی برکت سے عوام نے اپنی آنکھوں سے دیکھے۔ یوں بہت سے لوگوںکے لیے یہ امکان پیدا ہو گیا کہ وہ گمان کی سرحدوں سے نکل کر یقین کی سرحد میں داخل ہو جائیں۔ یہ ارتقا ہے۔ یہ ارتقااُس سماجی عمل کو تقویت دے گا جس کو آگے بڑھائے بغیر کوئی حقیقی تبدیلی نہیں آ سکتی۔
جمہوریت کا تعلق سیاسی جماعتوں کے ارتقا سے بھی ہے۔ کیا تحریک انصاف اس تجربے کا سنجیدہ تجزیہ کر پائے گی؟ ماضی قریب کے واقعات کو سامنے رکھیں تو اس کے امکانات کم ہیں۔ عمران خان نے ہر معاملے میں ''کتاب الحیل ‘‘ سے ہی راہنمائی لی ہے۔ پارٹی کے داخلی انتخابات کے معاملے میں جس طرح کمیشن اور جسٹس وجیہہ الدین احمد کے ساتھ ہاتھ کیا گیا، وہ سب کے سامنے ہے۔ پھرانہوں نے انتخابات میں ہونے والی بد انتظامی کا ذمہ دار جس طرح الیکشن کمیشن کو ٹھہرایا ہے، وہ اسی انداز سیاست کی دلیل ہے۔ پہلے خود مطالبہ کیا کہ انتخابات ایک ہی دن ہوں۔ اب کہتے ہیں کہ ایک دن کیوںکرائے؟ یہ وہی روایتی سیاست ہے، جس سے بیزار لوگوں نے تحریکِ انصاف کا رخ کیا تھا۔ تاہم جمہوریت کا ایک ثمر یہ بھی ہے کہ خارجی دباؤ آپ کو وہ کچھ کرنے پر مجبور کرتا ہے جس پر آپ دل سے آمادہ نہیں ہوتے۔ یہ دباؤ تمام سیاسی جماعتوں پر ہے۔ امید ہے کہ یہ اِن جماعتوں کے کلچر کو بدلنے میں کردار ادا کرے گا۔
ان انتخابات سے یہ واضح ہو گیا ہے کہ اخلاقی کمزوریاں ، نظام اور سیاسی جماعتوں میں یکساں موجود ہیں۔ دیکھنا صرف یہ ہے کہ ''دھاندلی کا چیمپئن ‘‘ کون ہے۔ اس لیے سر دست تو کم تر برائی کے انتخاب ہی سے بات آگے بڑھے گی۔ اگر ہم یہ فرق کر سکیں تو یہ گمان سے بصیرت کی طرف پیش قدمی ہو گی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں