سیاست بدل رہی ہے۔یہ وقت کا جبر ہے۔لیکن کیا اہلِ سیاست بھی؟
بجٹ پر ہونے والی بحث کو دیکھ لیجیے!ایک بیان ہے جو حزبِ اختلاف سے منسوب ہے۔ہر سال اِس کودُھرا دیا جاتا ہے۔ اپوزیشن بدل جاتی ہے مگر بیان نہیں بدلتا۔ایک بیان وزرا کے نام سے بھی جاری ہوتا ہے۔پچھلے اور اُس سے پچھلے سال کے اخبارات دیکھ لیجیے۔جملوں کی ساخت میں کوئی فرق ملے گا نہ الفاظ کے درو بست میں۔بجٹ آنے سے پہلے ہی معلوم ہو تا ہے کہ اپوزیشن نے اسے مسترد کرنا ہے۔عمران خان جیسا راہنما بغیر کسی تیاری کے،اہلِ صحافت سے مخاطب ہوتا ہے۔ اسدعمر کو بار بار لقمہ دینا اور تصحیح کر نا پڑتی ہے۔دوسری طرف اسحاق ڈاربضد ہوتے ہیں کہ یہ عوام دوست بجٹ ہے۔کیا تیرہ ہزار روپے میں عوامی گھر چل سکتا ہے؟معلوم ہو تا ہے وہ اس ملک میں نہیں،کہیں اور رہتے ہیں۔حزب اقتدار اور حزبِ اختلاف روایتی سیاست کے علم بردار ہیں۔ایک سراپا تعریف،دوسری سراپا تنقید۔
خداوند!یہ تیرے سادہ دل بندے کدھر جائیں
سراج الحق صاحب نے مودی کے سر کی قیمت مقرر کردی۔ وہی جذباتی استحصال جو ہم اسلام اور پاکستان کے نام پر برسوں سے دیکھ رہے ہیں۔اگر جذبات کی سیاست کرنی ہے تو لازم ہے کہ آپ حافظ سعید صاحب سے دو قدم آگے کھڑے ہوں۔جانتے آپ بھی ہیں کہ اس اعلان کا کوئی تعلق عالمِ امکان سے نہیںہے۔آپ ان کے سر کی قیمت تو مقرر نہیں کرتے جنہوں نے پچاس ہزار پاکستانیوں کو مار دیا۔معاملہ حق و انصاف کا نہیں،جذبات کے سیاسی استعمال کا ہے ۔سیاست کے خدو خال بدل رہے ہیں مگر ہمارے مذہبی سیاست دان آج بھی یہ سمجھتے ہیں کہ مذہب کا سیاسی استحصال ہنوزسکہ رائج الوقت ہے۔
پھر سیاسی جماعتوں کو دیکھیے!اس ملک میں کوئی ایسی جماعت نہیں پائی جاتی جو علمِ سیاسیات میں بیان کی گئی سیاسی جماعت کی تعریف پر پورا اترتی ہو۔کیا ن لیگ سیاسی جماعت ہے؟یہ شریف خاندان کی سمع وطاعت کے سیاسی عقیدے پر قائم ایک گروہ ہے جس کی کوئی رائے ہے نہ وزن۔کوئی اس گروہ سے پوچھتاہے نہ اسے بتا تا ہے۔کوئی اپنے لیڈر کا احتساب نہیں کر سکتا۔احتساب تو دور کی بات،اس کی قیادت تک کسی کی رسائی نہیں۔تحریکِ انصاف بھی صرف عمران خان کے فرمان کا نام ہے۔جسٹس وجیہہ الدین کو غلط فہمی ہوئی توعمران خان نے تصحیح کر دی۔فرمایا کہ وہ خود کو سپریم کور ٹ کا جج سمجھ رہے ہیں۔اس جملے میں چھپی بلاغت کو الفاظ میں بیان کیا جائے تو اس کا مفہوم یہ ہے کہ انصاف عدالتوں میں ہو تاہے ، سیاسی جماعتوں میں نہیں۔ یہاں لیڈر ہی جج ہوتا ہے اور اس کی بات فیصلہ کن۔پیپلزپارٹی کا تو ذکر ہی کیا کہ اب بلاول بھی 'حقیقت پسند ‘ ہوتے دکھائی دیتے ہیں۔
سیاسی جماعتوں کے باب میں میرا ایک دلچسپ تجربہ ہے۔ بطور کالم نگار مجھے ان جماعتوں کے وابستگان کا ردِ عمل ملتارہتا ہے۔ن لیگ کی طرف سے کبھی کوئی ردِ عمل نہیں آیا۔تعریف پر کسی خوشی کا اظہار نہ تنقید پر کوئی ناراضی۔اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ ن لیگ کا کارکن اپنی جماعت اور اس کی قیادت سے کتنا لا تعلق ہے۔تحریکِ انصاف کا ردِ عمل مسلسل تبدیل ہو رہا ہے۔ابتدا میں تنقید پر شدید غصہ تھا۔چونکہ تحریکِ انصاف، جماعت کم ،ایک سیاسی رومان زیادہ ہے،اس لیے یہ ردِ عمل اس بات کا اظہار تھا کہ عمران خان، ان کی نظر میں ایک دیوتا ہیں۔دیوتا ہر غلطی سے پاک ہو تا ہے اور اس سے صرف خیر کا ظہور ہو تا ہے۔ہر رومان کی طرح ،آہستہ آہستہ یہ رومان بھی کم ہورہا ہے۔اب تنقید پر پہلے کی طرح ناراضی کا اظہار نہیں ہو تا۔معلوم ہو تا ہے کہ ان کی نظر میںعمران خان دیوتا سے انسان کی سطح پر آگئے ہیں۔ تاہم شریف خاندان سے نفرت میں کوئی کمی نہیں آئی۔مذہبی جماعتوں کا معاملہ یہ ہے کہ عقیدت کا ایک ہالہ ہے جو قیادت کو اپنے حصار میں لیے ہوئے ہے۔دلیل رومان کی طرح، عقیدت کے سامنے بھی بے معنی ہو تی ہے۔
میں اس سے یہ نتیجہ اخذکرتا ہوں کہ پاکستان میں سیاسی جماعتوں کو اصلاح اور تربیت کی شدید ضرورت ہے۔رومان، عقیدت،تقلید اور مفاد،اس وقت سیاسی جماعتوں کے ساتھ وابستگی کی یہ چار اساسات ہیں۔ان کی بنیاد پرعاشق، مرید،غبی اور خودغرض ہی جمع کیے جا سکتے ہیں۔یہ طبقات کبھی تبدیلی نہیں لا سکتے۔تبدیلی کے لیے بیدار مغز مخلصین کی ضرورت ہوتی ہے۔ تاریخ میں اس کی سب سے اچھی مثال صحابہ کرامؓ ہیں۔
دلِ بیدار فاروقی، دلِ بیدار کرّاری
جیسے عقیدت انہیں اپنے راہنما کے ساتھ تھی، اس کی کوئی مثال انسانی تاریخ پیش نہیں کر سکی۔ وہ شعوری طور پر جانتے تھے کہ آپﷺ اللہ کے رسول ہیں جن کے سا منے اونچی آواز میں کلام کر نے کا مطلب یہ ہے کہ اپنے ایمان کو خطر ے میں ڈال دیا جائے۔اس کے باوجود ان کی تربیت اس طرح کی گئی کہ وہ اپنے راہنما کے حضور میں اپنے دلائل رکھتے اور راہنما کا ظرف بھی اتنا بڑا تھاکہ کبھی ماتھے پر شکن تک نہ آتی۔اس تربیت نے ایک عظیم الشان جماعت کو وجود بخشا۔یہ اسی تربیت کا نتیجہ تھا کہ اللہ کے رسول دنیا سے رخصت ہوئے تو اتنے بڑے سانحے کے باوجود، اکابر صحابہ نے امت کے وجود کو بکھرنے نہیں دیا۔صدمے کی شدید کیفیت میں بھی مشاورت کے اصول کو اپناتے ہوئے، دلیل اور استدلا ل کے ساتھ معاملات کو سنبھالا دیا گیا۔سیدنا ابوبکر صدیقؓ نے اس موقع پر جو خطبہ ارشاد فرما یا وہ اس حسنِ تربیت اورسیاسی بصیرت کا شاہکار ہے۔
آج کیا کوئی یہ پیش گوئی کر سکتا ہے کہ ن لیگ نواز شریف صاحب کے بعد بھی اسی طرح باقی رہے گی؟ عمران خان کے بغیر، کیا تحریکِ انصاف کا کوئی تصور ممکن ہے؟کیا پیپلزپارٹی میں زرداری صاحب کی قیادت چیلنج ہو سکتی ہے؟جماعت اسلامی قدرے بہتر ہے لیکن میرے خیال میں اس میں بھی امیر جماعت کا احتساب نہیں کیا جا سکتا۔ جمعیت علمائے اسلام میں کون ہے جو مو لا نا فضل الرحمٰن کی قیادت کو چیلنج کرے؟ اگر کرے گا تو اسے نئی جمعیت بناناپڑے گی۔اس وقت جمعیت علمائے اسلام کے نام سے کم از کم چھ جماعتیں پائی جا تی ہیں۔
اہلِ سیاست تبدیل ہونے سے گریزاں ہیں لیکن وقت کا جبر خود ایک بڑی حقیقت ہے۔اس کے تحت بعض تبدیلیاں آ رہی ہیں۔ جیسے جمہوری اداروں کا تسلسل، جیسے انتخابی اصلاحات کی طرف پیش رفت۔اسی طرح بجٹ سے پہلے تحریکِ انصاف نے شیڈو بجٹ پیش کیا۔یہ ایک مثبت عمل تھا جس کی اپوزیشن سے توقع ہو تی ہے۔اسی طرح لیاقت بلوچ صاحب نے میٹرو منصوبے کی تعریف کی اور کہا کہ اگر کسی حکومتی اقدام سے عوام کو فائدہ پہنچتا ہے تواس کی تائید کر نی چاہیے۔یہ تنقید برائے تنقید کی روش سے انحراف ہے۔میرا کہنا ہے کہ خارجی دباؤ کے بجائے،اگر داخلی بصیرت کے تحت خود کو تبدیل کر دیا جائے توبہت سا وقت ضائع ہونے سے بچ جا تا ہے۔پھر شعوری تبدیلی زیادہ دیر پا ہو تی ہے۔
سیاست کو بدلنا ہے کہ یہ وقت کا فیصلہ ہے۔ اہلِ سیاست اگر خود کو نہیں بدلیں گے تو متروک ہو جائیں گے۔ رومان، عقیدت،تقلید اور مفاد کے سہارے کوئی سیاسی کلچر زیادہ دیر نہیں چل سکتا۔لازم ہے کہ اس کلچر کو نئی بنیادیں فراہم کی جائیں۔یہ بنیادیں کیاہیں:شعور،دلیل،ندرتِ خیال اور بے غرضی۔