مسلم دنیا کے نئے ابھرتے ہوئے ہیرو کے قدموں کو ترک عوام نے زنجیر پہنا دی۔ جسٹس اینڈ ڈیویلپمنٹ پارٹی کا اقتدار اب دوسری جماعتوںکے رحم و کرم پر ہے۔ کیا تیرہ سالہ عروج کے سفر کا یہ آخری پڑاؤ ہے ؟
ترکی اس خطے کے مسلمانوں کے لیے خواب و خیال کی سرزمین ہے۔ ہماری عظمتِ گم گشتہ کا آخری باب یہیں رقم ہوا۔ خلافت کا رومان یہیں سے وابستہ ہے۔نجم الدین اربکان سے شروع ہونے والا سفر اسلام پسندوں (Islamists) کے لیے ایک آئیڈیل ہے۔ قدرت نے اس ملک کے لیے جس طرح اپنا حسن ارزاںکیا، اس کے باعث یہ ہر طبقے کے لیے ایک دلکش سیر گاہ کی مثل ہے۔تصوف کے کئی طلسم کدے یہاں آباد ہیں۔ کسی کو اس کی تفصیل جاننا ہو تو راشد شاز کا سفر نامہ ترکی '' لستم پوخ‘‘ پڑھ لے۔ سیاسی اسلام، ماڈریٹ اسلام اور صوفی اسلام ہی نہیں سیکولرازم، نیشنلزم، کمیونزم... ہر مذہبی تعبیر اور ہرجدید سیاسی فکر کے مظاہر یہاں دیکھے جا سکتے ہیں۔ اب لوگ کہتے ہیں کہ اس جمہوریت کی کوکھ سے امیرالمومنین بعنوان صدر جنم لے رہا تھا کہ حادثہ ہو گیا۔
ہمارے حکمرانوں کو بھی ترکی سے بہت دلچسپی ہے۔ شریف برادران ترکی کو ایک رول ماڈل کے طور پر دیکھتے ہیں۔ طیب اردوان صاحب سے ان کے ذاتی مراسم ہیں۔ دکھائی دیتا ہے کہ وہ جماعت اسلامی سے زیادہ نواز شریف صاحب سے قریب ہیں، حالانکہ ان کی نظریاتی قربت جماعت سے ہے۔ اس کی وجوہ تجزیے کا ایک الگ موضوع ہیں۔ سردست تو مجھے یہ عرض کرنا ہے کہ متنوع تاریخی ، نظریاتی اور سیاسی اسباب ہیںجن کے باعث ہم ترکی سے دلچسپی رکھتے ہیں اور جاننا چاہتے ہیں کہ ترکی کے انتخابی نتائج سے کیسا منظر ابھرتا دکھائی دیتا ہے۔ میںصرف ایک پہلو کو یہاں زیر بحث لانا چاہتا ہوں۔
ترکی اسلامی خلافت کا آخری مرکز تھا۔ جنگ عظیم دوم کے بعد جب دنیا کا موجودہ نقشہ وجود میں آیا تو ترکی کی قیادت مصطفیٰ کمال کے ہاتھ میں تھی۔ انہوں نے ترکی کو ایک نئی شناخت دینا چاہی۔ یہ عالم گیر خلافت سے قومی ریاست کی طرف مراجعت تھی۔ شناخت کے اس سفر میں انہوں نے چاہا کہ ہر اس تہذیبی مظہر کی نفی کی جائے جو ترکوں کا رشتہ عربوںسے جوڑتا ہے۔ اسلام کی بنیاد بھی عرب ہی میں رکھی گئی۔ یوں اسلام کی آفاقیت اور عرب کلچر میں فرق کو پیش نظر نہیں رکھا گیا۔ قومی شناخت کے لیے ان کے خیال میں لازم تھا کہ قدیم سے ہر وہ رشتہ ختم کر دیا جائے، جس کی اساسات ترکی کی سرزمین سے باہر ہیں۔ ترک سماج نے مصطفیٰ کمال کی سیاسی قیادت اور بصیرت پر بھروسہ کیا لیکن ان کے فکر و فلسفے (Worldview) سے پوری طرح اتفاق نہیں کیا۔ اتا ترک نے یہ بات نظر انداز کی کہ اسلام عرب کی سرحدوں سے نکل چکا ہے اور اس نے ترک کلچر میںاپنی جگہ بنا لی ہے۔ انہوں نے بطور قوم ترکی کو زندہ کر دیا۔ یورپ کا مردِبیماراب ایشیا کا مرد ِحر تھا۔ اس کا کریڈٹ مصطفیٰ کمال سے کوئی نہیں چھین سکتا۔
اسلام کی سخت جانی کے بارے میں مگران کے اندازے غلط ثابت ہوئے۔ صوفی سلسلوں اور سعید نورسی جیسے لوگوں نے ترکی کی اس نئی شناخت میں اسلام کو بھی شامل رکھا۔ دیہات میں چونکہ روایت کا غلبہ ہوتا ہے اس لیے ترکی کے کلچر سے اذان نکل سکی نہ نماز۔ عربی زبان اجنبی ہوئی لیکن دل قرآن کی تلاوت سے آباد رہے اور تہذیب بھی۔نظری کشمکش کے ساتھ تہذیب کا ارتقا بھی جاری تھا جسے کوئی نظریہ روکنے پر قادر نہیں ہوتا۔ ایک طرف جمہوریت کا مطالبہ بڑھ رہا تھا اور دوسری طرف دیہی علاقوں سے شہروں کی طرف منتقلی کا سلسلہ بھی جاری تھا۔ دیہاتی شہروں میں آئے تو اپنی تہذیبی شناخت بھی ساتھ لائے۔ یوں شہروںکا کلچر بھی بدلنے لگا۔ جمہوریت مضبوط ہوئی تو مختلف نقطہ نظر کوسامنے آنے کا موقع ملا۔ اسلام پسندوں نے چاہا کہ وہ اسلامی ریاست کی تعبیر تلاش کریں۔ یہ کوشش ایک حد سے آگے نہ بڑھ سکی۔اربکان کے بعد اس خواب نے ایک نئی تعبیر تلاش کی۔ اس کا مظہر طیب اردوان تھے۔
اردوان نے سیکولرزم اورکمال ازم کو موضوع بنائے بغیر، ترکی کو معاشی اور سماجی ترقی کا ایک ماڈل دیا۔ اسے پزیرائی ملی۔ انہوںنے سیکولرازم کو اس کے حقیقی مفہوم میں لیا۔ اس سے پہلے
ترکی سیکولرازم ، ریاستی جبر کا ایک ہتھیار تھا۔یہ سیکولرازم حجاب اتارنے کی اجازت تو دیتا تھا پہننے کی نہیں۔ جسٹس اینڈ ڈیویلپمنٹ پارٹی نے سیکولرازم کے پورے تصور کو واضح کیا کہ اگر کوئی اپنی مرضی سے حجاب پہننا چاہتا تو اسے اتارنے پر مجبور کرنا سیکولرازم کی نفی ہے۔ شہروںمیں اس پیغام کو پزیرائی ملی کہ اب بہت سے دیہاتی یہاں آباد ہو چکے تھے،جو دیہات سے حجاب سمیت، مسلم تہذیب کے بہت سے مظاہر اپنے ساتھ لائے تھے۔ اردوان کے اس ترقیاتی ماڈل کو مقبولیت ملی جس نے ترک عوام کو معاشی ترقی اور تہذیبی آزادی کا تحفہ دیا۔ یہاں سے لیکن یہ کہانی ایک موڑ لیتی ہے۔ ایسا ہی موڑ اس نے مصر میں بھی لیا تھا اور الجزائر میںبھی۔
اردوان کی کامیابیوں نے انہیں ایک نیا راستہ دکھایا۔ اب انہوں نے اپنے لیے ایک عالمی کردار تلاش کرنا شروع کیا۔ قائد عوام سے فخر ایشیا‘ یہ ایک سینڈروم ہے، جس کا وہ شکار ہوئے۔ اب فخر ایشیا کا تو نہیں امت مسلمہ کی قیادت کا منصب خالی تھا۔ بطور حکمت عملی انہوں نے جس سیکولرازم اور ترک قومیت سے مفاہمت کی تھی، اب وہ اس سے ہٹنے لگے۔ خلافت عثمانیہ کا احیا، جدید اسلوب میں، ان کے پیش نظر تھا۔ اس کے لیے پہلے مرحلے پر ضروری تھا کہ وہ مطلق العنان بنیں۔ انہوں نے چاہا کہ ترکی صدارتی نظام کی طرف مراجعت کرے۔ صدر کی ذات میں ارتکاز ِ اختیار ہو اور صدر وہ پہلے ہی سے ہیں۔ 1150کمروں کے محل میں وہ منتقل ہو چکے تھے جس پر 615
ملین ڈالر کی لاگت آئی۔ اب ایک ریفرنڈم کی ضرورت تھی جو ترکی کو پارلیمانی کے بجائے صدارتی جمہوریت کے راستے پر ڈال دے۔ اس کے لیے 2015ء کے انتخابات میںکامیابی لازم تھی۔ افسوس کہ کمند ٹوٹ گئی دوچار ہاتھ جبکہ لب بام رہ گیا۔
مغرب کی ریشہ دوانیاںاپنی جگہ مگر میرے نزدیک یہ وہ گرہ ہے جو مسلم تہذیب کی پہچان بن گئی ہے اور کھل نہیں پارہی۔ جمہوریت معلوم ہوتا ہے کہ مسلمان راہنماؤں کے لیے محض ایک سیڑھی ہے۔ وہ اس پر چڑھ کر اقتدار تک پہنچنا چاہتے ہیں۔ اس کے بعد وہ اقتدار میںکسی کو شریک نہیںکرنا چاہتے۔ ذوالفقار علی بھٹو ، مہاتیر محمد، محمدمرسی اور اب طیب اردوان، سب اسی کے مظاہر ہیں۔ نواز شریف صاحب، عمران خان صاحب اور دوسرے راہنماؤں کا دل چیریں تویہی خواہش انگڑائیاں لیتی ملے گی۔ اسی وجہ سے یہ کہا جا تا ہے کہ مسلم سماج جمہوریت کے لیے ساز گار نہیں۔ اس کابھی تجزیہ ہونا چاہیے۔ مسلم معاشروںمیں بادشاہت، فوجی آمریت اور پاپائیت تو تاریخ کی ناقابل تردیدشہادت ہے۔
ترکی میرا احساس ہے کہ اسلام ، سیکولرازم اور قومیت کا ایک قابلِ عمل امتزاج بن چکا تھا۔ اگر اس امتزاج کو سامنے رکھتے ہوئے، ترکی کا سفر جاری رہتا تو اس میں مسلم دنیا کے لیے ایک رول ماڈل بننے کے امکانات موجود تھے۔ میرے دوست فرخ سہیل گوئندی اگر اس موضوع پر قلم اٹھائیں تو یہ بحث آگے بڑھ سکتی ہے۔ ترکی پر ان کے کالموں کا مجموعہ ''ترکی ہی ترکی ‘‘ معاصر ترکی کو سمجھنے کے لیے بہت اہم ہے۔ مسلم دنیا کو آج ایک نیا فکری پیرا ڈائم چاہیے۔ تیونس کے راشد غنوشی شاید واحد آدمی ہیں جو اس بات کو سمجھ رہے ہیں۔