اپوزیشن کے معاملے میں خیبر پختونخوا کا صوبہ بھی پاکستان کی طرح بد قسمت ثابت ہوا۔ انا کی جنگ لڑنے والا احتجاج پسندوں کا ایک گروہ جو خود کو حزبِ اختلاف کہتا ہے، تصادم کے راستے پر گامزن ہے۔
اس میں شبہ نہیں کہ بلدیاتی انتخابات میں دھاندلی ہوئی۔ شواہد ان گنت ہیں اور ناقابل تردید، مگر اب کیا کیا جائے؟ صوبائی حکومت کوپاک دامنی پر اصرار نہیں ہے۔ عمران خان دوبارہ انتخابات کے لیے آمادہ ہیں اور عدالتی کمیشن کے قیام پر بھی۔ وہ اپوزیشن سے مشاورت بھی کرنا چاہتے ہیں، اس لیے اے پی سی بلائی گئی۔ اس کے بعد کیا سڑکوں پر نکلنے کا کوئی جواز ہے؟ اخلاق اور قانون، دونوں کا جواب نفی میں ہے۔
خیبر پختونخوا‘ میں کئی بار لکھ چکا کہ پاکستان کا سب سے بیدار مغز صوبہ ہے۔ گزشتہ دس بارہ سال میں جتنے سیاسی تجربات اس صوبے میں ہوئے کہیں اور نہیں ہوسکے۔ مجلس عمل، اے این پی، تحریک انصاف، اِن میں قدر مشترک تلاش کرنا مشکل ہے۔ صوبے کے عوام نے مگر سب کو موقع دیا۔ یہ فکری آزادی کا اظہار ہے۔ یہاں کے عوام ابلۂ مسجد بنے نہ تہذیب کے فرزند ۔انہوں نے مجلس عمل جیسے بنیاد پرست گروہ کو ووٹ دیے اور اے این پی جیسی سیکولر جماعت کو بھی۔ کمال بصیرت کا مظاہرہ کرتے ہوئے سیاست و حکومت کو انہوں نے گورننس کا معاملہ سمجھا، مذہب کا نہیں۔ یہی نہیں، وہ کسی فرد کی ذہنی غلامی میں بھی مبتلا نہیں ہوئے۔ مجلس عمل اور تحریک انصاف کے ٹکٹ پر ایسے ایسے لوگ اسمبلیوں تک پہنچے جو کونسلر بننے کے خواب بھی نہیں دیکھ سکتے تھے۔ بڑے بڑے ناموں کو بلا خوف مستردکر دیا گیا۔ اب بلدیاتی انتخابات میں گرم جوش نوجوانوں کی ایک نئی کھیپ سامنے آئی ہے۔ سیاسی ارتقا جاری ہے اور اسے نیک شگون سمجھنا چاہیے۔
جمعیت علمائے اسلام اور اے این پی اس سفر سے بچھڑے ہوئے مسافرہیں۔ جمعیت کی مسلکی عصبیت نے اُسے ایک حد تک سہارا دیے رکھا۔ اے این پی مگر بہت پیچھے رہ گئی۔ حکومت میں رہ کر انہوں نے عوام کے ساتھ جو کچھ کیا 2013ء کے انتخابات میں انہوں (عوام) نے بدلہ چکا دیا۔ بلدیاتی انتخابات نے کسی حد تک اس کے تن مردہ میںجان ڈال دی۔ اس کے لیے اب موقع پیدا ہو گیا تھا کہ وہ اس جاری عمل کا متحرک حصہ بن جائے۔ بد عنوانی کی گرد میں لپٹے ان انتخابات نے تحریک انصاف کودفاعی مقام پر لا کھڑا کیا تھا۔ اے این پی چاہتی تو پُرامن جمہوری عمل کا حصہ بن کر اپنی کھوئی ہوئی حیثیت کو بحال کرسکتی تھی۔ حبِ عاجلہ مگر بصیرت پر غالب آئی۔ حیرت ہے کہ مولانا فضل الرحمٰن جیسا زیرک سیاست دان بھی جذباتی رو میں بہہ گیا۔ انا، سچ یہ ہے کہ عقل کا پردہ بن جاتی ہے۔
عام انتخابات میںجمعیت علمائے اسلام کو تحریک انصاف کے ہاتھوں ہزیمت اٹھانی پڑی۔ عمران خان اور تحریک انصاف کے راہنماؤں نے جس لب و لہجے میںمولانا کا ذکر کیا، اس نے سیاسی فضا کو مکدر کیا۔ تحریک انصاف اور عمران خان کے ہاتھوں، ہمارا سیاسی کلچر جیسے بربادہوا، میں اس پر لکھتا رہا ہوں۔ عمران خان کا متعارف کردہ لب ولہجہ اور اسلوب سیاست، دکھائی دیتا ہے کہ اب زمانے کا چلن بنتا جا رہا ہے۔ جمعیت علمائے اسلام بھی اب اسی رنگ میں رنگی جا رہی ہے۔ انتقام کا بے کنار جذبہ جس نے لاٹھی بردار گروہوںکو جنم دیا‘ داڑھی والوں اور بغیر داڑھی والوں میں کوئی فرق باقی نہیں رہا۔ اے این پی اور جمعیت علمائے اسلام کا مقدمہ انا اور انتقام کا مقدمہ ہے، جس کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں۔
ن لیگ کو مگر کیا ہوا؟ وہ استدلال کیا ہوا جو تحریک انصاف کے خلاف پیش کیا جاتا تھا؟ بلدیاتی انتخابات سے صوبے پرتحریک انصاف کا حق اقتدار ثابت نہیں ہوا۔ یہ تو 2013ء کے انتخابات سے ثابت ہے۔ اگر یہ مان لیا جائے کہ بلدیاتی انتخابات میں دھاندلی ہوئی ہے تو زیادہ سے زیادہ ان نو منتخب اداروں کو کالعدم قرار دیا جا سکتا ہے، صوبائی حکومت کو کیسے؟ وہ تو ایک انتخابی عمل کے نتیجے میں وجود میں آئی جو آپ کے خیال میں شفاف تھا۔ پھر یہ کہ بدعنوانی کا فیصلہ عدالت کے ایوانوں میں بیٹھے جج صاحبان کریں گے، سڑکوں اور گلیوں میں پھرنے والے لٹھ بردارنہیں۔
مرکز میں جس طرح ن لیگ کا حق اقتدار ثابت ہے، اسی طرح خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف کا۔ ن لیگ کو سیاسی عمل کا حصہ بنتے ہوئے، اے پی سی میں جانا چاہیے تھا اور اس کے ساتھ احتجاج سے بھی گریز کرنا چاہیے تھا۔ مرکزی حکومت کے خلاف احتجاج غیر قانونی ہے تو صوبائی حکومت کے خلاف قانونی کیسے ہو گیا؟ سیاست پیری مریدی کا کھیل نہیں کہ سوال نہ کیا جائے۔ سیاست میں اب تضادات کے ساتھ زندہ رہنا آسان نہیں رہا۔
تحریک انصاف کو یہ حق ملنا چاہیے کہ وہ خیبر پختونخوا میںاپنی مدت اقتدار کو پورا کرے۔ اگر اس کے کسی اقدام کے خلاف کسی گروہ یا جماعت کو شکایت ہے تو وہ عدالت میں جائے۔ عوام تک اپنا موقف پہنچانے کے لیے میڈیا اور دوسرے ذرائع ابلاغ کا سہارا لے۔ جب اپنا موقف پیش کرنے کا ہر آئینی دروازہ کھلا ہے تو ڈنڈا بردار دستوں کے ساتھ سڑکوں پر نکلنے کا کیا جواز ہے؟ پھر یہ کہ صوبائی حکومت کا رویہ بھی غیر معقول نہیں۔ وہ ہر طرح سے تعاون پر آمادہ ہے۔ جماعت اسلامی نے حکومت کی اے پی سی میں جا کر اچھا فیصلہ کیا ؛ تاہم اِس الزام کے ثبوت کا بار اس کے کندھوں پر ہے کہ ''دھاندلی کا منصوبہ وزیر اعلیٰ ہاؤس میں بنا‘‘۔ معلوم نہیں وہ اس تضاد کے ساتھ کہاں تک نباہ کر پائیںگے؟
آج پاکستان ایک راستے پر چل نکلا ہے۔ یہ جمہوریت اور معاشی سرگرمی کا راستہ ہے، اس کے لیے سماجی امن نا گزیر ہے جس کے لیے ضرب عضب کے عنوان سے ایک فیصلہ کن اور نتیجہ خیز آپریشن جاری ہے۔ اس موقع پر احتجاج کی سیاست، سماج کو پراگندہ کرنا ہے۔ ہم اب اس کے متحمل نہیںہو سکتے۔ ہمیں ایک دوسرے کی کمزوریوں کو گوارا کرنا ہے کہ اصلاح فرد کی ہو یا گروہ کی، تدریجاً ہوتی ہے۔ اگر بہتری کے آثار ہیں تو کسی احتجاج کا کوئی جواز نہیں۔ میرا خیال ہے کہ ہمارا آج گزرے کل سے بہتر ہے۔ پھر یہ کہ پاکستان کو خارج سے بہت سے خطرات درپیش ہیں۔ مودی صاحب کے اندرکا انتہا پسند ہندوکروٹیں لینے لگا ہے۔ بھارتی اب سفارتی آداب سے بھی بے نیاز ہو رہے ہیں۔ اس پس منظر میں پاکستان کو داخلی عدم استحکام میں مبتلا کر نا ناقابلِ فہم ہے۔
آج استحکام ہماری پہلی ترجیح ہو نی چاہیے۔ اس وقت قوم کو راہنماؤں کی ضرورت ہے، احتجاج پسندوں کی نہیں۔ مو لا نا فضل الرحمن کو بھی اندازہ ہونا چاہیے کہ مذہب کے نام پر سیاست کر نے والوں کا اصل اثاثہ اخلاقی ہے۔ احتجاجی سیاست سے اے این پی کو بھی کچھ نہیں ملنے والا۔ میاں افتخار جیسے لوگوں کو اپنی نیک نامی داؤ پر نہیں لگانی چاہیے جن کا سب احترام کرتے ہیں۔ ہڑتال کی ناکامی سے انہیں کچھ اندازہ تو ہو گیا ہوگا۔ مجھے سب سے زیادہ افسوس ن لیگ پر ہو گا اگر وہ خیبر پختونخوا میں احتجاج پسندوں کی صف میں کھڑی ہوگی۔ یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ اس کے بعد تحریکِ انصاف کے خلاف اس کا مقدمہ اخلاقی جواز سے محروم ہو جا ئے گا۔ سوال لیکن یہ ہے کہ کون ہے جو سیاست کو اخلاقی اقدار کا پابند سمجھتا ہے؟ کوئی ہے تو سامنے آئے!