زرداری صاحب کے لب و لہجے اور الفاظ کے غلط چناؤ نے بحث کا رخ بدل ڈالا ورنہ پیپلز پارٹی کا مقدمہ کچھ ایسا کمزور بھی نہیں۔
یہ مقدمہ ہے کیا؟ یہی کہ رینجرز کا ایک مینڈیٹ ہے، جس کا تعلق ہنگامی صورتِ حال سے ہے۔ دہشت گردی ہے اور فساد فی الارض جس سے شہر کا نظم و نسق قائم رکھنا ممکن نہیں۔ اس نظم کی بحالی کے لیے رینجرز، مرکزی اور صوبائی حکومت کی مددگار ہیں۔ رہے عمومی انتظامی معاملات تو یہ صوبائی حکو مت کے ذمہ ہیں۔ کرپشن، رشوت اور اس قسم کے جرائم کے لیے قانون موجود ہے اور ذمہ دار ادارے بھی۔ رینجرز کا ان سے کوئی تعلق نہیں۔ اس مقدمے پر کوئی قانونی اعتراض اٹھایا جا سکتا ہے نہ اخلاقی۔ جواباً یہ کہا جا سکتا ہے کہ صوبائی حکومت نااہل ہے اور بد عنوان بھی۔ وہ کرپشن کو ختم کرنے پر قادر ہے اور نہ اس کا ارادہ رکھتی ہے۔ یہی نہیں وہ تو خود اس میں ملوث ہے۔ اس مؤقف کو اگر درست مان لیا جائے تو کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ شہر سے کرپشن کے خاتمے کا مینڈیٹ رینجرز کو دے دینا چاہیے؟ کیا اس ملک کا قانون یہی کہتا ہے؟ کیا آئین کا منشا یہی ہے؟ محترم جنرل حمید گل صاحب کی سیاسی فقہ میں ممکن ہے ایسا ہی ہولیکن جس آئین کو ہم جانتے ہیں اور جو آج نافذ ہے، وہ ان سوالوں کے جواب اثبات میں نہیں دیتا۔
پیپلز پارٹی ضربِ عضب کی حامی ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ اس ملک میں اگر کوئی سیاسی جماعت دہشت گردی کی دل سے مخالف ہے تو وہ پیپلز پارٹی ہے۔ اس سے کون انکار کر سکتا ہے کہ بے نظیر بھٹو صاحبہ کی جان بھی اس معرکے میں کام آئی۔اس میں بھی شبہ نہیں کہ اس جماعت نے ہمیشہ وفاق کی سیاست کی۔ ذوالفقار علی بھٹو کی لاش سندھ اور وفاق میں حد فاصل بن سکتی تھی مگر بے نظیر بھٹو نے ایسا نہیں ہونے دیا۔ زرداری صاحب کو بھی اس کی داد ملنی چاہیے کہ انہوں نے بے نظیر بھٹو کی لاش کو بھی تقسیم اور نفرت کا عنوان بننے سے روکا۔ زرداری صاحب نے اپنے دورِ صدارت میں فی الجملہ فوج کے ساتھ مفاہمت کا رویہ رکھا اور بہت سے معاملات میں اس کی برتری کو تسلیم کیا۔
اس اعتراف کے ساتھ، یہ بھی سچ ہے کہ ان کا دورِ اقتدار گورننس کے حوالے سے تاریخ کے بدترین ادوار میں سے ایک تھا۔ کرپشن کی شرمناک داستانیں اس عہد سے منسوب ہیں۔ ترکی کی خاتونِ اوّل کے ہار کا قصہ ہی یہ جاننے کے لیے کفایت کرتا ہے کہ مالی معاملات میں کس پستی کے مظاہرے سامنے آئے۔ پیپلز پارٹی کو اس کی سزا مل گئی۔ عوام کی عدالت نے اسے مسترد کردیا۔ سیاسی جماعتوں اور رہنماؤں کا حقیقی احتساب یہی ہوتا ہے۔ سندھ کے عوام نے البتہ انہیں ایک بار پھر آزمانے کا فیصلہ کیا۔ اپنے غلط فیصلے کے نتائج وہ بھگت رہے ہیں۔ جمہوریت مگر اسی کا نام ہے۔ عوام اگر درست فیصلہ کریں گے تو اجر پائیں گے، غلط فیصلہ کریں گے تو سزا پائیں گے۔ عوامی احتساب کا یہ نظام ، قانونی احتساب کا دروازہ بند نہیں کرتا۔ عدالت کوئی بھی فیصلہ دے سکتی ہے اور اسے دینا چاہیے۔ کرپشن کے لیے نیب اور دوسرے ادارے موجود ہیں۔ انہیں متحرک ہونا چاہیے۔ان کو آخر کس نے روکا ہے کہ وہ احتساب نہ کریں۔
اہلِ سیاست کے احتساب کا حق، عوام کے پاس ہے یا عدالت کے پاس۔ پاکستان کا آئین اس باب میں بالکل واضح ہے۔ پیپلز پارٹی اگر اپنا مقدمہ یہیں تک محدود رکھتی تو اس سے اختلاف مشکل تھا۔ معاملہ زرداری صاحب کے غیر محتاط خطاب نے بگاڑا۔ ان کی تقریر فوج کے خلاف اعلانِ جنگ تھا اور اِس پر ان کے الفاظ گواہ ہیں۔ پیپلز پارٹی کے لوگ اس کی جو تاویل کر رہے ہیں وہ عذرِ لنگ ہے۔ ان کے روئے سخن کے بارے میں کوئی ابہام نہیں۔ وہ احتجاج کے لیے جمہوری اور مہذب طریقہ بھی استعمال کر سکتے تھے۔ وزیرِ اعلیٰ سندھ نے ڈی جی رینجرز کو خط لکھا، یہ ایک مناسب طریقہ ہے۔ زرداری صاحب ایک ایسا ہی خط وزیرِ اعظم کو لکھ سکتے تھے۔ پریس کانفرنس بھی کر سکتے تھے۔ میں نہیں جان سکا کہ ان جیسے سمجھدار آدمی نے اپنی بات کہنے کے لیے یہ لب و لہجہ کیوں اختیار کیا اور وہ بھی ایک ایسے موقع پر جب بلاول عملی سیاست میں پہلا قدم رکھنے والا ہے۔ پھر یہ کہ وہ ملک کے سابق صدر ہیں۔ ریاست کے سب سے اہم منصب پر وہ فائز رہے جو پاک فوج کا سپریم کمانڈر بھی ہے۔ ایسے آدمی کے سینے میں بہت سے راز ہوتے ہیں اور وہ زخم کھا کر بھی ان کی حفاظت کرتا ہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ان کے انداز بیان نے پیپلز پارٹی کا مقدمہ کمزور کیا، بصورتِ دیگر جس کا دفاع کیا جا سکتا تھا۔
ن لیگ کے ردِ عمل نے توحیران کر دیا۔ جس لب و لہجے پر شہباز شریف صاحب دو بار اظہارِ ندامت کر چکے، مشاہد اللہ صاحب نے اسی کا احیا کر دیا۔ اگر مشاہد اللہ صاحب کے الزامات درست ہیں تو اُس لوٹ مارکا حساب لینا حکومت کی اخلاقی اورقانونی ذمہ داری ہے جس کا انہوں نے سینیٹ میں ذکر کیا۔ انتخابات میں انہوں نے قوم سے وعدہ بھی کیا تھا۔ جوشیلی تقریریں اپوزیشن کرتی ہے، حکومت تو اقدام کرتی ہے۔ اگر ان کے الزامات پر حکومتی کارروائی نہیں ہوتی توپھراس زورِ خطابت کی اخلاقی حیثیت مشتبہ ہو جائے گی۔ یہ سوال بھی اٹھے گا کہ سیاسی جماعتوں کے مابین اصل رشتہ کیا ہے؟ قومی مفاد کا یا گروہی مفاد کا؟گزشتہ دو سال میں حکومت نے پیپلزپارٹی کی مبینہ کرپشن کے خلاف کیا کیا؟شہباز شریف صاحب نے کس بات پر معذرت کی؟میرا خیال ہے کہ سب سے متوازن ردِ عمل پرویز رشید صاحب کا تھا۔ انہوں نے جہاں زرداری صاحب کی تقریر سے اعلانِ لاتعلقی کیا وہاں کسی اضافی تبصرے سے گریز بھی کیا۔
سوال یہ ہے کہ اب کیا کیا جائے؟ میرا خیال ہے کہ وزیراعظم کو آگے بڑھ کر معاملے کواپنے ہاتھ میں لینا چاہیے۔ پیپلزپارٹی اور فوج کے مابین فاصلے سمٹنے چاہئیں۔ پیپلزپارٹی کو دیوار سے لگانے کی کوشش نہیں ہونی چاہیے۔ میں بار ہا عرض کرچکا کہ جرم اور سیاسی عصبیت جمع ہوجائیں تومعاملہ سادہ نہیں رہتا۔ پیپلزپارٹی اورفوج کے درمیان فاصلوں کا بڑھنا وفاق کے لیے نیک شگون نہیں۔ فوج نے دہشت گردی کے خلاف جرأت مندانہ اقدامات کیے ہیں۔ اِن کے لیے اسے پوری قوم کی غیر مشروط حمایت حاصل ہے۔ اس موقع پر فوج کا متنازع ہوناکسی طرح گوارا نہیں ہو نا چاہیے۔ اس لیے وزیراعظم کو اس باب میں ثالث بالخیر کا کردار ادا کرتے ہوئے، ان فاصلوں کو سمیٹنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ آصف زرداری صاحب کو بھی اندازہ ہوناچاہیے کہ ان سے چُوک ہوگئی۔ آج کی فوجی قیادت وہ نہیں ہے جس کا دامن سیاسی آلائشوں سے داغ دار ہو۔ اس قیادت کو پوری قوم کی تائید حاصل ہے۔ یہ ضیاء الحق صاحب یا پرویز مشرف صاحب کی طرح نہیں ہے جن کے حق میں اگر دو باتیں کی جا سکتی ہیں تو چار خلاف بھی۔ ن لیگ کو اس کا ادراک ہے۔ پیپلزپارٹی کی قیادت کو بھی ہونا چاہیے۔ تقریر کے ردِ عمل سے زرداری صاحب کو بدلتے منظر نامے کاا حساس یقیناً ہو گیا ہوگا۔
پاکستان اللہ کا شکر ہے کہ استحکام کی راہ پر ہے۔اس مرحلے پر کوئی نیا شوشہ نہیں چھوڑنا چاہیے۔ فوج حق بجانب ہو، تو بھی اسے کسی سیاسی قوت کے بالمقابل کھڑا نہیں ہو نا چاہیے۔ فوج کا مقدمہ وزیراعظم کولڑنا چاہیے اور اس کے ساتھ ایک قومی لیڈر کے طور پر ثالث کا کردار بھی ا دا کر نا چاہیے۔ اس وقت کرنے کا کام یہی ہے۔ شعلوں کو ہوا دینا ملک کے مفاد میں نہیں۔