رمضان المبارک میں تو رحمت کے فرشتوں کا نزول ہوتا ہے۔ ہماری قسمت دیکھیے، ہماری سرزمین پر طاہرالقادری صاحب اترے ہیں۔ خاکم بدہن، کیا ایک نیا فساد ہمارے دروازے پر دستک دے رہا ہے؟
کیا کوئی سوال اٹھانے والا ہے کہ وہ جب بھی یہاں تشریف لائے، یہاں کے باسیوں کو انہوں نے کیا عطا فرمایا؟ اُن کے دھرنوں نے اہلِ پاکستان کو کیا دیا؟ واقعہ یہ ہے کہ اس قوم کے جذباتی استحصال کا دور ختم ہونے کو نہیں آ رہا۔ جون کی تپتی دوپہر اور رمضان کے دن 'کارکن‘ ہیں کہ نعرے لگا رہے ہیں اور سڑکوں پہ دوڑ رہے ہیں:
اپنے عشاق سے ایسے بھی کوئی کرتا ہے؟
ہم جانتے ہیں کہ یہ عشق نہیں، استحصال ہے۔ پیسہ، ووٹ۔ آج کا مذہبی پیشوا، الا ماشااللہ، ایک سادہ مسلمان سے بنام خدا سب کچھ چھین لینا چاہتا ہے۔ سیکولرازم کی بات کی جائے تو لوگ لغت اٹھا لیتے ہیں کہ دیکھو! اس سے مراد دین اور دنیا میں جدائی ہے۔ میں اس سے گریز کرتا ہوں کہ فکری مغالطہ پیدا کرنا مقصود نہیں؛ تاہم مجھے اس میں کوئی شبہ نہیں کہ دنیا اور اہلِ مذہب کو جدا کیے بغیر دین کی خدمت ممکن ہے نہ دنیا کی تعمیر۔ اقبال کی تشخیص بالکل درست تھی:
باقی نہ رہی تیری وہ آئینہ ضمیری
اے کشتۂ سلطانی و ملائی و پیری!
اس سرزمین کا مسلمان سلطانی کے ساتھ پیری اور ملائیت کا بھی کشتہ بن گیا ہے۔ اس تشخیص کو سو سال ہو گئے، افسوس کہ علاج تلاش نہیں کیا جا سکا۔ مرض بڑھتا رہا اور مریض بھی۔ جیسے ایک بیکٹیریا اپنی قوتِ مزاحمت میں مسلسل اضافہ کرتا چلا جاتا ہے، اسی طرح اس مرض کا جرثومہ بھی مسلسل توانا ہوتا رہا ہے۔ اب کوئی عام سا 'اینٹی بیاٹک‘ اس پر کارگر نہیں۔ آج کے مذہبی استحصال نے عصری زبان سیکھ لی ہے۔ پیر صاحب نے دوگھر بنا رکھے ہیں۔ ایک، مثال کے طور پر راولپنڈی میں اور دوسرا اسلام آباد کے پوش علاقے میں۔ ایک میں عام 'مریض‘ کو دیکھا جاتا ہے اور دوسرے میں خاص کو۔ دونوں کے لیے ماحول مختلف ہے اور علاج بھی۔ یہی نہیں، پیر صاحب کا بیٹا مغربی اداروں کا تعلیم یافتہ ہے۔
فر فر انگریزی بو لتا ہے۔ 'جدید پڑھے لکھے‘ سادہ نوجوان لڑکے اور لڑکیاں، لیپ ٹاپ گود میں رکھے ہمہ تن گوش ہوتے ہیں۔ ہاتھ مسلسل چل رہے ہوتے ہیں کہ کوئی علمی نکتہ کہیں غفلت کی نذر نہ ہو جا ئے۔ نیا مجاور اور گدی نشین تیارہے، مسندِ ارشاد سنبھالنے کے لیے۔ پرانی شراب نئی بوتل میں فروخت ہو رہی ہے۔ لوگ اسے جدید اسلام کہتے اور خوش ہوتے ہیں کہ نئی نسل اسلام کی طرف راغب ہے۔ نہیں ، یہ مریدوں کی نئی نسل کو قابو میں رکھنے کا ایک طریقہ ہے۔
یہ اسلام کے' نئے ‘ ہونے کا اظہار نہیں ہے، اہلِ مذہب کے جدید ہونے کا اعلان ہے۔ اسلام کو نئے پن کی نہیں، تجدید کی ضرورت ہو تی ہے۔ تجدید تو'جدید‘ گرد اتارنے کا نام ہے جسے قدامت کے نام پر پیش کیا جا تا ہے۔ قدیم اسلام ہمیشہ جدید ہوتا ہے۔ تجدید اسی مقدمے کو ثابت کرنا ہے۔ دین جب مکمل ہو گیا اور ساتھ ہی نبوت کا باب بھی ہمیشہ کے لیے بند کر دیا گیا تو یہ اعلان عام تھا کہ یہ ہدایت، جو آ چکی، قیامت کی صبح تک ، ابنِ آدم کے لیے کفایت کرے گی۔ اسی ہدایت کی طرف لوٹنے کا نام تجدید ہے۔ روحِ اسلام کی بازیافت کا نام تجدید ہے۔ ابوحنیفہؒ انہی معنوں میں جدید ہیں اور اقبالؒ بھی۔ افسوس کہ لوگوں نے دونوں سے محبت کی ، ان کا نام لیا لیکن ان کے علم اور فکر سے دور رہے۔ ابوحنیفہؒ نے دین کے ماخذات پر غور کا ایک منہج دیا۔ اقبال نے ان فکری مسائل کی نشاندہی کی جن کے حل کے لیے لازم ہے کہ ایک نیا علمِ کلام وجود میں آئے۔ ایک کے نام لیوا اہلِ روایت کی چوکھٹ پہ سجدہ ریز ہوگئے اور دوسرے کی بات کا فہم ہی کم لوگوں کو نصیب ہوا۔ قبرِ اقبال پر چراغ تو جلتا ہے اور ہر سال پھول بھی چڑھائے جاتے ہیں، فکر مگر ایک گم ناک قبر ہے۔۔۔۔ نے چراغے، نے گلے۔
روشن خیالوں نے خیال کیا کہ اہلِ مذہب کو 'جدید‘ بنا نے سے مذہب بھی 'جدید‘ ہو جائے گا۔ مدارس میں کمپیوٹر پہنچا دیے گئے اور اہلِ مذہب کے ہاتھ میں آئی فون آگئے اور لیپ ٹاپ بھی۔ لوگ خوش ہوگئے کہ اب اسلام جدید ہو گیا۔ پرویز مشرف صاحب نے طاہر القادری صاحب کو اسمبلی پہنچا دیا اور انہوں نے گمان کیا کہ وہ وزراتِ عظمیٰ کے لیے جنرل صاحب کا انتخاب ہیں۔ میں نے دیواروں پہ اشتہار آویزاں دیکھے۔ جنرل صاحب اور قادری صاحب کی تصاویر ہیں اور ساتھ لکھا ہے: ''ہاں! قوم کو آ پ کی ضرورت ہے!‘‘ ایک سادہ مسلمان بھی یہی خیال کرتا ہے۔ پیر اور مذہبی پیشوا کے جدید ہونے سے اسلام بھی نو جوانوں کے قلوب میں اتر جا ئے گا۔ وہ اپنی سادگی کے باعث نہیں جانتا کہ اس کے استحصال کا نیا باب کھل گیا ہے۔
دین دورِ حاضرکی علمی حقیقت اُس وقت بنے گا جب سوچ کے نئے در وا ہوں گے۔ جب دین کے نام لیوا عصرِ حاضر کی تہہ میں اتر کر، اس کے مسائل کو دریافت کریں گے اور انہیں حل کے لیے دین کے حضور میں پیش کریں گے۔ وہ دین جو قیامت کی صبح تک ہماری راہنمائی کے لیے کفایت کرتا ہے۔ یہ اہلِ علم کا کام ہے۔ اہلِ علم جلوت کے نہیں، خلوت کے لوگ ہوتے ہیں۔ یہی نہیں، وہ اقتدار کی حریصانہ اور حریفانہ کشمکش میں فریق نہیں ہوتے، ابو حنیفہؒ اور اقبال کی طرح۔ وہ پرانی شراب نئی بو تلوں میں پیش نہیں کرتے اور نہ ہی اپنی دینی 'خدمات‘ کے عوض،کسی اجر کے طالب ہوتے ہیں۔ اقتدارکے لیے سیاست، اگر خیر کی خواہش دل میں ہو تو مباح ہے۔ یہ مگر اہلِ سیاست کے کام ہیں۔ آپ یہ خواہش رکھتے ہیں تو بسم اللہ۔ آئیے!ایک سیاسی جماعت بنائیے لیکن پہلے یہ جبہ اتاریے جس
سے لوگ آپ کو مذہبی پیش وا سمجھنے لگتے ہیں۔ یہ جبہ اگر مسندِ ارشاد پر ہو تو باعثِ عزت اور اگر موچی دروازے کے جلسے میں، ووٹ کے لیے ہو تو مذہبی استحصال کی علامت۔
طاہر القادری صاحب پھر اس سرزمین پہ اترے ہیں تو دل خدشات سے بھر گیا ہے۔ ان گنت اندیشے ہیں جو چاروں طرف پھیلے ہیں۔ ان کے سیاسی کزن بھی کہہ رہے ہیں کہ بلدیاتی انتخابات سے پہلے عام انتخابات ہوں گے۔ ملک اپنی بقا اور استحکام کے فیصلہ کن مر حلے میں داخل ہو چکا۔ آج لو گوں کے مذہبی اور سیاسی جذبات کو برانگیختہ کر نے سے صرف فساد برپا ہو سکتا ہے۔ مذہب کے نام پر یہ کام آسان ہو تا ہے۔ اس سے دین کی کوئی خدمت ہوتی ہے نہ قوم کی۔ اس لیے میں تواتر کے ساتھ یہ عرض کر تا ہوں کہ دنیا اور اہلِ مذہب کی جدائی اس وقت ناگزیر ہے۔ یہ شریعت کا نہیں، علمِ سیاسیات اور سماجی علوم کا مسئلہ ہے۔ اسی طرح سیکولرازم کے روایتی مفہوم سے بھی اس تصور کا کوئی تعلق نہیں۔ قوم کو آج جس بیانیے کی ضرورت ہے، لازم ہے کہ اس معاملے کو بھی اس میں موضوع بنایا جائے۔ مذہب کے نام پر لوگوں کے پیسے اور رائے پر ڈاکہ ڈالنے کا یہ کاروبار اب بند ہو نا چاہیے۔
مذہبی سیاست کے ایک طالب علم کے طور پر، مجھے اپنی بات پر شرحِ صدر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ طاہر القادری صاحب تشریف لائے ہیں تو دل بے اختیار پکار اٹھا: اللہ خیر کرے! قادری صاحب کو اس کالم میں ایک فرد نہیں، مذہبی استحصال کا ایک استعارہ سمجھیے۔ اس صف میں وہ تنہا نہیں۔ یہ الگ بات کہ آج وہ اس کا مصداقِ اوّل ہیں۔