اسلام یتیموں کے بارے میں غیر معمولی طور پر حساس ہے۔ میں سوچتا رہا ، ایسا کیوں ہے؟
عالم کے پروردگار نے اپنے آخری رسول حضرت محمدﷺ کو بہت محبت سے مخاطب کیا: کیا اُس نے تم کو یتیم نہیں پایا اور پھرٹھکانا فراہم کیا؟ (الضحیٰ 6:93)۔ پھر فرمایا :'' لہٰذا یتیم پر سختی نہ کرو۔‘‘یہ وہ پیغام ہے جو آپ کے توسط سے اس امت کو دیا گیا۔ تو کیا اسلام کی اس حساسیت کا سبب یہ ہے کہ اس کے رسول نے دنیا میں ظہور کیا تو اس کے سر پریتیمی کا تاج تھا؟ اپنے رسول کوتو پروردگار نے خود ٹھکانا فراہم کیا، لیکن اسے امت کی ذمہ داری قراردیا کہ یتیم پر کوئی سختی نہیں کی جائے گی۔
بات اتنی نہیں۔ یتیموں کے لیے اسلام نے ایک ایسے رواج کو قبول کیا، جس کو وہ مثالی نہیں سمجھتا۔ قرآن مجید نے بتایا کہ اﷲ تعالیٰ نے انسان کو نفس واحدہ سے پیدا کیا اور پھر اس سے انسان کا جوڑا بنایا۔ ایک آدم کے لیے ایک حوا۔ اس کے باوصف جب یتیموں کا مسئلہ آیا تو اس نے اعلان کیا کہ تم چاہو تو عرب کے اس رواج سے فائدہ اٹھا سکتے ہو جو تعدد ازواج کو روا رکھتا ہے۔ ارشاد ہوا: یتیموں کا مال ان کو واپس کر دو،اچھے مال کو برے مال سے نہ بدل لو اور ان کے مال اپنے مال کے ساتھ ملا کر نہ کھاؤ۔یہ بہت بڑا گناہ ہے۔اور اگر تم کو اندیشہ ہو کہ یتیموں کے ساتھ انصاف نہ کر سکو گے تو جو عورتیں تم کو پسند آئیں ان میں سے دو دو ، تین تین ، چار چار سے نکاح کر لو۔ لیکن اگر تمہیں اندیشہ ہو کہ ان کے ساتھ عدل نہ کر سکو گے تو بہتر ہے ایک ہی بیوی کرو ( النساء 3:4 )
سیاق و سباق بالکل واضح ہے۔ اﷲ تعالیٰ تعدد ازواج کا حکم نہیں دے رہا، موجود رواج سے فائدہ اٹھانے کی اجازت دے رہا ہے اور وہ اس لیے کہ یتیموں کی داد رسی مطلوب ہے۔ اس کلام میں یہ مفہوم خود بخود موجود ہے کہ یہ اجازت دائمی ہے اور اس کا دائرہ دیگر سماجی ضروریات تک بڑھایا جا سکتا ہے۔تاہم عالم کے پروردگار نے اس کو واضح کرنا ضروری سمجھا کہ عدل ایسی قدر ہے جسے کسی صورت مجروح نہیں کیا جاسکتا۔اس کو بہر حال ترجیح دی جائے گی۔دوسری شادی کے لیے جہاں جواز لازم ہے وہاں یہ بھی ضروری ہے کہ پہلی بیوی کی حق تلفی نہ ہو۔
اسلام نے اس معاملے کو دنیا تک محدود نہیں رکھا۔ جو یتیموں کو دھکے دیتا ہے، اس کا اخروی انجام بھی واضح کیا ہے۔ ارشاد ہوا: تم نے دیکھا اس شخص کو جو آخرت کی جزا و سزا کو جھٹلاتا ہے؟ وہی تو ہے جو یتیم کو دھکے دیتا ہے اور مسکینوں کو کھانا دینے پر نہیں اکساتا۔ ( الماعون 2,1:107) گویا یتیم کو دھکے دینا ، روز آخرت کا انکار ہے۔ ہم جان سکتے ہیں کہ جو آخرت کا انکار کرنے والا ہو، اس کا کیا انجام ہو گا۔آخرت کا انکار زبانِ قال ہی سے نہیں ہوتا، زبانِ حال سے بھی ہو تا ہے۔
اﷲ کے آخری رسول حضرت محمدﷺ نے اس باب میں جو کچھ فرمایا، وہ انہی آیات کا بیان ہے۔ پھر آپ خود جس طرح یتیموں کے لیے سایۂ شفقت بنے، وہ ایک الگ داستان ہے۔ ایسی داستان جو تاقیامت بتاتی رہے گی کہ اﷲ کے آخری رسولﷺ انسانی اخلاق اور یتیموں کے حقوق کے بارے میں کتنے حساس تھے۔ وہ حساسیت آپ کی ذات میں مجسم ہو گئی جو اسلامی تعلیمات کا ایک قابلِ قدر باب ہے۔ اس میں شبہ نہیں کہ دیگر مذاہب بالخصوص ابراہیمی ادیان میںبھی یہ تصور موجود ہے اور ہونا ہی چاہیے کہ ان کا ماخذ وہی ہے جو اسلام کا ہے۔ تاہم اﷲ کے آخری رسولﷺ نے جس طرح اس تصورکو حقیقت میں بدلا، اس کی کوئی مثال انسانی تاریخ میں موجود نہیں۔
ایک مسلمان معاشرہ،اگر یتیموں کے بارے میں حساس نہیں ہے تو یہ بات اس کے لیے باعث تشویش ہونی چاہیے ۔ مجھے خوشی ہے کہ پاکستانی سماج میں اس کا شعور پایا جاتا ہے۔ لوگ یتیموں
کے حقوق کے لیے آواز اٹھاتے ہیں اور ان کے لیے ایسے منصوبے بھی بنائے جاتے ہیں جن کے تحت ان کی عزت نفس کو مجروح کیے بغیر ، انہیں اپنے پاؤں پر کھڑا کیا جاتا ہے۔ الخدمت فاؤنڈیشن ایسا ہی ایک ادارہ ہے۔ اس کے صدر محمد عبدالشکور صاحب نے بتایا کہ اس طرح کے اداروں نے مل کر '' پاکستان آرفن کیئر فورم‘‘ بنایا ہے۔ مقصود یہ ہے کہ یتیموں کے لیے مشترکہ جد و جہد کی جائے۔ یہ مسابقت کا نہیں، تعاون کا میدان ہے۔ مقابلہ کاروبار میں ہوتا ہے‘ نیکی کے کاموں میں تو تعاون ہوتا ہے۔ اسی فورم کے تحت ،آج15رمضان کو، جب یہ سطور لکھی جا رہی ہیں،یوم الیتامیٰ منایا جا رہا ہے۔
دن منانے کی روایت،ہمارے ہاں مغرب سے آئی ہے۔ مغرب سے آنے والی ہر شے نہ تو اس کی سزاوار ہے کہ بلا سوچے سمجھے قبول کر لی جائے اور نہ اس کی مستحق ہے کہ کسی تعصب کے تحت رد کر دی جائے۔ دن منانا ایک اچھی روایت ہے۔ یہ یادد ہانی ہے ان باتوں کی جنہیں ہم روز مرہ کاموں میں بھول جاتے ہیں۔لازم نہیں کہ وہ وہی دن منائیں جو مغرب میں منائے جاتے ہیں۔ہم اس رواج کو اپنی تہذیبی روایت سے ہم آہنگ بنا سکتے ہیں۔ یتیموں کا دن منانے کا فیصلہ او آئی سی نے 2013ء میں کیا۔ اب یہ سارے عالم اسلام میں منایا جاتا
ہے۔ اس سال بھی اس کا اہتمام کیا گیا ہے اور اس معاملے میں شعوری بیداری کے لیے تقریبات کا انعقاد کیا جا رہا ہے۔
اس یاد دہانی کے لیے شاید رمضان سے بہتر کوئی مہینہ نہیں ہو سکتا۔ یہ انفاق فی سبیل اﷲ کا مہینہ ہے۔ رسالت مآبﷺ کے معمولات پرایک نظر ڈالی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ماہ رمضان میں آپ دو باتوں میں مبالغہ فرماتے تھے۔قیام اللیل اور انفاق۔ تہجد آپ پر فرض تھی اور آپ سارا سال اس کا اہتمام فرماتے تھے۔ رمضان میں مگر آپ کی نماز تہجد چیزے دیگر تھی۔ ایک بار نماز کا آغاز کیا تو سورہ بقرہ تلاوت فرمائی، پھر آل عمران پھر النساء۔ یہاں تک کہ دو رکعتوں میں فجر کا وقت ہو گیا۔ سیدنا بلالؓ آئے اور متوجہ کیا : یارسول اﷲ فجر ہو گئی ہے۔ سخاوت کا معاملہ یہ تھا کہ سیدہ عائشہؓ کے الفاظ میں، ایک دریا تھا جو امڈا چلا آتا تھا۔ رمضان کے فائدے اٹھانے کے لیے یقیناً آپ سے بہتر کوئی مثال نہیں ہو سکتی۔ انفاق فی سبیل اﷲ کا دائرہ بہت وسیع ہے۔ فلاح انسانیت کا ہر کام اس میں شامل ہے۔ یتیموں کی کفالت مگر بدرجہ اتم ان کاموں کا حصہ ہونی چاہیے۔ الخدمت فاؤنڈیشن اور دوسرے اداروں نے ہمیں یاد دلایا تو ہم ان کے شکر گزار ہیں۔ ہمیں اس کار خیر میں حصہ دار بننا چاہیے۔ جس ادارے کا کام ہمارے نزدیک اطمینان بخش ہے اور جہاں ہم سمجھتے ہیں کہ یہ خدمت بہتر طور پر کی جارہی ہے ، ہمیں اس ادارے کا معاون بننا چاہیے۔ پروردگار عالم کی رضا ہمارے دروازے پہ دستک دے رہی ہے۔ آئیے! ہم اپنے دروازے اس کے لیے وا کر دیں۔