سیاسی خانہ بدوش پیپلزپارٹی کے بے آب وگیاہ صحرا سے کوچ کر رہے ہیں۔انہوں نے ایک سر سبز و شاداب وادی تلاش کر لی ہے جہاںزندگی کا سامان میسر ہے۔اس وادی کا نام تحریکِ انصاف ہے۔ کیا اسے سیاسی تبدیلی کہتے ہیں؟
تحریک انصاف ہر پیمانے سے، آج ایک روایتی سیاسی جماعت ہے۔روایتی لیڈر، روایتی تنظیم اور روایتی سیاست۔ شواہد ان گنت ہیں جن سے انکار محال ہے، الا یہ کہ کوئی چاروں طرف پھیلی دھوپ کو شب کی تاریکی قرار دینے پر اصرار کرے۔ تازہ ترین مظہر یہی نقل ِ مکانی ہے۔معاملہ بہت سادہ ہے۔پنجاب میں دھڑے کی سیاست ہوتی ہے۔کم وبیش ہر حلقہ انتخاب میںایک مضبوط دھڑان لیگ سے وابستہ ہے۔ دوسرافریق ن لیگ میں آنے سے تو رہا۔اب وہ کہاں جائے؟ روایتی طور پر وہ پیپلزپارٹی سے وابستہ ہے۔اس جماعت کی قیادت خود کشی کا فیصلہ کر چکی۔سیاسی امکانات تیزی سے برباد ہو رہے ہیں۔ سیاسی زندگی کے آرزو مند کے پاس اس کے سوا کوئی راستہ نہیں کہ وہ کوئی متبادل تلاش کرے۔ایسے خواتین و حضرات کوسیاسی پناہ دینے کا قومی فریضہ، اس وقت تحریکِ انصاف ہی سرانجام دے رہی ہے۔جعلی ڈگری اورمشکوک سیاسی پس منظر رکھنے والوں کی وہ محفوظ پناہ گاہ ہے۔یہی نہیں،یہاں کے سیاسی پادری انہیں بپتسمہ دیتے اور پھر وہ صاف ستھرے ہو جاتے ہیں۔اب وہ نجات کا پروانہ لے کرمحشرِ سیاست میں اتر سکتے ہیں۔
عمران خان کا فرمان ہے:'' مفاد پرست سیاست دانوں کے لیے زمین تنگ ہوگئی ہے‘‘۔نہیں جناب!آپ نے توان کے لیے زمین وسیع کر دی ہے۔شاہ محمود قریشی نے ارشاد فرمایا: ''تحریک انصاف کے نمایاں ہونے سے نظریاتی سیاست کا احیا ہوا ہے۔‘‘ شاہ صاحب اور نظریاتی سیاست؟آ دمی ہنسے کہ روئے؟روایتی سیاست کیا ہے؟مفہوم سے عاری سیاسی جملے اور حقائق سے متصادم دعوے۔
عمرا ن خان نے جس بے دردی کے ساتھ اپنی اخلاقی ساکھ کوبرباد کیا ہے، وہ عصری سیاست کا سب سے الم ناک باب ہے۔لاہور کے اجتماع سے جہاں اس کے سیاسی عروج کا آغاز ہوا ،وہیںاس کا اخلاقی زوال بھی شروع ہو گیا۔مفاد پرستوں نے ہجوم در ہجوم اس طرف کا رخ کیا اورتحریکِ انصاف نے بھی دیدہ و دل ان کے راستے میں بچھا دیے۔دھرنا اس اخلاقی زوال کا نقطہ عروج تھا۔اس کے بعد انہوں نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔یہ مقدمہ اتنا واضح ہے کہ اس کا انکار نہیں ہو سکتا۔عمران خان لیکن ایک رومانس ہے۔اس لیے لوگ جواز ڈھونڈتے ہیں۔آج ایک واہمہ (myth) ان کاآخری سہارا ہے:''یہ صحیح ہے کہ تحریکِ انصاف اب عام جماعتوں جیسی ہے،برے لوگوں نے اسے گھیر لیا ہے مگر عمران خود تو بہت دیانت دار ہے۔‘‘یہ دیانت کس چیز کا نام ہے؟اگر یہ کسی کی ذات کاحصہ ہے تواس کے سیاسی اقدامات میں اس کا ظہور کیوں نہیں ہو تا؟عمران اگر جھوٹ نہیں بو لتے تویہ 35 پنکچرزکا قصہ کیا ہے؟عمران خان نے ایک انٹر ویو میں اپنے دعوے کی سند بتا دی۔ایک سنی سنائی بات، جس کی اس نے ہر طرف تشہیر کی۔جھوٹ کیا ہوتا ہے؟اللہ کے آخری رسول ﷺ نے اس کی تعریف فرمائی ہے۔آپ چاہیں تو کسی عالم سے پوچھ لیں۔میں جانتا ہوں کہ سیاست ہی نہیں، صحافتِ دوراں کا چلن بھی یہی ہے۔میرا کہنا یہی ہے کہ آپ بھی اسی کا حصہ ہیں۔ایک سیاست دان کی شخصی دیانت محض ایک واہمہ ہے، اگر اس کا ظہور اس کی سیاست میں نہیں ہو تا۔یہ کیسی شخصی دیانت ہے جو اپنے پروں تلے جعلی ڈگریوں کو تحفظ دیتی اورمذہبی بہروپیوں کی تحسین کر تی ہے؟
اب پیپلزپارٹی سے مایوس لوگ تحریکِ انصاف کا رخ کر رہے ہیں۔ان میں اکثرزرداری صاحب اور گیلانی صاحب کے وزیر تھے۔ان کے اعمال میں پوری طرح شریک ۔کسی ایک نے یہ نہیں کہا کہ اس دور میں جو ہوا غلط تھا۔کسی نے کوئی شہادت فراہم نہیں کی کہ فلاں موقع پر انہوں نے صدائے احتجاج بلند کی تھی۔اگر لوگوں کی یادداشت کمزور نہیں تو ان حضرات کی باتیں ان کو یاد ہوں گی جو انہوں نے گزشتہ حکومت کے دفاع میں کیں اور ذرائع ابلاغ نے ان کی تشہیر کی۔کوئی اظہارِ ندامت ہے نہ اپنی کمزوری کا اعتراف۔واضح ہے کہ مستقبل کے امکانات انہیں یہاں لے آئے ہیں۔کیا اسے نظریاتی سیاست کا احیا کہتے ہیں؟کیا یہی وہ تبدیلی ہے جس کا خواب دکھایا گیا تھا؟
رومان کا عہد تو تمام ہوا۔اب سیاست کی شاہراہ ہے اور عمران خان یکے از مسافران ِ سیاست۔میرا احساس تو یہ ہے کہ ا نہیں ابھی سیاست دان بننا ہے۔تادم ِتحریر تو وہ ایک احتجاج پسند 'راہنما‘ ہیں۔تازہ ترین ارشاد ہے:' مرکز پختون خوا کی بجلی کھا جا تا ہے۔اگر حق نہ ملا تو پرویز خٹک کو اسلام آباد میں دھرنے کے لیے کہوں گا‘۔ یہ مرکز کس چڑیا کا نام ہے؟کے پی کے کس کا صوبہ ہے؟کیا وزارتِ عظمیٰ کا طلب گارایک سیاست دان اس اسلوب میں کلام کر تا ہے؟یہ تو اسفند یار ولی سے مستعار لہجہ ہے جو جانتے ہیں کہ انہیں تادمِ مرگ ایک صوبے کی سیاست کر نی ہے۔قومی راہنما تو کبھی اس انداز میں کلام نہیں کرتے۔
عدالتِ عظمیٰ کا فیصلہ آ نے والا ہے۔وہ سیاست کے ایک نئے عہد کا نقطہ ء آغازبھی ہوسکتا ہے۔سر ِ دست تو ہم قیاس آرائی ہی کرسکتے ہیں۔میرا قیاس ہے کہ شاید اس سے کوئی جوہری فرق نہ آئے۔ فیصلہ ایسا ہو سکتا ہے جسے دونوں فریق اپنی اپنی فتح قرار دیں۔ایک فریق بے ضابطگی اور نا اہلی کو دھاندلی کا مترادف کہے گااور دوسرا اصرار کرے گا کہ دونوں میں فرق ہے۔سوال یہ ہے کہ اگر عدالت نے یہ کہہ دیا کہ منظم دھاندلی کا الزام ثابت نہیں ہو سکا تو تحریکِ انصاف کی سیاست کیا ہوگی؟میرا جواب ہے: وہی پرانی۔روایتی سیاست حیلے تراشتی ہے اور حامی اسے دلیل کا متبادل سمجھ لیتے ہیں۔سادہ لفظوں میں یہ چمن
یوں ہی آ باد رہے گا۔اب مقابلہ حیلوں کا ہوگا ، دلیل یا استدلال کا نہیں۔دلیل وہاں کارگر ہوتی ہے جہاں اخلاقیات کا غلبہ ہوتا ہے۔یہ میں کہہ چکا کہ اخلاقی برتری کسی کے پیش ِ نظر ہے نہ اب کسی کو حاصل ہے۔عمران تو اس کو خیرباد کہہ چکے۔
ایک دوسری جماعت مگرسیاست کی ناگزیر ضرورت ہے۔ ایک مضبوط حزبِ اختلاف سیاسی ارتقا کے لیے لازم ہے۔ پیپلزپارٹی اپنی عظمتِ رفتہ کو آواز دے سکتی ہے اگر بلاول بروئے کار آئیں اور ان کے والدِ گرامی نوشتہ دیوار پڑھنے کی صلاحیت کا مظاہرہ کریں۔یہ جماعت سماج کے جس طبقے کو مخاطب بناتی ہے،،ہنوز اسے کسی لیڈر اور فورم کی ضرورت ہے۔پراناو ژن اور نئی قیادت۔یہ پیپلزپارٹی کی ناگزیر ضرورت ہے۔ میرے نزدیک ابھی پیپلزپارٹی کے لیے امکانات پوری طرح ختم نہیں ہوئے،اگر کوئی انہیں تلاش کرسکے۔ یہ نہ ہو سکا تو تحریکِ انصاف ہی اس خلاکو پرُ کرے گی۔
تجزیہ نگارمتفق ہیں کہ گزشتہ انتخابات میں،تحریکِ انصاف نے سب سے زیادہ نقصان پیپلزپارٹی کو پہنچایا۔تازہ ترین نقل مکانی کے بعد، کم از کم پنجاب کی سطح پرتحریکِ انصاف،پیپلزپارٹی کا نیا نام ہے۔ن لیگ کا ووٹرآج بھی برقرار ہے ۔روایتی سیاست کے مطابق، دوسرے دھڑے کو ایک سر سبزوادی کی ضروت تھی، جہاں چارہ اور پانی وافر ہو۔اس سے روایتی سیاست دانوں کو نئی زندگی مل جائے گی مگر عوام کو کیا ملے گا؟میراخیال ہے کہ ا س سوال کا جواب عوام کو خود تلاش کر نا چاہیے۔اگر عوام ایسے سوالات پر غور کر نے لگیںتوشاید تبدیلی آ جائے۔ا ب تک جو تبدیلی آئی، وہ تو ہم نے دیکھ لی۔پرانی شراب نئی بوتل۔