تیز دھوپ کی حدت میں پگھلتی مخلوقِ خدا سوئے آ سمان دیکھ رہی تھی۔اسے کیا خبر تھی کہ اس باربرسنے والی بارش کی بوندوں میں زندگی نہیں، موت چھپی بیٹھی ہے۔اس کے پاس راولپنڈی شہرکے چودہ افراد کا پروانۂ موت تھا اورہزاروں لوگوں کے لیے دربدری کا حکم نامہ۔ میٹرو کے سٹیشنز تو پانی میں ڈوبے ہی، اس کے تعمیری نقائص بھی طشت از بام کر گئے۔توکیا ترقی کا شریف ماڈل ناکام ہو گیا؟
میں لکھ چکا کہ بڑے انفراسٹرکچرکی بنیاد پر کھڑے ترقیاتی ماڈل کی کامیابی گڈ گورننس سے مشروط ہے۔یہ شرط پوری نہیں کی گئی۔مزید ستم شہباز شریف صاحب کی عجلت پسندی نے ڈھایا۔میٹرو کی جلد تکمیل کے لیے دن رات ایک ہوئے تو ٹھیکیداروں نے حسبِ روایت،رنگ روغن لگا کر داد وصول کرلی۔اندر کیا تھا، اس کی خبر بارش نے دی۔دیدہ زیب اینٹوں کے نیچے سے زمین سرک گئی۔تصاویر اخبارات میں شائع ہوئیں کہ اینٹیں زمین میں دھنس رہی ہیں۔پانی نے زیر زمین سٹیشنز میں راہ بنا لی۔نئی تعمیر شدہ مری روڈ پر میں نے دیکھا کہ پانی کھڑا ہے۔نکاسی آب کا کوئی اہتمام نہیں۔یہ شاندار سڑک،کہاں تک پانی کی طاقت کا مقابلہ کرے گی؟ایک دوماہ بعد کھنڈرات میں بدل جا ئے گی۔میں یہ سطور لکھنے بیٹھا ہوں تو راولپنڈی میںبارش جاری ہے۔اس عجلت کا ایک کرشمہ یہ بھی ہے کہ میٹرورواں دواں ہے لیکن سابق مری روڈ کو بحال ہو نے میں نہیں معلوم کتنا وقت لگے۔یہ خرابی میٹرو کی نہیں، گورننس کی ہے۔یوں یہ ناگزیر شرط پوری نہ ہو نے سے ایک شاندار اور مفید منصوبہ تنقید کی زد میں ہے۔
مزید دیکھیے۔ایک عام آ دمی بھی یہ ادراک رکھتا ہے کہ یہ بارشوں کا موسم ہے۔اس میں ترقیاتی کام عمومی گرم جوشی کے ساتھ جاری نہیں رہ سکتا۔یہ جانتے ہوئے بھی وزیراعظم صاحب نے حکم دیا اور اسلام آباد میںزیرو پوائنٹ سے فیض آباد تک کھدائی کاکام شروع ہو گیا۔پہلی بات تو یہ کہ یہاں ایک بائی پاس کی تعمیر سے ٹریفک کا مسئلہ حل ہو سکتا تھا۔البتہ فیض آباد سے روات تک توسیع ضروری ہے۔پھر یہ کہ اگر توسیع کرنی ہی تھی تو جولائی کی بارشوں کا انتظار کر لیا جاتا۔ گمان ہے کہ اس گورننس کے ساتھ سڑکوں کی تعمیر کا یہ جنون شریف خاندان کی چھیڑ بن جائے گا جیسے 'روشن خیالی‘ پرویز مشرف صاحب کی چھیڑ بن گئی تھی۔اس جنون میں کوئی کمی نہیں آ رہی۔ حمزہ شریف اب فرماتے ہیں کہ لاہور میں میٹرو ٹرین بنے گی تو لوگ میٹرو کو بھول جائیں گے۔گویا ان منصوبوں پر تنقید کا نتیجہ اس روش پر مزید اصرار ہے ؎
بڑھتا ہے ذوقِ جرم یہاں ہر سزا کے بعد
شہباز شریف صاحب کا اسلوب ِ حکومت تو اب عجلت اور تاخیر کاحسین امتزاج بنتا جا رہا ہے۔عجلت کا میں ذکر کر چکا۔ دوسری طرف اگر پسِ واقعہ نوٹس لینے کے واقعات جمع کیے جائیں تو ان کا مقابلہ ممکن نہ ہو۔راولپنڈی میں بارش سے لوگ مر گئے۔ انہوں نے نوٹس لے لیا۔اس سے پہلے پولیس نے فیصل آباد اور راولپنڈی میں نوجوان مار دیے، انہوں نے نوٹس لے لیا۔ ہر روز اخبارات میں اس مضمون کی خبریں شائع ہوتی ہیں۔ میں ہمیشہ سوچتا ہوں کہ پسِ مرگ واویلے سے مرنے والے کو کیا فائدہ؟ ایسے نوٹس در اصل گورننس کی ناکامی کی دلیل ہیں۔اگر وزیر اعلیٰ یا وزیراعظم کو ہر روز نوٹس لینے کی ضرورت پڑے تو اس کا مفہوم اس کے سوا کچھ نہیں کہ نظام کا م نہیں کر رہا۔کیا کبھی آپ نے پڑھا کہ صدر اوبامہ نے فلاں واقعے کا نوٹس لے لیا؟وزیراعظم مودی نے نوٹس لے لیا؟شاذو نادر۔
مزید دیکھیے۔ہر روز اخبارات کی خبروں اور کالموں میںکرپشن اور نااہلی کے واقعات شائع ہورہے ہیں۔اس پر حکومت کا کوئی قابلِ ذکر ردِ عمل سامنے نہیں آتا۔اب دو ہی صورتیں ہیں۔بیان کردہ واقعات غلط ہیں یادرست ۔اگر غلط ہیں تو ان کی دلیل کے ساتھ تردید ہونی چاہیے۔ اگر درست ہیں تو بتایا جائے کہ اصلاح کے لیے حکومت نے فلاں قدم اٹھا یا ہے۔ ایک دور میں وزارتِ اطلاعات یہ کام کر تی تھی۔آج کا مجھے علم نہیں کیونکہ اس کی کوئی شہادت کبھی سامنے نہیں آئی۔ میرا خیال ہے کہ اس کام کے لیے وزارتِ اطلاعات یا وزیر اعظم کے شکایاتی سیل میں صرف ایک آ دمی چاہیے۔وہ اخبارات میں چھپنے والے ایسے مبینہ واقعات کی فہرست بنائے اور متعلقہ شعبوں کو بھیج
دے۔ان شعبوں کو پابند کیا جائے کہ وہ دو دن میںصورتِ حال واضح کریں۔اتنا سادہ قدم اگر نہیں اٹھا یا جا رہا تو یہ گورننس کی ناکامی ہے۔خیبر پختون خوا کے ایک وزیر کی کرپشن کا واقعہ سامنے آیا۔عمران خان نے فوراً نوٹس لیا اور یوںاس پر خاموشی اختیار کی نہ چوہدری شجاعت صاحب کی آفاقی بصیرت کا سہارا لیتے ہوئے، مٹی ڈالنے کی کوشش کی۔عمران خان یقیناً اس کے لیے تحسین کے مستحق ہیں۔
گورننس کا ایک اور پہلو دیکھیے۔بڑے شہر شیطان کی آنت کی طرح پھیل رہے ہیں۔زرعی زمین بے دردی کے ساتھ تعمیراتی منصوبوں کے لیے استعمال کی جارہی ہے۔ابھی ایک سکینڈل سامنے آیا کہ کیسے زرعی تحقیقی ادارے کی زمین کو تعمیرات کے لیے ہتھیایا جارہا ہے۔ اس رجحان کی روک تھام کے لیے حکومت کے پاس کوئی منصوبہ نہیں بلکہ وہ اس میں شریک ہے۔یہ بھی سادہ سی بات ہے کہ روزگار کے مواقع اور بنیادی سہولتوں کو پوری زمین پر پھیلا دینا چاہیے۔میں جانتا ہوں کہ ایسا چند دن میں ممکن نہیں لیکن اس کا کوئی منصوبہ بھی تو ہو نا چاہیے۔پانچ سالہ ترقیاتی منصوبوں میں بھی اس کا ذکر نہیں ہو تا۔ اقتصادی راہ داری سے اس کے امکانات پیدا ہوئے ہیں۔اللہ کرے کہ اس کی کوئی صورت نکلے ورنہ چند سال بعد، زرعی زمین، ہماری غذائی ضروریات کے لیے نا کافی ہو جائے گی۔اسلام آباد میںزرعی فارمزاس لیے تھے کہ اس شہر کو پھل اور سبزیاں فراہم کریں گے۔اب
وہ بااثر لوگوں کے عشرت کدے ہیں اور کوئی ان سے سوال کرنے والا نہیں۔یہ اگرگورننس کی ناکامی نہیں تو کیا ہے۔
گورننس سے صرفِ نظر اور میگا پروجیکٹس پر اصرار ،میرا خیال ہے کہ آئندہ عام انتخابات میں ن لیگ کے خلاف مخالفین کا سب سے بڑا ہتھیار ہو گا۔گورننس کا سب سے اہم پہلو مو جود نظام کی اصلاح ہے۔ سوال اٹھنا چاہیے کہ راولپنڈی یا دوسرے شہروں میں بارشوں سے پہلے وہ نظام بروئے کار کیوں نہیں آتا جو حادثات کے سدِ باب کے لیے بنا ہے؟ سیلاب کی روک تھام کا نظام کتنا موثر ہے؟واپڈا کا پھیلا یا ہوا تاروں کا جال فرسودہ ہوچکا جو بجلی ضائع کر نے کا باعث ہے۔اس کو کیوں درست نہیں کیا جا رہا؟ ہسپتالوں کا نظام کیوں بہتر نہیں ہو رہا؟ موجود سڑکیں کیوں خراب ہیں؟ شہروں میں بننے والے نئے پلازوں کے ساتھ پارکنگ کیوں نہیں؟ سرکاری اداروں کی کارکردگی کیوں بہتر نہیں ہو رہی؟ چند دن پہلے، میرے گھر کافون خراب ہو ا۔ ٹھیک ہونے میں تین ہفتے لگے۔اب انٹرنیٹ خراب ہے اورپانچ دن گزر چکے۔ہر روز شکایت درج کراتا ہوں مگر کسی کے کان پر جوں نہیں رینگتی۔
اصل مسئلہ گورننس ہے۔ہر شاندار منصوبہ بے معنی ہے اگرگڈ گورننس نہیں۔ گورننس نہیں تو میٹرو جیسا شاندار منصوبہ اعتراضات کی زد میں اپنا حسن کھونے لگتا ہے۔جب بس سٹاپ کی زمین دھنس جائے گی، جب دوسرے مہینے ڈرائیور ہڑتالیں کریں گے تو جگ ہنسائی ہو گی۔پھر میٹرو کی افادیت نہیں،کارکردگی زیرِ بحث آئے گی۔کارکردگی ہی کا دوسرا نام گورننس ہے۔توکیا ترقی کا شریف ماڈل ناکام ہو رہا ہے؟آج شریف خاندان کے سامنے سب سے اہم سوال یہی ہے۔