گمانِ غالب یہی ہے کہ آپ یکم شوال کو یہ سطور پڑھیں گے۔ آپ کو عید مبارک۔
عید ایک تہوار ہے جس کو رمضان سے نسبت ہے۔ یہ اس بات پر اظہارِ مسرت ہے کہ خدا نے ہمیں اپنے مہمان کے احترام کی توفیق بخشی۔ یوں عید اصلاً انہی کی ہے جنہوں نے ایمان اور احتساب کے ساتھ اس ماہِ مبارک کے روزے رکھے؛ تاہم چونکہ یہ ایک تہوار ہے اس لیے اسے 'منایا‘ جاتا ہے اور یوں عید مسلم کلچر کی نمائندہ ہے۔ بخاری کی روایت ہے کہ عید کے دن جب چند گانے والیاں سیدہ عائشہؓ کے ہاں گا بجا رہی تھیں تو سیدنا ابوبکر نے انہیں منع کیا۔ آپ نے فرمایا: ''ابوبکر! ہر قوم کی ایک عید ہوتی ہے اور یہ ہماری عید ہے‘‘۔ یوں جو روزہ نہیں بھی رکھتا وہ بھی تہوار میں ضرور شریک ہوتا ہے۔
ہمارے ہاں ہر عید متنازعہ ہوتی ہے اور اس کا سبب رویتِ ہلال کا مسئلہ ہے۔ اس بار بھی ایسا ہی ہوا۔ میں ابھی تک یہ نہیں جان سکا کہ چاند کی رویت کا علمِ دین سے کیا تعلق ہے؟ اس کے لیے علما پر مشتمل کونسل کیوں بنائی جائے؟ یہ ایک دنیاوی علم ہے اور اب وقت سے کہیں پہلے اس کا تعین ممکن ہو گیا ہے۔ پورا عالمِ اسلام اس سے استفادہ کر رہا ہے۔ میرا احساس ہے کہ مذہب کے باب میں ہمارے ہاں ایک فکری کجی ہے، جس کا ایک شاخسانہ یہ بھی ہے۔ 'اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے‘ کا ایک مفہوم ہم نے یہ جانا ہے کہ چاند چڑھانا بھی کوئی مذہبی وظیفہ ہے۔ اسی کو بنیاد بنا کر ہمارے اہلِ مذہب زندگی کے ہر شعبے میں اپنے لیے ایک کردار چاہتے ہیں۔ اہلِ سیاست و اقتدار بھی علما اور مذہبی طبقے کو ساتھ ملانے کے لیے مناصب تراشتے رہتے ہیں۔ کبھی اسلامی نظریاتی کونسل، کبھی رویت ہلال کمیٹی۔ ہمارا تجربہ یہی ہے کہ جس معاملے کو متنازعہ بنانا ہو، اس کو اہلِ مذہب کے حوالے کر دو۔ انہیں بھی اب اپنی اہمیت کا احساس ہو گیا ہے۔ انہیں اگر کسی معاملے سے دور کیا جائے تو وہ اسے حرمتِ دین کا مسئلہ بنا دیتے ہیں۔ دلیل وہی ہے کہ 'اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے‘۔
اسلام بلاشبہ زندگی کے ہر معاملے میں ہمیں راہنمائی دیتا ہے۔ یہ راہنمائی لیکن اصولی اور اخلاقی ہے۔ اس کے ساتھ وہ زندگی کے بہت سے معاملے عقلِ کے سپرد بھی کرتا ہے‘ جن میں ایک تخلیقِ کائنات بھی ہے۔ انسانی تہذیب پر اسلام کا ایک احسان یہ ہے کہ اس نے ان مظاہرِ فطرت کو انسانی جستجو کا میدان بنا دیا، لوگ جن کی پوجا کرتے تھے۔ یوں اسلام نے سورج اور چاند کو الوہیت کے منصب سے معزول کرتے ہوئے، انہیں تحقیق کا موضوع قرار دیے دیا۔ اسی کے باعث یہ ممکن ہوا کہ آج ہم کئی سال پہلے بتا سکتے ہیں کہ سورج کو گرہن کب لگے گا‘ سو سال بعد چاند کب طلوع ہو گا۔ کیسی ستم ظریفی ہے کہ جس مذہب نے تسخیرِ کائنات کے یہ باب کھولے، اسی کو ماننے والے ابھی یہ طے نہیں کر سکتے کہ ایک دن کے بعد چاند نکلے گا یا نہیں۔
لوگ اب اس میں وحدتِ امت بھی تلاش کرنے لگے ہیں۔ میں نہیں جان سکا کہ جب نمازیں مختلف اوقات میں ہو سکتی ہیں۔ روزے کا آغاز اور اختتام مختلف اوقات میں ہو سکتا ہے تو عید مختلف اوقات میں کیوں نہیں منائی جا سکتی؟ اگر مختلف اوقات میں نمازیں پڑھنے سے اس امت کی وحدت مجروح نہیں ہوتی تو عیدوں کے اختلاف سے یہ وحدت کیسے متاثر ہو گی؟ سائنس اب متعین طور پر بتا سکتی ہے کہ کن علاقوں میں ایک وقت میں چاند دکھائی دے گا اور کہاں دوسرے وقت میں۔ ایک سے زیادہ نظم ہائیِ اجتماعی کی موجودگی میں بھی یہ ممکن ہے کہ دو ممالک جو قرب میں ہیں، ایک ساتھ عید منائیں؛ تاہم یہ ممکن نہیں ہو گا کہ سعودی عرب کے ساتھ سارا عالم اسلام عید منائے۔ میری رائے تو یہی ہے کہ اس معاملے کو مذہبی علوم کے بجائے ان علوم سے سمجھا جائے جو اسی کے لیے خاص ہیں۔ کم از کم اس معاملے میں تو اختلاف کا باب، انشا اللہ بند ہو جا ئے گا۔
ٹی وی چینلز کی رمضان نشریات بھی ان دنوں بہت زیرِ بحث رہیں۔ جس طرح عید کے معاملے کو ہم نے عبادت اور روحانی تجربے سے اٹھا کر اختلاف کا مو ضوع بنا دیا، اسی طرح ان چینلز نے سارا مہینہ مذہب کو جنسِ بازار اور پرفارمنگ آرٹس کا ایک شعبہ بنائے رکھا۔ ان پروگراموں سے یہ معلوم ہوا کہ رمضان تو دراصل طرح طرح کے کھانوں اور تفریح کا ایک مہینہ ہے۔ علما خود کو ان تماشوں سے دور رکھ کر ایک خاموش احتجاج کر سکتے تھے مگر افسوس کہ ایسا نہ ہوا۔ انہیں ٹی وی پہ ضرور آنا چاہیے لیکن اپنی شرائط پر۔ وہ ٹی وی چینلز سے یہ مطالبہ تو کر سکتے تھے کہ ان کے پروگرام میں ندرت تو ہو گی لیکن دین اور رمضان کی سنجیدگی مجروح نہیں ہو گی۔ دنیا ٹی وی کے میرے دوست انیق احمد تحسین کے مستحق ہیں کہ انہوں نے کھیل تماشوں کے اس بحرِ بے کراں میں ایک جزیرہ آباد کیے رکھا اور دین کی حرمت کو مجروح نہیں ہونے دیا۔
اس رمضان میں ایک اچھا مظاہرہ ایوانِ صدر نے بھی کیا۔ مکان مکیں کے ذوق کا آئینہ دار ہوتا ہے۔ مکان سے آنے والی خبریں بتاتی ہیں کہ یہاں رہنے والے کا مزاج اور رجحان کیا ہے۔ صدر ممنون حسین ایک مذہبی آدمی ہیں۔ یوں ان کی موجودگی میں ایوانِ صدر کا تعارف وہ نہیں‘ جو آصف زرداری صاحب کے دور میں تھا۔ انہوں نے ستائیسویں شب ایک مجلسِ دعا کا اہتمام کیا۔ محترم امین الحسنات صاحب کو جب دعا کے لیے کہا گیا تو تصورِ دعا پر مختصر اور جامع کلام کے بعد انہوں نے توجہ دلائی کہ حکمران اگر نیک اور خلقِ خدا کا درد رکھنے والے ہوں تو ان کی دعائیں قبولیت کی کہیں زیادہ صلاحیت رکھتی ہیں۔ اس لیے ایوان صدر میں یہ استحقاق صدرِ پاکستان کا ہے کہ وہ دعا کرائیں۔ یوں صدر صاحب نے ایوانِ صدر میں رسمِ دعا کا آغاز کیا۔ ان کے سیکرٹری احمد فاروق، برادرم فاروق عادل اور دوسرے لوگوں نے اس تقریب کو منصبی فریضہ نہیں، ایک نیکی اور روحانی تجربہ سمجھا۔ شاید یہی وجہ تھی کہ زندگی کے ہر شعبے کے
نمایاں لوگ اس دعا میں شریک ہوئے۔ سچ یہ ہے کہ لوگ حکمرانوں سے دعا سے زیادہ دوا کی توقع رکھتے ہیں۔ ان کا اصل فریضہ بھی یہی ہے۔ لیکن حکمران اگر خوفِ عوام کے ساتھ خوف خدا بھی رکھتے ہوں تو یہ سونے پہ سہاگا ہے۔ پھر یقیناً اللہ کی نصرت بھی ان کے شاملِ حال ہو جاتی ہے۔
عیدِ فطر سے پہلے ہم پر لازم ہے کہ ہم فطرانہ ضرور ادا کریں۔ ہم نے اس تصور کو بھی فقہی بحثوں میں الجھا دیا ہے۔ سارا سال ہم یہی تعین کرتے رہتے ہیں کہ اس کی کم از کم مقدار کیا ہو۔ اس کی روح تو یہ ہے کہ روزے کے تقاضے نبھاتے وقت ہم سے اگر کوتاہی ہو گئی ہو تو اس کا کفارہ ادا کر دیا جائے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کی بہتری کے لیے ہر تلافی کو مخلوقِ خدا کی فلاح سے وابستہ کر دیا ہے۔ اس معاملے میں کم سے کم نہیں زیادہ سے زیادہ پر نظر رکنی چاہیے۔
عید کے اس موقع پر ہمیں پاک فوج اور سکیورٹی اداروں کے ان دوستوں کو ضرور یاد رکھنا چاہیے جنہوں نے گزشتہ سال کے دوران میں ہماری بقا کے لیے خود کو قربان کیا۔ ہمیں ان مہاجرین کو بھی نہیں بھولنا چاہیے‘ جنہیں ہنستے بستے گھروں سے نکلنا پڑا اور آج وہ کیمپوں میں عید گزارنے پر مجبور ہیں۔ ان کے کرب کا اندازہ کرنا مشکل نہیں اگر کسی کے سینے میں ایک دھڑکتا دل ہے۔
عید ایک تہوار ہے اور اسے منانا چاہیے؛ تاہم کوشش یہ ہونی چاہیے کہ منانے کا یہ انداز اس روحانیت کو ضائع نہ کرے جو ہم نے رمضان کے دنوں میں حاصل کی۔ اور ہاں اگر اللہ توفیق دے تو شوال کے چھ روزے ضرور رکھیں۔ اللہ کے رسولﷺ سے ایک روایت ہے کہ ان کا اجر ایک عمر کے روزوں کے برابر ہے۔