کیا مسلم دنیا نے حقیقت پسندی کی زمین پر قدم رکھ دیا ہے؟کیا خواب فروشی کی دکان اب بند ہوگی؟
انیسویں صدی مغرب میں'نظریے کی صدی‘ (Age of Ideology)کہلاتی ہے۔مغرب کا نظام ِفکر آج جن صاحبانِِ فکر و نظر کے مرہون ِ منت ہے، ان میں سے زیادہ ترکا تعلق اسی عہد سے تھا۔بیسویںصدی،یہ کہا جا سکتا ہے کہ مسلم دنیا کے لیے خوابوں کا دور(Age of Dreams) تھا۔ابتدائی عشرے آزادی کا خواب دیکھتے گزر گئے۔آ زادی ملی تو یہ سمجھاتے مدتیں بیت گئیں کہ
یہ داغ داغ اجالا، یہ شب گزیدہ سحر
وہ انتظار تھاجس کا، یہ وہ سحر تو نہیں
یوں خوابوں کے ایک نئے دور کا آ غاز ہوا۔سرخ انقلاب ، سبز انقلاب،بعض عنوانات ہیں جو نئے خوابوں کے لیے چنے گئے۔ایک گروہ نے باور کرا یا کہ پاکستان چونکہ اسلام کے لیے بنا تھا،اس لیے لازم ہے کہ اس کی قیادت ان کے پاس ہو جو اسلام کا علم رکھتے ہوں اور اس کے ساتھ اسلامی سیرت کا نمونہ بھی ہوں۔سادہ لفظوں میں صالحین کی ایک جماعت ہی مستحق ہے کہ زمامِ کار اس کے ہاتھ میں ہو۔اقتدار صالحین کا استحقاق قرار دیتے وقت واضح تھا کہ اشارہ کس جماعت کی طرف ہے۔سرخ انقلاب والوںکو اس بات ہی سے اتفاق نہیں تھا کہ یہ ملک اسلام کے لیے بنا تھا۔وہ اس کے اقتصادی محرکات بیان کرتے تھے اور پھریہ باور کراتے تھے کہ ان مسائل کا حل صرف اشتراکیت کے پاس ہے۔ لہذا زمامِ کار ان ہاتھوں میں دے دی جائے جو سوشلزم پر یقین رکھتے ہیں۔یہاں بھی اشارے میں کوئی ابہام نہیں تھا کہ اقتدار کا مستحق کون ہے۔
خواب دیکھنے کا یہ عمل عالمِ اسلام کے دوسرے خطوں میں بھی جاری تھا۔جہاں آمریت تھی یا بادشاہت، وہاں تو کوئی خواب پنپ نہیں سکا کہ جبر کی زمین خوابوں کے لیے ساز گار نہیں ہوتی۔جہاں صورتِ حال قدرے بہتر تھی وہاں خواب کی کونپلیں پھوٹنے لگیں‘ جیسے مصر۔مشرقِ وسطیٰ میں تو خیر کوئی خواب تعبیر آ شنا نہیں ہو سکا۔چند سال پہلے جب ہوا تو آمریت نے اس کی تعبیر چھین لی۔ایسا ہی ایک خواب ایران نے 1979ء میں دیکھا۔ پینتیس سال اس کو بکھرنے نہیں دیا۔1979ء ہی میں، افغانستان میں بھی ایک خواب دیکھا گیا، یا دکھایا گیا۔1996ء میں اس خواب نے ایک نئی صورت اختیار کی۔اب اکیسویں صدی میں آ کر لوگوں کو اندازہ ہوا کہ حقائق کی سرزمین ان خوابوں کے لیے سازگار نہیں ہے۔ کہیں دو اور کہیں ایک نسل ان خوابوں کی نذر ہو گئی۔ایران کو اقتصادی بحران نے گھیر لیا۔ا فغانستان میں تو اقتصادیات سے کہیں پہلے امن کا مسئلہ ہے۔خوابوں نے شہروں کو قبرستان بنا دیا اور مسلمانوں کی زمین کو فساد سے بھر دیا۔
خواب دیکھنا قوتِ تخیل کا اظہار ہے۔یوں یہ مطلوب ہے۔خواب دکھانا البتہ ایک جرم ہے‘ اگر حالات تعبیر کے لیے سازگار نہ ہوں۔اہلِ نظر خواب دیکھتے ہیں۔وہ اس میں دوسروں کو شریک کرتے ہیں۔تاہم ساتھ ہی وہ یہ بتاتے ہیں کہ اس خواب کی تعبیر کا سفر کتنا طویل ہے، اس کے راستے میں کون کون سے مشکل مقامات ہیں اور ان سے بخیر گزرنے کے لیے کس طرح کا زادِ راہ چا ہیے۔خواب کو خیال سے معاملہ ہے۔ تعبیر کو مگر حقائق سے آنکھیں چار کر نا ہوتی ہیں۔اگر تعبیر بھی خیال ہی سے متعلق رہے تو پھر یہ خواب فروشی ہے۔ خواب فروشی ایک کاروبار ہے جس میں مذہب، قوم اور جذبات کا استحصال ہو تا ہے۔ بدقسمتی سے مسلمانوں کے ساتھ ان کی سیاسی اور مذہبی قیادتوں نے یہ کھیل کھیلا۔اگر یہ کھیل نہیں تھا تو بے بصیرتی کا ایک مظہر ضرور تھا‘جب تعبیر کو بھی خیال کا ہی معاملہ سمجھا گیا۔یہ گمان کیا گیا کہ مادی وسائل اور تیاری کے بغیر بھی کوئی معرکہ سر کیا جا سکتا ہے۔ محض جذبات سے دنیا بدل سکتی ہے۔
ایرانی قیادت نے حقائق کی سرزمین پر قدم رکھ دیا ہے۔ملا عمر نے بھی اب مذاکرات کے حق میں شرعی دلائل دینا شروع کر دیے ہیں۔کبھی قرآن و سنت سے استدلال کیا جا تھا کہ طاغوت سے مذاکرات غیر شرعی ہیں۔فقیہانِ شہر میں یہی تو خوبی ہے کہ ہر رائے کے حق میں شریعت سے استدلال کر لیتے ہیں۔جناب ِشیخ کا نقشِ قدم یوں بھی ہے اور یوں بھی ۔غورکیا جائے توان معاملات کا شریعت سے کوئی تعلق نہیں ہو تا۔یہ عقلِ عام کے مسائل ہیں۔مذہبی استحصال اسی کو کہتے ہیں کہ عوام کے مذہبی جذبات کو استعمال کرنے کے لیے اپنے ہر اقدام کا شرعی جواز تلاش کر لیا جائے۔ حکمتِ عملی‘ اس لیے میں نے برسوں پہلے اپنی ایک کتاب کا مو ضوع بنایا تھا کہ غیر منصوص معاملہ ہے۔اخلاقی بندشیں ہر حال میں رہتی ہیں۔ اقدام البتہ ہم اپنی عقل سے اٹھاتے ہیں۔
خوابوں کی دنیا میں رہنے والے اب حقائق کی زمین پر قدم رکھ رہے ہیں۔خواب فروشی کی دکان مگر بند نہیں ہو گی۔کچھ لوگ ایران کو طاغوت سے مصالحت کا طعنہ دیں گے۔کچھ ملا عمر پر طعن توڑیں گے۔طالبان سے لوگ ٹوٹیں گے اور داعش کا حصہ بنیں گے۔یہاں بھی وہی مذہبی استدلال پیش کیا جائے گا۔ داعش کو بابِِ فتن کی روایات کا مصداق قرارد یا جائے گا۔یہ کام پہلے سے جاری ہے۔عالمی خلافت کو دین کا مطلوب بتا یا جائے گا اور یوں خواب فروشی کی ایک نئی دکان آ باد ہو جائے گی۔یہ ممکن ہے کہ ایران میں بھی فکرِخمینی کے ا حیا کی کوئی تحریک اٹھ جائے جو مو جودہ قیادت کو فکری انحراف کامرتکب ٹھہرائے۔افغانستان میں مجاہدین سے طالبان اور طالبان سے داعش کی طرف مراجعت جاری ہے۔ایک گروہ حقیقت پسندی کی زمین پر قدم رکھتا ہے تو دوسرا خواب فروشی کا علم اٹھا لیتا ہے۔کیا یہ سلسلہ یوں ہی جاری رہنا ہے؟
مسلمان اہلِ دانش اور علما کے لیے آج کا سب سے اہم سوال یہی ہے۔اس سوال کو ہم مختلف الفاظ کے ساتھ،اس طرح بھی بیان کر سکتے ہیں:انقلابِ ایران اور جہادِ افغانستان سے ہم نے کیا سیکھا؟ اسی سوال سے چند اور سوالات بھی جڑے ہیں۔ قوموں کی تعمیر کیسے ممکن ہے؟حکمتِ عملی میں زمینی حقائق کا ادراک کتنا ضروری ہے؟اگر اس مرحلے پر ہم نے ان سوالات کو نظرا نداز کیا اور خواب فروشی کا یہ کاروبار جاری رہا تو مجھے خدشہ ہے ہم اپنے آنے والے ماہ و سال بھی بر باد کر ڈالیں گے۔دائرے کا یہ سفر جاری رہے گا۔ایک نسل تجربے سے جانے گی کہ زمینی حقائق سے مطابقت ضروری ہے۔ نئی نسل پھر یہی تجربہ دہرائے گی۔ ہمیں آگے بڑھ کر دائرے کے اس سفر کو روکنا چاہیے۔ہمیں لوگوں کو سمجھاناچاہیے کہ عقل مند لوگ پرانے لوگوں کے تجربات سے سیکھتے ہیں،وہی تجربہ پھر نہیں دہراتے۔
ایران اور افغان طالبان کی قیادت تجربات سے سیکھ رہی ہے۔ اگر چہ یہ بعد ازخرابیٔ بسیار ہے مگر غنیمت ہے۔سعودی عرب کی قیادت مگر تجربات کے موڈ میں ہے۔یہی معاملہ مصر کی حکومت اور فوج کا ہے۔ان کے خلاف ردِ عمل بھی افسو س یہ ہے کہ وہی پرانا ہے۔ریاض کے دھماکے کو ذہن میں تازہ کر لیجیے۔ایران اور طالبان کے بعد اب ہمیں ایسے انقلابی تجربات سے گریز کر نا چاہیے۔ انقلاب سے نجات ہماری سب سے بڑی ضرورت ہے۔انقلاب خواب فروشی کا دوسرا نام ہے۔مسلم دنیا نے اگر حقائق کی سرزمین پر قدم رکھا ہے تو اسے ایک اجتماعی سفر میں بدل جانا چاہیے۔اس کے لیے خواب فروشی کی دکانوں کا بند ہو نا ضروری ہے۔یہ کام دلیل اور استدلال سے ہوگا ۔یہ ہتھیار اہلِ دانش کے پاس ہو تا ہے۔اس لیے انہیں بروئے کار آنا ہو گا۔
تاریخ پھر ہمیں پھر آواز دے رہی ہے۔کوئی ہے جو کان لگائے؟