اُسی بات کو اب آگے بڑھا نا چاہیے جو وزیراعظم نے کہی ہے۔کھمبا نوچنے کا کوئی فائدہ ہوگا نہ بغلیں بجا نے کا۔ پاکستان کو اب ایک نئے سیاسی کلچر کی ضرورت ہے۔ تین باتیں توجہ طلب ہیں۔
ایک یہ کہ اہلِ سیاست کو اب اپنی ذہنی سطح بلندکرنا ہوگی۔ سطحیت سے گریز لازم ہو گیا ہے۔کھیل، تماشے،دھرنے،ا حتجاج۔۔۔۔۔ ان جیسے تمام الفاظ کو اب سیاسی لغت سے نکال دینا چاہیے۔ سیاست دانوں کو گفتگو ہی کا نہیں، سیاست کا اسلوب بھی بدلنا ہو گا۔ تحریکِ انصاف کو اس بات پر ضرور غور کرنا چاہیے کہ اس نے سیاست کو اخلاقی اور فکری اعتبار سے بہت پست کر دیا ہے۔ اس کے لیڈروں اور حامیوں کو اخلاقی اور سیاسی تربیت کی شدید ضرورت ہے۔ انہیں سیاست کو رومان اور ہیجان سے نکال کراسے زمینی حقائق سے ہم آہنگ بنا نا ہے۔ ن لیگ کو بھی سوچنا ہے کہ اس میدان میں تحریکِ انصاف کا مقابلہ کرنے کا مطلب اپنی اخلاقی گراوٹ کا اظہار ہے۔ اگر گالیوں کا مقابلہ ہو گا تو اس میں جیت کسی کی نہیں ہو سکتی۔ پھر یہ بات بے معنی ہے کہ پہل کس نے کی۔
میڈیا اور سول سوسائٹی اس باب میں سیاسی جماعتوں کی مدد کر سکتے ہیں۔ بات کیسے کر نی ہے، استدلال کیسے مرتب کر نا ہے، اخلاقیات کا کس طرح خیال رکھنا ہے، سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں اورکارکنوں کے لیے ان مو ضوعات پر تربیتی ورکشاپس ہونی چاہیے۔ این جی اوز اس کا اہتمام کر سکتی ہیں۔ جو لوگ بد زبانی کی شہرت رکھتے ہیں، میڈ یا ان لوگوں کا خاموش بائیکاٹ کر کے، بدتمیزی کی حو صلہ شکنی کر سکتا ہے۔ سیاسی کلچر کو پختگی اور سنجیدگی کی راہ پر ڈالنا اب ہم سب کی ذمہ داری ہے۔ میڈیا بے معنی احتجاج دکھانا چھوڑ دے تو ہیجان کا کلچر خود بخود دم توڑ دے۔ میڈیا کو سنجیدہ تنقید اور الزام تراشی میں فرق کر نا پڑے گا اور قوم کو ان عناصر سے محفوظ رکھنا ہو گا جو صرف پگڑی اچھال کر اپنی سیاسی زندگی کا ثبوت دیتے ہیں۔
دوسری بات یہ کہ انتخابی اصلاحات ناگزیر ہیں۔ اس رپورٹ سے یہ معلوم ہوا کہ الیکشن کمیشن کا مو جود ہ ڈھانچہ اس بات کی صلاحیت نہیں رکھتا کہ وہ شفاف انتخابات کی ضمانت بن سکے۔ اس ضمن میں ایک اہم قدم اٹھایا گیا تھا اور وہ انتخابی اصلاحات کے لیے پارلیمانی کمیٹی کا قیام تھا۔ اب لازم ہے کہ اس کمیٹی کو مزید متحرک کیا جائے اور اس رپورٹ نے انتخابی نظام کی جن کو تاہیوں کی نشان دہی کی ہے، ان کا تدارک کیا جا ئے۔ اس پر تمام سیاسی جماعتوں کی آ مادگی نیک شگون ہے۔ اس اتفاق رائے کو اب ضائع نہیں ہو نا چاہیے۔
تیسری بات یہ کہ اداروں کو اب مضبوط ہو نا چاہیے۔ گلیوں اور بازاروں کے بجائے پارلیمنٹ کو مرکز بننا چاہیے۔ پارلیمنٹ کو یہ مرکزیت تب حاصل ہو گی جب حکومت اس کے فیصلوں کا احترام کرے گی۔ جب حکومتی جماعت پارلیمنٹ کو نظر انداز کرتی ہے تو پھر دوسری جماعتوں کے پاس اس کا متبادل‘ بازار اور گلیاں بن جا تے ہیں۔ اپوزیشن جماعتوں کو بھی اس پر غور کر نا ہو گا کہ یہ ملک کسی دھرنے یا احتجاجی سیاست کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ انہیں بھی ریاستی اداروں پر اعتماد کرنا چاہیے۔ عمران خان نے کمیشن کے فیصلے کو تسلیم
کیا۔ یہ سیاسی بلوغت کی دلیل اور عدلیہ پر اعتماد کا اظہار ہے جو خوش آئند ہے۔ حسبِ روایت وہ اس عوامی نعرے کو دہرا سکتے تھے کہ یہاں ہر طرف چور بیٹھے ہیں۔ اس بار انہوں نے ایسا نہیں کیا۔ میرا خیال ہے کہ زمینی حقیقتوں نے خود کو منوانا شروع کر دیا ہے۔ اگر ریاستی ادارے اپنے وقار اور ساکھ کے بارے میں سنجیدہ ہوں تو ان پر اعتماد بڑھے گا۔ عدلیہ پر سب جماعتوں کا اعتماد شاید ہماری تاریخ میں پہلی بار ہوا ہے۔ اس نے عدلیہ کی ذمہ داری بڑھا دی ہے۔ اس کے ساتھ اب اس رجحان میں بھی اضافہ ہونا چاہیے کہ متنازع معاملات میں ہمیں عدالت ہی کی طرف رجوع کر نا چاہیے۔
پیپلزپارٹی اور جمعیت علمائے اسلام جس طرح تحریکِ انصاف کی مذمت کر رہی ہیں ، یہ میرے لیے حیران کن ہے۔ اعتزاز احسن اور پیپلزپارٹی بڑے شد ومد کے ساتھ یہ کہہ رہے تھے کہ انتخابات میں دھاندلی ہو ئی ہے۔ مو لا نا فضل الرحمٰن بھی یہی بات دہرا رہے تھے۔ ان کے خیال میں یہ دھاندلی تحریکِ انصاف نے کی۔ یہ فیصلہ بتا رہا ہے کہ دھاندلی کا ہر الزام غلط ہے۔ جس طرح قومی سطح پرن لیگ کاحقِ اقتدار ثابت ہے، اسی طرح خیبر پختون خوا میں یہ تحریکِ انصاف کے لیے بھی ثابت ہے۔ یوں یہ شکست تحریکِ انصاف ہی کی نہیں،ان جماعتوں اور حضرات کی بھی ہے۔ ان کی طرف سے عمران کی مذمت دراصل خود مذمتی ہے۔
رپورٹ کے بعد یہ بات بھی بہت اہم ہے کہ حکومت کے احساسِ ذمہ داری میں اضافہ ہو تا ہے یا وہ احتساب سے مزیدبے نیاز ہو تی ہے۔ میرا احساس تو یہ ہے کہ حکومت کو اب زیادہ سنجیدگی کی ضرورت ہے۔کمیشن کی رپورٹ سے صرف یہ ثابت ہوا ہے کہ گزشتہ انتخابات میں دھاندلی نہیں ہو ئی۔ اس سے کہیں یہ ثابت نہیںہو تا کہ ملک میں گڈ گورننس ہے اور عوام چین کی نیند سو رہے ہیں۔ سچ یہ ہے کہ عوام کو دھاندلی کے مسئلے سے پہلے بھی زیادہ دلچسپی نہیں تھی۔ انہیں مسائل کا حل چا ہیے۔ جو یہ حل دے گا وہ ان کا ہیروہے۔ جو ناکام رہے گا، و ہ بھاری مینڈیٹ کے باو جود ان کی نظروں سے گر جا ئے گا۔ رپورٹ سے ن لیگ کا حقِ اقتدار ثابت ہوا ہے، مستقبل کے امکانات نہیں۔ یہ امکانات منحصر ہیں، اس کی کارکردگی پر۔
اس رپورٹ کا سب سے اہم پہلو، اس میں کوئی شبہ نہیں کہ تحریکِ انصاف کی پیٹھ پر وقت کا تازیانہ ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ اس جماعت کو اصلاح کی شدید ضرورت ہے۔ ہماری قوم کے لیے اس وقت یہی جماعت سیاسی متبادل ہے۔ اگر اس کی قیادت سطحی اورغیرسنجیدہ ہو گی تو اس کا مطلب یہ ہے کہ مستقبل کے امکانات مزید دھندلے ہو جائیں۔ عمران خان کو شدید ضرورت ہے کہ اب وہ پڑھے لکھے لوگوں میں بیٹھنا شروع کریں۔ مطالعے کے لیے وقت نکالیں اور بطور خاص بڑے رہنماؤں اور مدبرین کی سوانح عمریاں اور آپ بیتیاں پڑھیں۔ اہلِ ثروت کی گرفت نے ان کے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت اوراخلاق پر منفی اثر ڈالا ہے۔ دولت مند زندگی کو سرمایے کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ اس سے کم نظری پیدا ہوتی ہے۔ اس کے برخلاف اہلِ علم زندگی کو زندگی کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ وہ پوشیدہ مادی اور روحانی امکانات کو دریافت کرتے ہیں۔ دولت مند کی روحانی آنکھ کھلی ہو تو وہ تبھی زندگی کی حقیقت تک پہنچ سکتا ہے۔ روحانی بالیدگی ہی زندگی کو اعلیٰ مقاصد سے ہم آہنگ بناتی ہے۔ اس کے بعد اسے اپنی منزل آ سمانوں میں دکھائی دیتی ہے۔
اہلِ علم کی صحبت سے بھی اہم تر اپنی ذات کے اندر جھانکنا ہے۔ عمران خان کو اس کی بھی شدید ضرورت ہے۔ میرا مشورہ ہے کہ عمران کسی روز تنہائی میں اپنی وہ تقریریں ترتیب کے ساتھ سن لیں جو انہوں نے دھرنے کے دنوں میں کیں۔اس کے بعد وہ اپنا موازنہ قائد اعظم کی بصیرت اور سیاسی اخلاقیات سے کریں۔ شاید اس کے بعد وہ اُس عمران کی بازیافت کر سکیں جس کی راہ میں اس قوم نے کبھی دل و نگاہ بچھا دیے تھے۔ پھر وہ یہ بھی جان سکیں گے کہ انہوں نے ذہنی اور روحانی ترقی کی منازل طے کیں یا وہ تنزل کا شکار ہوئے۔ اگر ممکن ہو تو وہ اقبال کے اس شعر پر بھی ضرورغور کریں:
اے مسلماں! اپنے دل سے پوچھ، ملا سے نہ پوچھ
ہو گیا اللہ کے بندوں سے کیوں خالی حرم