فتنہ کیا ہے؟جو بھی ہے، ہے بہت بُری شے۔ کوئی وجہ تو ہوگی کہ عالم کے پروردگار نے اسے قتل سے بھی سنگین تر قرار دیا ہے۔
بچپن سے علماء کی زبانی یہ سنتے آئے ہیں کہ وہ ہر فتنے کے خلاف سینہ سپر ہوگئے۔وہ اپنے اسلاف کے کارنامے بیان کرتے ہوئے فخرو انبساط کے ساتھ بتاتے ہیں کہ انہوں نے فلاں فلاں فتنوں کی سر کوبی کی۔بعض روایات ہیں جو بتاتی ہیں کہ قربِ قیامت میں فتنے اٹھ کھڑے ہوں گے۔آج بہت سے لوگ فتنے کی ٹوپی اٹھاتے اورحسب خواہش کسی کے سر پر رکھ دیتے ہیں۔اس کے بعد سارا زورِ قلم اور طاقتِ لسانی اس کی سر کوبی کے لیے وقف ہو جاتی ہے۔سوال یہ ہے کہ جس کے خلاف ساری دنیا اٹھ کھڑی ہوئی ہے، یہ فتنہ آ خر ہے کیا؟
جس اقدام سے زمین فساد سے بھر جائے‘ جو تقریر زندگی کو خطرات میں ڈا ل دے‘ جو تحریر سماج میں خوف بو دے ،جو لوگوں کے مابین فصیلیں کھڑی کر دے،وہ سب فتنہ ہیں۔یہ سر گرمیاں کسی عنوان سے بھی ہوسکتی ہیں۔تقریر کا بظاہرموضوع اصلاح ہو سکتا ہے۔تحریر ممکن ہے کہ امتِ مسلمہ کا درد لیے ہوئے ہو۔جلسہ جلوس ممکن ہے مذہبی حوالے کے ساتھ ہو،اگر اُس کا نتیجہ فساد ہے تو اسے فتنہ قرار دینے میں مجھے کوئی تردد نہیں۔آپ کی اجازت سے، میں اس فہرست میں مزیداضافہ کر تا ہوں۔ اقتدار اگر عوام میں اضطراب پید اکر رہا ہے اور ایک اعیانی طبقے کے مفادات کا محافظ ہے تو وہ بھی فتنہ ہے۔سیاسی جماعت اگر مال دار طبقے کو مواقع فراہم کر رہی ہے کہ وہ لوٹ کھسوٹ کا بازار گرم کیے رکھے اور اس طبقے کو احتساب سے محفوظ بناتی ہے تو بھی فتنہ ہے۔یہ نتیجہ ہے جو طے کرے گا کہ کیا کام فتنہ ہے اور کیا اصلاح کا سبب۔
چند سال ہوئے میرا فیصل آ بادجا نا ہوا۔ایک مجلس میں ایک صاحب ِ علم کی دینی خدمات کی تحسین ہوئی تو ایک مذہبی راہنما کو اچھا نہ لگا۔ان کی باری آئی تو انہوں نے اس شخصیت کو ایک فتنہ قرار دیا اور بطور ثبوت ان سے بعض ایسے خیالات منسوب کیے جو یقیناً فتنے کا سبب تھے۔میرے لیے یہ ایک انکشاف تھا کیونکہ میں اس صاحبِ علم کے خیالات سے پوری طرح آگاہ تھا۔سرِ مجلس میں نے ان سے گزارش کی کہ وہ میری مدد کریں اور مجھے بتائیں کہ یہ باتوں موصوف نے کہاں لکھیں یا بیان کیں جن کا انتساب،آپ نے ان کی طرف کیا۔میرے اصرار کے با وجود، وہ کوئی حوالہ نہیں دے سکے۔یہ خلوت کی کوئی مجلس نہیں تھی۔اس میں بہت سے لوگ شریک تھے۔میں آ ج تک سوچتا ہوں کہ جو لوگ اس سے پہلے اٹھ گئے اورانہوں نے مذہبی راہنماکی رائے پر اعتبار کرلیا، تو اس کذب اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے ممکنہ فتنے کا ذمہ دار کون ہے ؟ کیایہ طرزِ عمل خود فتنہ نہیں ہے؟بغیر تحقیق سنی سنائی بات کو پھیلانا اور جان بوجھ کر ایک بات کو غلط مفہوم دینا کیا فتنہ نہیں؟ان سے پوچھیے تو یہ بتائیں گے کہ وہ ایک فتنے کا تعاقب کر رہے ہیں۔ وہ اپنے ارد گرد نظر دوڑائیں تو انہیں معلوم ہو کہ فتنہ تو ان کے جلو میں چل رہا ہے۔
فتنے کا پہلا ہدف امن ہو تا ہے۔فتنہ سماج کو خوف میں مبتلا کر تا ہے۔دہشت اس کا حاصل ہے۔اصلاح کے نام پر کھڑے ہونے والوں کو سوچنا چاہیے کہ ان کانام اگر دہشت کی علامت ہے یا لوگ ان سے خوف کھانے لگے ہیں توپھر وہ صاحبانِ اصلاح میں سے نہیں۔لوگ کہتے ہیں : دنیا آج اسلام سے خوف زدہ ہے۔ میں سوچتا ہوں کیا انہوں نے کبھی اپنے اس جملے پر غور کیا؟ بطور مسلمان،یہ بات میرے لیے باعثِ تشویش ہو نی چاہیے کہ دنیا میرے مذہب سے خوف کھاتی ہے۔میری کا میابی یہ ہے کہ لوگ میرے مذہب سے امن کا پیغام لیں۔ایک مسلمان کا نام آئے تو لوگوں کو سلامتی کا احساس ہو۔ ہجرت کی شب تک،میرے رسول ﷺ تو مکہ میں امن اور سلامتی کی علامت تھے۔چند فتنہ پرورسردار تھے جو اپنے مفادات کے لیے لوگوں کو ان کے خلاف اکساتے تھے۔ورنہ ایک عام آ دمی تو ان سے محبت کرتا تھا۔وہ جانتا تھا کہ میرا مال اور میری جان اگر کسی کے پاس محفوظ ہے تو وہ یہی ہستی ہے۔آپﷺ کو اپنی سماجی ذمہ داریوں کا اتنا احساس تھا کہ تلواروں کے سائے میں رخصت ہوئے لیکن سیدنا علیؓ کو اپنے بستر پہ چھوڑا کہ بہت سی امانتیں آپ کے پاس رکھی تھیں۔ایسے رسول کی امت سے لوگ خوف کھانے لگیں تو یہ بات باعثِِ فخرنہیں، باعثِ تشویش ہو نی چاہیے۔
فتنہ ،میرا خیال ہے کہ نظریات سے نہیں، رویے سے پیدا ہوتا ہے‘ الاّ یہ کہ نظریہ تشدد کی دعوت دے۔جیسے ایک دور میں اشتراکی تحریک تھی۔ماؤ،لینن سب تشدد کو تبدیلی کے لیے ناگزیرقرار دیتے تھے۔مذہب کو بھی جب ایک انقلابی تحریک کے روپ میں پیش کیا گیا تو اس سے تشدد نے جنم لیا۔جب تک مذہب اپنے صحیح تناظر میں بیان ہو تا رہا ،اس سے امن وابستہ تھا۔بدھ مت کی مثال ہمارے سامنے ہے جس کی امن پسندی کے بارے میں دوسری رائے نہیں رہی۔اُس کے پیرو کاروں نے جب اسے حقوق کی ایک تحریک بنا یا تو برما سے تھائی لینڈ تک تشدد پھیل گیا۔تحریکیں جذبات سے کھیلتی ہیں۔اجتماعی امور میں تحریکیت نے ہمیشہ تشدد کو فروغ دیا۔ساری تحریکی شاعری دیکھ لیجیے،اشتراکیت کے نام پر ہو یااسلام کے نام پر،موت کو گلیمرائز کرتی سنائی دیتی ہے۔
پاکستانی سماج میں اقتدار، سیاست، مذہب،ہر شے فتنہ پرور ہاتھوں میں یرغمال بنتی جا رہی ہے۔یہ ایک دن میں نہیں ہوا۔اس کی ایک تاریخ ہے۔لوگوں کو ابھی تک اندازہ نہیں ہے کہ انہوں نے جو بیج بویا تھا، کیسے آج ایک تن آور درخت بن چکا جس کی جڑیں دور دور تک پھیل گئی ہیں۔گفتگو کا آہنگ تک بدل گیا ہے۔ لاؤڈ سپیکر کے با وجود ، خطیبِ شہر، معلوم ہو تا ہے کہ زبان سے نہیں پورے وجود سے کلام کر رہا ہے۔اس کے بعد تقریر میںکیسی حلاوت اور کیسی مٹھاس۔سچ یہ ہے کہ ایک مدت ہوگئی ایسی تقریر سنے جو کانوں کے لیے امن کاپیغام ہو۔ جو خطیب کانوں کو امن نہ دے سکے،وہ جانوں کو کیا امن دے گا؟اہلِ سیاست کا معاملہ بھی مختلف نہیں۔ٹی وی ٹاک شوز میں ایک دوسرے سے یوںہم کلام ہو تے ہیں کہ زبانیں ان کے قد سے لمبی ہو جا تی ہیں۔
یہ معاشرہ آج فتنے کی زد میں ہے۔فتنہ ہوگا تو امن نہیں ہو گا۔حکمران فتنہ جُو کوختم کر نا چاہتے ہیںلیکن ان عوامل کو نظر اندازکرتے ہیں جوفتنہ پیدا کرتے ہیں۔انسان مشین نہیں ہو تا۔آج چاہیں تووہ ایک معاملے میں عقل سے رجوع کرے اور دوسرے میں دل سے۔کشمیر کے معاملے میں دل سے سوچے اورجب طالبان کے بات آئے تو اپنی لگام عقل کے ہاتھ میں دے دے۔اس ملک میں بسنے والوں کوکوئی ایک راستہ دکھانا ہو گا۔سوچنے کا کام دماغ سے لینا ہے یا دل سے؟دل میں احساس پھوٹتا ہے۔ احساس قوتِ محرکہ ہے‘ لیکن حرکت کب کر نی ہے، اس کا فیصلہ دماغ نے کر نا ہے۔اس کے لیے ان لوگوں کو بدلنا ہوگا جو فتنہ پیدا کرتے ہیں۔اگر سیاست دان، خطیب ِشہر اور ادیب کا لہجہ نہیں بدلے گا توعوامی رویے کیسے بدلیں گے؟
آج یہ فتنہ آہستہ آہستہ سب کو اپنی لپیٹ میں لے چکا۔فتنہ پرور بھی اب اس کی زد میں ہیں۔آج خوف سے کوئی آزاد نہیں۔وہ بھی نہیں جو کل دوسروں کو خوف زدہ رکھتے تھے۔فساد خشکی اور تری پر پھیل چکا۔وقت ہے کہ اس فتنہ گری سے اجتماعی تو بہ کی جائے۔جب تک خطیب کے لہجے کی حلاوت نہیں لَوٹتی، فتنہ باقی رہے گا۔