امکان نے ایک بار پھر عمران خان کے دروازے پر دستک دی ہے۔کیا وہ اس باراپنے بند کواڑ کھولیں گے؟ مجھے شبہ ہے کہ وہ ایسا کر پائیں۔
ملکی سیاست پامال راستوں پر چلنے سے گریزاں ہے۔ صاف دکھائی دے رہا ہے کہ سب وقت کے جبر کا شکارہیں۔ اس بار لگام افراد کے ہاتھ میں نہیں، اسے کسی اور نے تھام رکھا ہے۔ ریاستی ادارے اس راز کو پا چکے کہ ان کے مابین ہم آہنگی ناگزیر ہے۔ فوج کی قیادت نے جان لیا کہ مقدس گائے کا تصور اب فرسودہ ہو چکا۔ اب صرف اہلِ سیاست کا احتساب قابل ِقبول نہیں ہو گا۔ اہلِ سیاست نے بھی ادراک کر لیا ہے کہ فوج ایک امرِ واقعہ ہے اور اس حقیقت کے اعتراف کے بنا کوئی چارہ نہیں۔ عدالتِ عظمیٰ کا فیصلہ بتا رہا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف اس فیصلہ کن جنگ میں کتابی باتوں کے لیے گنجائش نہیں۔ چند اربابِ سیاست وصحافت اس تبدیلی کا ادراک کرنے سے معذور ہیں۔ میرا خیال ہے کہ عمران خان بھی ان میں سے ایک ہیں۔ وہ اب بھی یہ سمجھتے ہیں کہ طالب نکئی جیسے لوگوں کو ساتھ ملانے سے تبدیلی آجائے گی۔
مکرر عرض ہے کہ عمران خان اپنی افتادِ طبع کے اعتبار سے سیاست دان نہیں، ایک احتجاج پسند (Agitator) ہیں۔ سیاست کے اجزائے ترکیبی احتجاج سے مختلف بلکہ متصادم ہیں۔ سیاست دور اندیشی، ٹھہراؤ، تدبر اور فراست سے ترتیب پاتی ہے۔ احتجاج عجلت پسندی، ہیجان، جذباتیت اوربالعموم کوتاہ نگاہی سے عبارت ہے۔ عمران خان کی سیاست پر ایک طائرانہ نظر بھی یہ جاننے کے لیے کفایت کرتی ہے کہ ان کا رویہ کن اجزا کا مرکب ہے۔ ان کے چہرے کا مسلسل تناؤ ہی بتا دیتا ہے کہ وہ ایک مضطرب شخصیت ہیں۔ بد قسمتی یہ ہوئی کہ عوام کے ایک بڑے طبقے نے بھی اسے اپنا لیا ہے۔ وہ احتجاج اورہیجان کو تبدیلی کا لائحہ عمل قرار دینے لگا ہے۔ یہ کوئی سوچی سمجھی رائے نہیں،ایک رومان کا حا صل ہے۔ رومان جو شخصیت پرستی سے جنم لیتاہے۔ اس کا شکار یہ احساس ہی نہیںکر پاتا کہ کب اس کا اپنا وجود تحلیل ہو چکا اور وہ ایک دوسرے وجودمیں ڈھل چکاجسے وہ حقیقی شمار کرتا ہے۔ تصوف میں فنا فی الشیخ کو مطلوب کا درجہ حا صل ہے۔ اس کے بغیر سلوک کے مراحل طے نہیں کیے جا سکتے۔ اپنی ذات کی نفی اس کا پہلا درس ہے۔ شاید یہی سبب ہے کہ آزاد ذہنوں کے لیے یہ خیال کبھی پر کشش نہیں رہا۔ سید سلیمان ندوی مولانا امین احسن اصلاحی کے پاس تشریف لائے اور انہیں دعوت دی کہ وہ ان کے شیخ کی بیعت کر لیں۔ مولانا نے جواب دیا: میں اس دن سے پناہ ما نگتا ہوں جب میں اپنا ہاتھ اپنے جیسے کسی انسا ن کے ہاتھ میں دے دوں۔
واقعہ یہ ہے کہ غیر مشروط اطاعت صرف پیغمبر ہی کی ہو سکتی ہے۔ یہ صرف نبی اور رسول ہی کے لیے زیبا ہے کہ انسان ان کے قالب میں ڈھل جائے۔ ہمارے رسول ﷺ کا معاملہ بھی لیکن سب سے بلند اور منفرد ہے۔ آپ نے اپنے صحابہ کی تربیت اس طرح سے کی کہ وہ سوال اٹھائیں۔ پیغمبر کی غیر مشروط اطاعت مگر اس طرح کہ افراد کے شخصی کمالات کو جلا ملتی رہے۔ ان میں ''حسبنا کتاب اللہ‘‘ کہنے کا حو صلہ خود اللہ کے رسولﷺ نے پیدا کیا۔ علاقہ اقبال نے سیدنا عمرؓکے اس جملے کو تنقیدی اور طبع زاد ذہن کا مظہر قرار دیا۔ یہ وہ حریتِ فکر ہے جو پیغمبر کی صحبت ہی سے نصیب ہو سکتی ہے۔ تصوف فنا فی الشیخ کے عنوان سے اور سیاست رومان کے نام پر،انسان کو اس حریت سے محروم کر دیتے ہیں۔ عمران خان کے چاہنے والوں کو اندازہ ہی نہیں کہ وہ کب کے اس شرف انسانیت سے دست برادار ہو چکے ۔
دھرنے کی سیاست کے پرت جب کھلتے گئے تو عمران خان اور ان کے چاہنے والوں کے لیے ایک موقع تھا کہ وہ اپنے طرزِ عمل پر نظر ثانی کریں۔ عدالتی کمیشن کا نتیجہ فکر سامنے آنے کے بعد ایک اور موقع آیا جب وہ چاہتے تو وقت کے بدلتے تیورکو پہچان لیتے۔ اپنا وعدہ نبھاتے اور اپنے چاہنے والوں کو بھی یہی تلقین کرتے۔ ہیجان سے تدبرکی طرف ایک کھڑکی کھل گئی تھی۔ پارلیمنٹ میں ان کی واپسی ممکن ہوئی تو پھر ایک موقع پیدا ہوا جب وہ سمجھ لیتے کہ حالات کس رخ کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ افسوس کہ جہانگیر ترین صاحب کی پریس کانفرنس حالات کے ادراک سے پوری طرح خالی تھی۔ مجھے شبہ ہے کہ عمران خان کی افتادِ طبع انہیں ایک بار پھر احتجاجی سیاست کے میدان میں لا کھڑا کرے گی۔ ان کے چاہنے والوں کی نفسیاتی تحلیل کر کے میں بتا چکا کہ ان کا ردِ عمل کیا ہوگا۔
احتجاجی سیاست کی جانب بڑھنے سے پہلے عمران خان اور تحریک انصاف کے لیے لازم ہے کہ وہ چند تبدیلوں کا ادراک کر لیں۔ ایک یہ کہ جنرل پا شا اور جنرل ظہیر الاسلام ریٹائر ہو چکے۔ دوسرا یہ کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں تمام ریاستی ادارے یکسُو ہیں اور آج اس عذاب سے نجات ان کی پہلی ترجیح ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ عدم استحکام کی سیاست کو اب خوش آ مدید کہنے والا کوئی نہیں۔ تیسرا یہ کہ چینی سرمایہ کاری کا تحفظ قومی سلامتی کے اداروں کی پہلی ترجیح ہے، اس کا مطلب بھی یہی ہے کہ فوری سیاسی تبدیلی یا قبل از وقت انتخابات کے مطالبے کو کوئی حمایت
حاصل نہیں ہو گی۔ چوتھا یہ کہ چین جیسا دوست ملک بھی اپنا مفاد اسی میں سمجھتا ہے کہ پاکستان میں سیاسی و سماجی ہیجان برپا نہ ہو۔ اور سب سے اہم وقت کا جبر۔ احتجاجی سیاست کے پامال راستے پر چلنے والوں کی اب کوئی منزل نہیں۔ یوں بھی طالب نکئی جمع کر لینے سے کوئی انقلاب ممکن ہوتا تو کب کا آ چکا ہوتا۔
حالات کے اس ادراک کا تعلق سیاسی بصیرت کے ساتھ ہے۔ افسوس کہ عمران خان اس وادی میں قدم رکھنے پر آمادہ نہیں۔ ان کا خیال ہے کہ وہ مو جودہ حکومت کی کمزوریوں کو اپنی طاقت میں بدل دیں گے۔ ان کمزوریوں کے بارے کوئی دوسری رائے نہیں۔گورننس کے مسائل شدید ہیں اور اس باب میں مرکزی حکومت کی غفلت بھی ظاہرو باہر ہے۔ جو بات لیکن وہ نظرانداز کر رہے، وہ اس سے بڑے عوامل کی کارفرمائی ہے جو نئے سیاسی منظر کی تشکیل میں فیصلہ کن کرادار ادا کریں گے۔ تحریکِ انصاف پر پارلیمنٹ کا دروازہ کھلنے کے بعد، جہانگیر ترین نے ایک بار پھر 2016 ء میں انتخابات کی بات کی۔ اس سے بھی یہی معلوم ہو رہا ہے کہ اس جماعت کو موجودہ سیاسی تبدیلیوں کا ادراک نہیں۔ تحریک انصاف اب بھی یہ خیال کرتی ہے کہ وہ احتجاج کی سیاست سے کوئی تبدیلی لا سکتی ہے۔
یہ بات ایک سیاسی ذہن ہی سمجھ سکتا ہے کہ احتجاج سے کوئی وقتی اور جزوی فائدہ اٹھانا توممکن ہے، وہ ایک مستقل حکمتِ عملی نہیں بن سکتی۔ اس اصول کا تعلق عمومی سیاست کے ساتھ ہے۔ پاکستان تو اس وقت غیر معمولی حالات سے گزر رہا ہے اوراس میں احتجاج کی سیاست کے لیے کوئی جگہ نہیں۔ جب سپریم کورٹ فوجی عدالتوں کوجائز قرار دے تو پھر جان لینا چاہیے کہ وقت کا جبر سب کو اپنی لپیٹ میں لے چکا۔ انسانی تاریخ یہ ہے کہ وقت اور فطرت کے ساتھ لڑائی کا انجام صرف شکست ہے۔
عمران خان کواحتجاج پسند سے سیاست دان بننا ہوگا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ صبر ان کی حکمت عملی کا مرکزی نکتہ ہو۔ وہ اپنے چاہنے والوں کو بھی یہی سکھائیںکہ وہ اگلے عام انتخابات کی تیاری کریں۔ اس وقت پاکستان کا پہلا مسئلہ شریف خاندان نہیں، استحکام ہے۔ وقت کا جبر یہ ہے کہ ہمارا انتخاب اس کے سوا نہیں ہو سکتا۔ یہ بقا کا مسئلہ ہے۔ اگر پارلیمنٹ، عدلیہ، فوج اور حکومت ہر بات کو نظر انداز کر تے ہوئے،اس پر مجبور ہیں تو جان لینا چاہیے کہ اس سے کسی کو مفرنہیں۔ بقا کی جبلت بالآخر غالب رہتی ہے الّا یہ کہ کوئی خود کشی پر آ مادہ ہو۔