جنرل حمیدگل کا انتقال ہوگیا۔۔ایک نجیب آ دمی دنیا سے رخصت ہوا۔
اُن کے عہد ساز ہونے میںتو خیر کوئی کلام نہیں۔پاکستان، افغانستان اور اس خطے کی سیاست و معاشرت پر ان کے غیر معمولی اثرات ہیں۔اِن اثرات کے مثبت اور منفی پہلوئوں پر بات ہوتی رہے گی کہ یہ دو نقطہ ہائے نظر کا اختلاف ہے لیکن ان کی تاریخ ساز حیثیت مسلمہ ہے۔1979ء کے بعد،جنرل ضیاالحق کے علاوہ،ہماری صفوں سے شاید ہی کوئی اٹھا ہو جس نے اُن کی طرح دنیا کو متاثر کیا ہو۔بلا شبہ ہماری تاریخ کے وہ ایک ناقابلِ فراموش کردار ہیں۔
فرشتہ موت کا چھوتا ہے گو بدن تیرا
ترے وجود کے مرکز سے دور رہتا ہے
میں مگرایک عہد ساز سے زیادہ ایک نجیب آدمی کا ذکر کر رہا ہوں۔تاریخ سازلوگ کم ہوتے ہیں مگراُن میں نجیب بہت ہی کم۔ ہمارا معاشرہ جن خوبیوں سے تیزی کے ساتھ خالی ہو رہا ہے،اُن میں ایک نجابت بھی ہے۔اہلِ علم کا اٹھنا علم کے رخصت ہونے کا اعلان ہے کہ ہمارے ہاں ان کی جگہ لینے والا کوئی نہیں ہوتا ۔کچھ ایسا ہی معاملہ شرافت کا بھی ہوگیاہے۔نجیب آدمی اٹھ جائے تو جان لیجیے کہ نجابت کم ہو گئی۔ اس طالب علم پر ایک دور ایسا گزراہے جب وہ یہ خیال کر تا تھا کہ ہماری تاریخ کی آئیڈیل شخصیات ان کی ذات میں مجسم ہو گئی ہیں۔صلاح الدین ایوبی ایسے ہی ہوں گے!طارق بن زیاد آج ہوتے تو ان ہی کی طرح ہوتے!میرا تعلق اس نسل سے ہے جس نے شعور کی آنکھ کھولی توجہادِ افغانستان اپنے جوبن پر تھا۔جنرل ضیا الحق نے جنرل اختر عبدالرحمٰن اور جنرل حمید گل جیسے رفقا کے ساتھ مل کر ایک نئی تاریخ رقم کرنے کا فیصلہ کر لیا تھا۔میرے لیے یہ خوابوں کا دور تھا۔ماضی کا اسیر ایک مسلم نو جوان ،جوامتِ مسلمہ کی نشاۃ الثانیہ کے خواب دیکھتا تھا اور یہ خیال کر تا تھا کہ اس منزل کی طرف جانے والا واحد راستہ جہاد ،بمعنی قتال، ہی ہے۔کتنے نوجوان ہیں جو آج بھی اسی خواب میں جیتے ہیں حالانکہ انہوں نے ، بچشمِ سر، اس کو بکھرتے دیکھ لیا ہے۔
یہ وہ دور تھا جب جنرل ضیاالحق، حمید گل،قاضی حسین احمداور میجر عامر کے ساتھ ایک رومانوی تعلق قائم ہوا۔تب میں نے پہلی بار جنرل حمید گل کو دیکھا۔راولپنڈی پریس کلب میں وہ آئے اور اہلِ صحافت سے کلام کیا۔میرا اس وقت صحافت سے کوئی تعلق واسطہ نہ تھا لیکن میں ان کی محبت میں وہاں جا پہنچا اور صحافیانہ انداز میں ان کی گفتگو کے نکات لکھتا رہا۔جیسے اُن کے منہ سے گلاب جھڑ رہے ہوں اور میں ان کی پتیاں سمیٹنے کے لیے بے تاب ہوں۔میں کئی سال اس رومان میں رہا۔غالباً 1996ء کے دن تھے جب وہ اخباری کالموں کا کچھ اس طرح موضوع بنے کہ میں ان کے دفاع کے لیے بے چین ہو گیا۔میں اُن دنوں راولپنڈی کے ایک اخبار میں کالم لکھتا تھا۔اپنے ایک ہیرو کی ذات پر سوقیانہ تبصرہ مجھے گورا نہ ہوا اور میں نے ان کی محبت میں قلم اٹھا یا۔یہ کالم ان سے شخصی تعلق کی اساس بن گیا۔
آ دمی مگر ارتقا کے مراحل سے گزرتا ہے۔عمر، مطالعے، مشاہدے اور تجربے میں اضافہ ہوا تو مذہب، تاریخ، سیاست اور سماج کے باب میں لگے بندھے خیالات ٹوٹنے لگے۔معلوم ہوا کہ ہم اپنی خواہشوں اور تعصبات کی اسیری میںجیتے ہیں اور اکثر اس کا ادراک ہی نہیں کرپاتے۔مذہب کی تعلیم ہو یا تاریخ کا عمل، ہم انہیں ویسے نہیں دیکھتے جیسے وہ ہیں۔ہم انہیں اپنے تعصب اور وابستگی کی عینک سے دیکھتے ہیں۔یہ احساس پیدا ہواتو ایک نئی دنیا میرے سامنے تھے۔اس میں پرانے خیالات کے لیے بہت کم جگہ تھی۔جنرل حمیدگل بھی اسی دور کی یادگار تھے جس کو میں نے شعوری طور پر خیر باد کہہ دیاتھا۔یہاں سے ایک نئے فکری دور کا آ غاز ہوتا ہے۔اب جنرل حمیدگل اور جنرل ضیاء الحق کے تاریخی کردار کو میں ایک اورنظر سے دیکھ رہا تھا۔یہاں سے ان کے ساتھ تعلق کا بھی ایک نیا دورشروع ہو تا ہے۔
ایک نجیب آ دمی کی پہچان اُسی وقت ہوتی ہے جب آپ اس سے اختلاف کرتے ہیں۔واقعہ یہ ہے کہ اس آزمائش میں پورا اترنے کے لیے بہت ریاضت کی ضرورت ہو تی ہے۔بہت کم لوگ اس کے متحمل ہوتے ہیں۔ اس نئے دور میں بھی ،جنرل حمید گل میرے کالموں اور گفتگوئوں کا مو ضوع تھے مگر باندازِ دیگر۔ظاہر ہے کہ یہ بات ان کے لیے پسندیدہ نہیں تھی۔میری تربیت کا تقاضا تھا کہ میں ان سے اختلاف تو کروں لیکن ان کا احترام پیش ِنظر رکھتے ہوئے۔تنقیدبہر حال تنقید ہوتی ہے اور طبیعت پہ گراں گزرتی ہے۔مجھے اعتراف ہے کہ میری اس جسارت کے باوجود ان کی شفقت اور شائستگی میں کوئی فرق نہیں آیا۔وہ فون پر یا ملاقات کے وقت اپنی بات کہتے۔ اپنا موقف واضح کرتے لیکن تلخی کا شائبہ تک نہ ہوتا۔میری والدہ کا انتقال ہوا تو تعزیت کے لیے میرے گھر تشریف لائے۔فون پر ہمیشہ اہلِ خانہ کے بارے میں پوچھتے۔اپنے گھر والوں کی بات کرتے۔اہلیہ کی صحت کے بارے میں تشویش میں رہتے تھے اور اس کا اظہار بھی کرتے۔ پچھلے کچھ عرصہ سے،ان کے ساتھ ربط ضبط میں کمی آئی لیکن ایک تعلقِ خاطر موجود رہا۔اس کا اندازہ اُس وقت زیادہ ہوا جب ان کے انتقال کی خبر ملی۔رات ایک برقی پیغام ملاتو دل لہو سے بھر گیا۔
انسان صرف نقطہ نظر کا نام نہیں ہو تا۔اصلاً وہ ایک اخلاقی وجود ہے۔ہم میں سے کون ہے جو یہ دعویٰ کرسکے کہ رائے قائم کرنے وقت اس سے کبھی غلطی نہیں ہوئی۔انسان کی آ زمائش مگریہ ہے کہ وہ کوئی موقف دیانتداری سے اختیار کرتا ہے یا کسی تعصب اور مفاد کے تحت۔رائے کی غلطی کے اثرات ہوتے ہیں اور ہم ان پر گفتگو بھی کرتے ہیں۔تاہم یہ جاننے کا ہمارے پاس کوئی ذریعہ نہیں ہو تا کہ زیرِ بحث رائے کسی مفاد کے باعث اختیارکی گئی ہے الاّ یہ کہ ہمارے پاس شواہد ہوں۔ میں خود کوآج مذہب،تاریخ اور سیاست کے باب میں جنرل حمید گل مرحوم کے خیالات سے متفق نہیں پا تا لیکن مجھے یقین ہے کہ ان کے خیالات کسی مفاد کے تابع نہیں تھے۔ ان سے مل کر اندازہ ہوتا تھا کہ افغانستان کی جنگ کو وہ فی الواقع جہاد سمجھتے تھے ۔یہ ان کے لیے ملازمت کا معاملہ نہیں، ایک مشن تھا۔ان کا بیٹاان کے ساتھ اس جہاد میں لڑتا رہا۔وہ جب اس معرکے کا ذکر کرتے تو وفورِ جذبات سے ان کی آواز بلندہو جاتی۔ اندازہ ہو تا تھاکہ ان کی زبان نہیںِ دل بول رہا ہے۔میجر عامر کی گفتگو میں بھی ،میںان ہی کی صدائے بازگشت سنتا ہوں۔
میرا احساس یہ ہے کہ اس جنگ میں اکثر لوگ، ان کا تعلق فوج سے تھا یا کسی مذہبی جماعت سے،اسی جذبے کے تحت شریک رہے۔آج بھی میجر عامر سے جنگ کے واقعات سنیے تواندازہ ہو تا ہے کہ یہ معرکہ صرف امریکی امداد کے مرہونِ منت نہیں تھا۔یہ انسانی جذبے کی ایک ناقابلِ فراموش داستان بھی ہے۔جنرل حمید گل اسی داستان کے ایک ہیرو ہیں۔یہ داستان کامیابیوں اور المیوں کا ایک مجموعہ ہے۔ہیرو دونوں صورتوں میں ہیرو ہی رہتا ہے۔اللہ تعالی سے دعا ہے کہ و ہ انہیں اپنی مغفرت سے نوازے اوران کا معاملہ اس گروہ کے ساتھ ہو جس پر اُس نے انعام کیا ہے۔