"KNC" (space) message & send to 7575

شادی خان

اگر آپ شادی خان نہیں گئے تو آپ نہیں جان سکتے کہ یہ کیسی بستی ہے۔ میں جانتا ہوں۔ میں نے کم و بیش تین سال یہاں گزارے ہیں۔
میرے بڑے بھائی عبدالرحمٰن قاضی یہاں کے ہائی سکول میں استاد تھے۔ میری ابتدائی تعلیم انہی کے زیرِ سایہ ہوئی۔ ان کی یہاں تبدیلی ہوئی تو میں بھی شادی خان آ گیا۔ آٹھویں جماعت میں داخلہ لیا اور پھر میٹرک بھی یہیں سے کیا۔ گیارہویں جماعت کے لیے گورنمنٹ کالج اٹک میں قدم رکھا تو ابتدا میں شادی خان ہی سے آتا جاتا رہا۔ اس بستی میں جو وقت گزرا، اس کی یادوں کی مہک آج بھی محسوس کرتا ہوں۔ انسانی وجود سے لے کر لہلہاتے کھیتوں تک، حسن کی ایسی فراوانی کم ہی دیکھی۔ معلوم ہوتا ہے حسن یہاں کے خمیر میں ہے۔ شادی خان کے لوگ باہر سے جتنے خوش شکل ہیں، اندر سے بھی اتنے ہی خوش دل ہیں۔ زندگی میں حسنِ طبیعت کے انفرادی مظاہر بہت دیکھے مگر اجتماعی بہت کم۔ یہاں فطرت نے اپنا حسن لٹاتے وقت صنف کی تمیز رکھی نہ نسل کی‘ ظاہر کی نہ باطن کی۔ پوری بستی سراپا اخلاق۔ ہم یہاں آئے تو سارا گاؤں میزبان بن گیا۔
وسائل کی یہاں کمی نہیں۔ کم و بیش ہر گھر کے ایک دو افراد کسی ترقی یافتہ ملک میں آباد ہیں۔ بڑے بڑے گھر ہیں اور بہت سے خالی پڑے ہیں کہ مالک کسی دوسرے ملک میں مقیم ہیں۔ ہم گئے تو لوگوں نے اپنے گھروں کی چابیاں ہمارے حوالے کر دیں۔ کرائے کا کوئی تصور نہیں تھا۔ ادب و احترام اس پر افزوں کہ استاد ہیں اور مہمان بھی۔ زمین کی زرخیزی بے مثل۔ سبزہ و شادابی بے انتہا۔ آنکھیں مسلسل ایک دلفریب منظر سے دوچار رہتی ہیں۔ میرا خیال ہے کہ لوگوں کی طبیعت میں جو حسن ہے وہ اس زمین سے کشید کیا گیا ہے۔ ہم بابا شیر خان کے گھر میں رہتے تھے۔ ان کی آباد کھیت تھے۔ طرح طرح کی سبزیاں اور بے شمار۔ میں جاتا تو مجھے اجازت تھی کہ کھیتوں سے جتنی سبزی اور جب چاہوں لے جاؤں۔ یہ صرف بابا شیر خان کی بات نہیں تھی، میرے لیے کسی کھیت کی کوئی باڑ نہیں تھی۔ پانی ایسا شفاف اور وافر کہ جسم کے ساتھ من کی آلودگی بھی دھو دیتا۔ من کے ایسے صاف لوگ، میں نے کہیں اور نہیں دیکھے۔
چھچھ کا علاقہ جغرافیائی طور پر پنجاب میں ہے لیکن پختون کلچر میں گندھا ہوا۔ مقامی آبادی کی زبان پشتو ہے۔ اس کلچر کے مظاہر ادھر ادھر بکھر ے ہوئے ہیں۔ بڑے بڑے حُجرے جو اجتماعی ہیں۔ لوگ یہاں بیٹھتے اور باہمی معاملات مل کر طے کرتے ہیں۔ جس حجرے میں کرنل شجاع خانزادہ کو شہید کیا گیا، میرا بارہا وہاں جانا ہوا۔ یہیں وہ میدان بھی ہے جہاں سردیوں میں عصر سے پہلے والی بال کھیلی جاتی ہے۔ ساتھ ہی گاؤں کی واحد مسجد ہے۔ میں وہیں نماز پڑھتا تھا۔ یہاں کے امام، حافظ صاحب بہت نفیس آدمی تھے۔ وہ بھارت کے ممتاز عالمِ دین مولانا محمد یوسف اصلاحی کے بھائی تھے۔ مشہور کتاب ''آدابِ زندگی‘‘ مدرسۃ الاصلاح کے اسی فرزند کی تصنیف ہے۔ حافظ صاحب کا تعلق شادی خان کے نواحی گاؤں ملاح سے تھا۔ ان کے صاحبزادے حافظ عبیدالرحمٰن صاحب یہاں کے سکول میں پڑھاتے تھے۔ میرے بھائی کے گہرے دوست تھے اور یوں مجھ پہ بھی شفقت کرتے۔ اس خاندان سے تعلقِ خاطر پیدا ہوا اور آج تک باقی ہے۔ میں یہاں کی بزرگ شخصیات کو یاد کرتا ہوں۔ خانزادہ تاج خان، خانزادہ اسد خان اور بہت سے دوسرے۔ میں آج تک ان کو بھول نہیں پایا۔ بہت سے دنیا سے رخصت ہو گئے جن کی مغفرت کے لیے دعاگو ہوں۔
ایسی شانت اور پُرامن بستی میں نے کبھی نہیں دیکھی۔ قدرت کی عطا اپنی جگہ مگر یہاں کے لوگوں میں جو رواداری اور بھائی چارہ ہے، وہ اِن کے اپنے محاسن ہیں۔ مجھے نہیں یاد کہ اپنے قیام کے تین برسوں میں، میں نے یہاں کوئی لڑائی جھگڑا دیکھا۔ اُن دنوں، اس پورے علاقے میں یہی واحد ہائی سکول تھا جہاں میں پڑھتا تھا۔ دوردراز گاؤں کے طلبا یہاں آتے تھے۔ سڑک سائیکلوں سے بھر جاتی۔ عجیب رونق ہوتی جو چھٹی کے وقت تک رہتی۔ معلوم نہیں آج کیا منظر ہے کہ مدت سے وہاں جانا نہیں ہوا۔ ذرا فاصلے پر دریائے سندھ بہتا ہے۔ یہاں کی زرخیزی اسی ہمسائے کی دین ہے۔
شادی خان سے لوٹے کئی سال ہو گئے لیکن اس بستی کی یاد آج بھی دل کو لبھاتی ہے۔ یہاں دھماکے کی خبر سنی تو یوں لگا جیسے میرے اپنے گاؤں پہ حملہ ہو گیا۔ میں نہیں جانتا کہ یہاں شہید ہونے والے کتنے ایسے تھے جو شاید میرے ہم جماعت رہے ہوں۔ کتنے ہوں گے جن کے ساتھ میں لڑکپن میں کھیلا تھا۔ یہ قومی سانحہ میرے لیے ذاتی حادثہ بن گیا ہے۔ شادی خان کی یادوں میں ایک اور یاد کا اضافہ مگر اس بار بہت تلخ اور خون آلود۔ جو زمین اتنی مہربان ہے کہ ایک بیج کے بدلے میں سات سات بالیاں اور وہ بھی دانوں سے بھری لوٹاتی ہے وہاں انسانی لہو بونے کی کوشش کی گئی۔ یہ زمین تو اس بیج سے آ شنا نہیں۔ اگر عالم کا پروردگار اسے گویائی عطا کر دے تو اس کے پاس کتنے ایسے سوال ہوں گے جن کے جواب ہمارے پاس نہیں ہیں۔
چلے تھے ہم امریکہ کو برباد کرنے مگر اپنے ہی ملک کو کھنڈر بنا ڈالا۔ بات ہوئی مسلمانوں کے مفاد کے تحفظ کی اور اپنی ہی قوم کے سر سے چادرِ عافیت اتار دی۔ حیرت ہے کہ لوگ اسے امریکہ کی لڑائی سمجھتے ہیں۔ کیا شادی خان امریکہ میں ہے؟ کیا یہاں امریکی رہتے ہیں؟ یہاں بسنے والے سو فیصد مسلمان ہیں اور بہت اچھے مسلمان۔ یہاں نماز روزے کا کلچر ہے اور منکرات کا کوئی گزر نہیں۔ جنہوں نے اسلام کے نام پر اس بستی کو برباد کیا، کیا انہوں نے سوچا تھا کہ اس کا نقصان کس کو ہو گا؟ امریکہ کو یا مسلمانوں کو؟ کیا یہ سوال ان کے سامنے ہو گا کہ اس فعل کا، وہ اپنے پروردگار کو کیا جواب دیں گے؟ سچ یہ ہے کہ اسی سوال کو ہم کبھی لائقِ اعتنا نہیں سمجھتے۔ جو بات سب سے زیادہ پیشِ نظر رہنی چاہیے وہی سب سے زیادہ نظر انداز ہوتی ہے۔ آدمی کا معاملہ بھی عجیب ہے۔ خدا کے نام پر خدا کو دھوکہ دینا چاہتا ہے۔ وہ نہیں جانتا کہ دراصل وہ اپنے آپ ہی کو دھوکہ دیتا ہے۔
شادی خان کا واقعہ کیا آنے والے جمعہ کے خطبات کا موضوع بنا ہو گا؟ خود چھچھ کے علاقے میں کتنی مساجد ہوں گی‘ جہاں اس کے مضمرات پر بات ہوئی ہو گی؟ کسی مدرسے پر چھاپہ پڑ جائے تو پورے ملک کے مدارس اور مذہبی جماعتیںسراپا احتجاج بن جاتی ہیں۔ کیا کسی وفاق المدارس، کسی تنظیم المدارس یا کسی مذہبی جماعت نے شادی خان کے حادثے پر یومِ احتجاج منانے کا اعلان کیا؟ یہ سب کچھ اسلام کے نام پر ہو رہا ہے، اس لیے یہ سب سے زیادہ مذہبی لوگوں کا کام ہے کہ وہ اس کے خلاف اظہارِ نفرت کریں۔ ان کی خاموشی یا رسمی مذمت سے آخر کیا اخذ کیا جائے؟ میرا احساس ہے ہمارا مذہبی طبقہ ابھی تک مذہب اور سماج کے تعلق سے واقف نہیں۔ یہ غلطی مغرب کا کلیسا کر چکا۔ ان کا انجام مذہبی قیادت کے سامنے رہنا چاہیے۔ 
شادی خان کیا اب پھر ویسا ہی شہرِ امن بن سکے گا جیسے یہ پہلے تھا؟ کیا یہاں کی شامیں اب بھی اسی طرح خوش گوار ہوں گی جیسے پہلی تھیں؟ کیا اب سردیاں اتریں گی تو سرشام والی بال کے نیٹ لگ جائیں گے؟ کرنل شجاع کی یادیں کب تک اس بستی پر اداسی کا چھت بن کر تنی رہیں گی؟ میرے پاس کسی سوال کا جواب نہیں ہے۔ میں تو صرف اتنا جانتا ہوں کہ جب بھی مجھے شادی خان جانے کا خیال ہوا، طبیعت کھِل اٹھی۔ اب جانے کا ارادہ کیا تو دل بوجھل ہو گیا۔ قدم اٹھانا چاہا تو دیکھا کہ دکھوں کا ایک قافلہ بھی ہم رکاب ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں