امین فہیم، یوسف رضا گیلانی اور شاہ محمود قریشی جیسے کردارکہاں جنم لیتے اور کیسے نسل در نسل ہماری گردنوں پہ مسلط رہتے ہیں؟یہ اُس خانقاہی نظام کی عطا ہیں جس کے خد وخال بدل چکے اورجس کی نئی صورت استحصال کی بدترین مثال ہے۔ روحانی،دینی، جذباتی، سماجی، سیاسی اور معاشی استحصال کی کوئی صورت ایسی نہیں جو اس ایک روایت میں مجسم نہ ہو گئی ہو۔علامہ اقبال نے اس خطے کے مسلمان کا نوحہ کہا تھا :
باقی نہ رہی تیری وہ آئینہ ضمیری
اے کشتۂ سلطانی و ملاّئی وپیری
یہی مجاور روحانی رہنما تھے اور دینی بھی۔پھر یہی سیاسی راہنما بھی بن گئے۔جاگیردارانہیں انگریزوں اور پھر اقتدار نے بنا دیا۔اب ہر جماعت پر ان کا راج ہے۔تبدیلی کے نام پر جماعتیں بدل سکتی ہیں،یہ کردار نہیں۔کیا یہاں کے مسلمان کا یہی مقدر ہے؟ کیاان سے نجات کی کوئی صورت نہیں؟
خانقاہی روایت جب تک اپنی اصل اساسات پر کھڑی تھی،بطور حکمتِ عملی اس نے خود کو اقتدار کے ایوانوں سے دور رکھا۔ترغیبات ہر دور میں رہیں لیکن ہماری روایت یہ ہے کہ صوفیا اور عالم اہلِ اقتدار کے قرب سے گریزاں رہے۔اقتدار ان کے ہاتھ آجائے، یہ مقصد اور اس کے لیے کوشش ، ان کے حاشیۂ خیال میں بھی نہ تھی۔ ایسا نہیں تھا کہ وہ اس باب میں اپنی دینی ذمہ داریوں سے غافل رہے۔وہ جانتے تھے کہ ان کا اصل کام انذار ہے۔وہ اربابِ حکومت کوان کی ذمہ داریوں کے بارے میںخبردار کرتے رہے اوردوسرے طبقات کو بھی۔انہوں نے کبھی مسندِ ارشاد کو چھوڑا نہ خانقاہ کو۔جنید بغدادیؒ اورحسن بصریؒ خانقاہ کے نمائندہ ہیں۔امام ابو حنیفہؒ اور امام مالکؒ ہماری علمی روایت کی علامت ہیں۔اقتدار نے ان کے دروازے پرسوالی بن کر دستک دی۔انہوں نے سائل کی بات سنی،مشورہ دیا مگر اپنے گھر داخل ہونے کی اجازت نہیں دی۔ایک تیسری روایت خدمتِ خلق کی ہے۔لوگ رفاہِ عامہ کے کام کرتے ہیں لیکن انہوں نے اسے کبھی سیاست سے آلودہ نہیں کیا۔تزکیہ، علم اور خدمت کی روایات، کامیاب اسی لیے ہوئیں کہ بے لوث تھیں۔ان شعبوں کے لوگ اپنے اجر کے لیے صرف اپنے رب کی طرف دیکھتے تھے۔انہوں نے اپنے مفادات کو نظامِِ سیاست وحکومت اور افراد سے وابستہ نہیں کیا۔
یہ جائز اور ناجائز کا سوال نہیں، یہ فقہی بحث نہیں،اس کا تعلق سماجیات سے ہے۔جب بھی یہ کہا جا تا ہے کہ علما اور مشائخ کو اقتدار کی کشمکش سے دور رہنا چاہیے تومو لانا فضل الرحمٰن ہمیں بتاتے ہیں کہ بنی اسرائیل کی سیاست انبیا کے ہاتھ میں تھی۔پھر خود کو انبیا کا وارث ثابت کرتے اور یوں علما کے لیے سیاست بلکہ اقتدار کے دروازے کھول دیتے ہیں۔اب مو لانا کو انبیا کی سیاست کاوارث ماننے کے لیے ہم قلب وجگر کہاں سے لائیں، لیکن اس سے صرفِ نظر کرتے ہوئے،اس معاملے کو سماجی اعتبار سے دیکھنے کی ضرورت ہے۔اگر اس حدیث کا یہی مطلب ہے جو ہمیں بتایا جاتا ہے تو بدرجہ اولیٰ لازم تھا کہ امام ابو حنیفہؒ اورامام مالکؒ جیسے لوگ سیاست کرتے۔ہم اپنے تجربات دیکھتے ہیں تو
اپنے اسلاف کے فہمِ دین اور للہیت پر اعتماد میں اضافہ ہوتا ہے۔ہمارا مشاہدہ اور تجربہ یہ ہے کہ اقتدار کی سیاست میں شرکت نے محراب ومنبر اورخانقاہ دونوں کے وقارکو بربادکیا۔
مسندِ علم وارشادکے اُن بزعم خویش وارثین اورسجادہ نشینوں کی زندگیاں ہمارے سامنے ہیں جو اقتدار اور دنیاکی کشمکش میں فریق ہوئے اور وہ بھی جو اس سے دور رہے۔ایک وہ ہیں جن کے پیچھے پولیس اور نیب ہیں اوردوسرے مر جعِ خلائق۔ایک استہزا کا ہدف اور دوسرے احترام کے مستحق۔لیکن یہ فرق خواص کے ایک طبقے میں محسوس کیا جا تا ہے۔عامۃ الناس بدستور ان کے حصار میں ہیں۔ان کی عقیدت میں کوئی کمی نہیں آتی۔وہ ووٹ دیتے ہیں اوران کی پر تعیش زندگی کے لیے وسائل بھی فراہم کرتے ہیں۔عوام کے دم سے ان کے لیے اقتدار کے دروازے کھلتے ہیں اور انہی کی عطا سے ان کے عشرت کدے آ باد رہتے ہیں۔اگر عوام میں کوئی شعوری تبدیلی نہیں آتی تویہ کلچر بھی تبدیل نہیں ہوگا۔اگر امین فہیم نہیں ہوں گے تو ان کی جگہ کون لے گا؟ ظاہر ہے ان کا بھائی یا بیٹا۔شاہ محمود قریشی کا وارث کون ہے؟ان کا بیٹا جو گدی نشین ہو گا،خانقاہ میں بھی اور سیاست میں بھی۔خانقاہ مو روثی ہے۔اس کے لیے کسی ریاضت یا سلوک کی منازل طے کرنے کی ضرورت نہیں۔ سیاست کی تربیت البتہ وہ امریکہ سے حاصل کر رہا ہے۔
مجھے حیرت ہو تی ہے جب میں دیکھتا ہوں کہ تبدیلی کی سیاست کر نے والے بھی انہی گدی نشینوں کو سیاسی جماعتوں میں اہم عہدے دیتے ہیں۔روایتی جماعتیں تو ہیں ہی ان کے حصار میں۔اگر تبدیلی کی بات کرنے والے بھی انہی استحصالی قوتوں کو مضبوط کریں گے تو پھر تبدیلی کیسے آئے گی؟ہمارا تجربہ یہ ہے کہ یہ گدی نشین سیاست میں آکر دوسرے استحصالی طبقات کے ساتھ ایک اتحاد بناتے ہیں اور یوں سب مل کر عوام کے وجود سے اپنے اپنے حصے کا گوشت نو چتے اور اس کارِخیر میں ایک دوسرے کے معاون ہو تے ہیں۔ان کے مابین ایک غیر تحریری معاہدہ ہے کہ وہ ایک دوسرے کے منبعِ فیض کو نہیں چھیڑیں گے۔یہ طے شدہ حکمتِ عملی دکھائی دیتی ہے کہ دین کی تعبیر و تشریح روایتی علما کے پاس رہے،خانقاہ پہ ان مجاوروں کا قبضہ رہے اور یہ حصہ بقدرِ جثہ لے کر، اقتدارکے بڑے حصے پر دنیا داروں اور سرمایہ داروں کے حق کو سندِ جواز عطا کریں۔ آخر کوئی وجہ تو ہے کہ بھٹو اور پرویز مشرف جیسے لبرل بھی خانقاہ اور تعبیرِ دین پران طبقات کی اجارہ داری کو چیلنج نہیں کرتے۔ موجودہ دور میں نواز شریف اورعمران خان صاحب بھی اس پر آمادہ نہیں ہیں۔اگر علم، خانقاہ اورسرمایے پر روایتی اجارہ داریاں چیلنج نہیں ہوں گی تو تبدیلی کیسے آئے گی؟
اسی لیے میرا صرار ہوتا ہے کہ سماجی تبدیلی کے بغیر سیاسی جد و جہد سے کسی بڑی تبدیلی کا کوئی امکان نہیں۔اصل تبدیلی عوام کے اندازِ نظرکو بدلنا ہے۔ان کو انسانوں کی ذہنی غلامی سے نجات دلانا ہے۔خدا اور بندے کے مابین براہ راست تعلق کی مضبوطی،اربابِ اقتدارکا عوامی احتساب اورعلم کی دنیا میں دلیل کی حکمرانی کے بغیر خانقاہی نظام، سیاست اور دینی تعلیم کی اصلاح نہیں ہو سکتی۔یہ کام نہیں ہوں گے تو سیاسی تبدیلی بے معنی ہے۔اس کے لیے سماجی تبدیلی ناگزیر ہے۔سماجی تبدیلی شعوری تبدیلی کے بغیرناممکن ہے۔اس کے لیے دو کام ضروری ہیں، تعلیم اور جمہوریت۔تعلیم ہی سے شعور کی گرہیں کھلتی ہیں، جمہوریت سے عوامی احتساب کی راہ کھلتی ہے۔تعلیم رسمی ہوتی ہے اور غیر رسمی بھی۔ریاست رسمی تعلیم کی اصلاح کر سکتی ہے، غیر رسمی تعلیم کی نہیں۔یہ تعلیم ماں کی گود سے ملتی ہے اورمحراب و منبر سے بھی۔جمہوریت صرف ووٹ دینا نہیں ہے، یہ میڈیا اورعدلیہ کی آزادی بھی ہے۔جمہوریت حق و باطل کے پیمانے بدلنے کا نام نہیں،یہ ایک طرزِ عمل ہے جو ذہنی و فکری ارتقا کے دروازے کھولتا اورابنِ آ دم میں اعتماد پیدا کر تا ہے۔یہ اجتماعی بصیرت کے بروئے کار آنے کا نام ہے۔
یوسف رضا گیلانی اور امین فہیم کے خلاف مقدمات پر آپ کو خوش اور پر امید ہونے کا حق ہے‘لیکن اس سوال کا جواب ضرور ذہن میں رکھیں کہ ان کی جگہ کون لے گا۔ریاست اس کرپشن پر گرفت کر سکتی ہے جو قانون کے دائرے میں آتی ہے۔جس کا دائرہ روحانی ہو،ریاست وہاں بے بس ہے۔اس کا احتساب صرف عوامی شعورکر سکتا ہے۔