ستمبرکا سورج نکلتا ہے توہمارے ہرآنگن میں، 1965ء کے شہدا کی یادیں بیدار ہو جاتی ہیں۔قوم کے غیر متنازعہ ہیرو یاد آتے ہیں۔یاد تو میں نے محاورتاً کہہ دیا۔سچ یہ ہے کہ وہ کبھی دل سے جاتے ہی نہیں۔تاریخ کے بعض واقعات پرانے نہیں ہوتے۔وہ حال کا حصہ ہوتے ہیں اور مستقبل کا بھی۔ستمبر 1965ء بھی ہماری تاریخ کا ایک ناقابلِ فراموش باب ہے۔وہ حال بھی ہے اور مستقبل بھی۔
یہ انہی شہدا کی عطا ہے کہ پاکستان آج ایک امرِ واقعہ ہے۔یہ لوحِ زمین پر حرفِ مکرر نہیں۔پاکستان ان شاء اللہ باقی رہے گا۔اس کا دفاع ہم سب پر لازم ہے کہ وطن سے محبت ایک نجیب آ دمی کی پہچان ہے۔دفاع لیکن کوئی مجرد لفظ نہیں۔اس کے تقاضے بدلتے رہتے ہیں۔1965ء میں دفاعِ پاکستان کا مفہوم کچھ اور تھا،آج کچھ اور ہے۔اس فر ق کو جانے بغیر کوئی دفاعی حکمتِ عملی ترتیب نہیں دی جا سکتی۔
جب ہم پاکستان کہتے ہیں تو چند حقائق کا اعتراف کرتے ہیں۔ایک یہ کہ اس کا ایک جغرافیہ ہے۔ دوسرا یہ کہ اس کی ایک تاریخ ہے۔تیسر ا یہ کہ اس کے کچھ دشمن ہیں۔چوتھا یہ کہ اس کے کچھ دوست بھی ہیں۔آج پاکستان کا جغرافیہ وہ نہیں ہے جو 1965ء میں تھا۔تو کیا اس کا یہ مفہوم لیا جا سکتا ہے کہ جغرافیہ کسی ریاست کی ایک غیر پائیدار اساس ہے؟اصولی طور پر مجھے اس سے اتفاق ہے۔تاہم جغرافیہ تاریخی اور زمینی عوامل کی تائید ہی سے تبدیل ہوتا ہے۔آج ہم جو بھی تجزیہ کریں،وا قعہ یہ ہے کہ مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان کا زمینی بُعد ایک ایسی حقیقت تھی جس کے باعث دونوں کا یک جا رہنا مشکل ہو تا۔گورداسپورجب بھارت کاحصہ بن گیاتو اس کے بعدآخری امکان بھی دم توڑ گیا۔آج سوال یہ ہے کہ مو جودہ پاکستان کے جغرافیے میں کیاکوئی ایسا خلا ہے جو اس کی جغرافیائی وحدت کے لیے خطرہ بن سکے؟
پختونستان اب نہیں بن سکتا کہ صوبہ پختون خوا میں بسنے والوں کے مفادات پاکستان کے ساتھ وابستہ ہیں۔ پنجاب کا معاملہ بھی یہی ہے۔ سندھ کے پاس الگ ہونے کا انتخاب مو جود نہیں۔بلوچستان ایران کا حصہ بن سکتا ہے نہ افغانستان کا۔کشمیر البتہ خطرات میں گھرا ہوا ہے۔یہی وہ مقام ہے جہاں سے دشمن نقب لگا سکتا ہے۔چند باتیں واضح ہیں۔ ایک یہ کہ اس کا ایک حصہ بدستور بھارت کے قبضے میں ہے۔دوسرا یہ کہ اس کا ایک بڑا حصہ چین کے ساتھ بھی جڑا ہوا ہے۔تیسرا یہ کہ بین الاقوامی قوتیں،اس سرزمین کے ساتھ اپنے مفادات وابستہ کیے ہوئے ہیں۔کشمیر کے ذریعے چین، بھارت اور پاکستان،تینوں پر نظر رکھی جا سکتی ہے۔مستقبل قریب میں تو اس خطے کی سیاست میں کسی جوہری تبدیلی کا امکان نہیں لیکن مستقبل بعید میں یہ علاقہ کسی وقت بھی ایک آتش فشاں بن سکتا ہے۔امریکہ اس کو اپنے عزائم کے حوالے سے دیکھ رہا ہے۔ چین آج ہمارا دوست ہے لیکن وہ مستقبل کی ایک عالمی قوت بھی ہے۔ عالمی قوتیں ہمیشہ کی دوستی پال سکتی ہیں نہ دشمنی۔ سنکیانگ کی صورت حال چین کے لیے کسی اقدام کی دلیل بن سکتی ہے۔چین کی سرمایہ کاری کو مستقبل بعیدکے حوالے سے بھی دیکھنا چاہیے۔
یہ منظر اگر سامنے رہے توکشمیر کے مسئلے کا الجھائو پاکستان کے حق میں ہے نہ بھارت کے۔بھارت کی قیادت اس غلط فہمی میں ہے کہ اس محاذپرپاکستان کی پسپائی اس کی فتح ہو گی۔یہ پسپائی کبھی یک طرفہ نہیں ہو گی۔1965ء میں جب تک پاک بھارت جنگ ایک محاذتک محدود تھی،عالمی قوتیں بے چین نہیں ہوئیں۔جیسے ہی بھارت نے لاہور کا رخ کیا، یہ قوتیں متحرک ہوگئیں۔اسی طرح1971ء میں جب تک بھارت مشرقی پاکستان میں ہر بین الاقوامی قانون پامال کرتا رہا، کسی نے مداخلت نہیں کی۔ جب اس نے مغربی پاکستان کا رخ کیا، اندرا گاندھی کو واشنگٹن سے تنبیہ آ گئی۔ عالمی قوتیںجغرافیے میں تبدیلی کو ایک حد تک ہی گوارا کر تی ہیں۔ میرا احساس ہے کہ اس وقت کشمیر کے محاذ پربھارت کی فتح عالمی قوتوں کے حق میں نہیں۔اس کا فائدہ،ایک حد تک،پاکستان کو پہنچے گا۔
بھارت کی قیادت بد قسمتی سے ذہنی طور پر پست لوگوں کے ہاتھ میں آگئی ہے۔انہیں عالمی صورتِ حال کا ادراک ہے نہ داخلی حالات کا۔بھارت کے داخلی مسائل کم نہیں۔ذات پات اور غربت کے شکنجے میں پھنسا ہوا کوئی ملک سب سے زیادہ ناپائیدار بنیادوں پر کھڑا ہو تا ہے۔پاکستان کا قیام اس کی سب سے بڑی شہادت ہے۔کانگرس اگر برہمن ذہنیت کے قبضے میں نہ جا تی تو پاکستان کا بننا مشکل ہو جاتا۔محض مذہب کا اختلاف اتنا توانا جذبہ نہیں ہے جو کسی سماج کو توڑ دے۔ایسا ہوتا تو بدھ مت اور ہندو کبھی ایک ساتھ نہ رہ پاتے۔یہ سماجی اور طبقاتی تقسیم اور کسی ایک گروہ کا احساسِ برتری ہے جو معاشروں کو توڑ دیتا ہے۔بھارت ابھی تک اس تقسیم سے بلند نہیں ہو سکا۔چند شہروں میں روپے کی ریل پیل سے جی ڈی پی کی شرح بڑھ جاتی ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ وسائل ساری آبادی میں یکساں تقسیم ہو گئے ہیں۔ مقبوضہ کشمیر میںاگر بھارت سات لاکھ فوج کے ذریعے قبضہ قائم کیے ہوئے ہے تو کسی پیمانے سے یہ اس کی کامیابی نہیں۔ فرض کیجیے کہ اسی نوعیت کا ایک آدھ محاذاور کھل جا تا ہے تو بھارت کی داخلی سلامتی کتنی غیر پائیدار ثابت ہوگی۔ اس پس منظر کے ساتھ اگر وہ پاکستان سے دوستی کے بجائے تصادم کی راہ پر چلے گا تو یہ رویہ خود بھارت کے حق میں نہیں ہے۔
یہی بات پاکستان کے لیے بھی درست ہے۔تصادم کی پالیسی میں ہمارے لیے بھی کوئی خیر نہیں ہے۔اگر بھارت اور پاکستان کی سیاسی و عسکری قیادت دو باتوں کا ادراک کر سکے تو میرا خیال ہے کہ اس خطے کی تقدیر بدل جائے۔ایک یہ کہ کشمیر کے مسئلے پر دونوں مطلوبہ نتائج حاصل نہیں کر سکتے۔اس کے اسباب علاقائی ہیں اوربین الاقوامی بھی۔دوسرا یہ کہ دونوں نے مل کر کشمیر کا مسئلہ حل نہ کیا تو انہیں آج نہیں تو کل بین الاقوامی قوتوں کی بات ماننا پڑے گی اور اس میں دونوں کا نقصان ہو گا۔یہ دونوں باتیں عقلِ عام سے تعلق رکھتی ہیں۔بلیوں کی لڑائی میں بندر کی ثالثی تو ایسی کہانی ہے جو صدیوں سے بچوں کو سنائی جا رہی ہے۔بھارت کے رویے میں حالیہ جارحیت اس خطے کے لیے باعثِ تشویش ہے۔مودی صاحب کو سامنے لانے کا فیصلہ اگرچہ بھارتی عوام نے کیا لیکن اس کی سزا پورے خطے کو مل رہی ہے۔اسی کا نام گلوبلائزیشن ہے۔جارج بش کو صدر امریکی عوام نے بنایا مگر انہیں بھگتا ساری دنیا نے۔
اس پس منظر میں دفاعِ پاکستان کا تقاضا کیا ہے؟کوئی ذی شعور تین باتوں سے انکار نہیں کر سکتا؛دفاعی صلاحیت میں اضافہ،داخلی استحکام اورایک مدبر قیادت۔جب تک مودی جیسے لوگ ہیں،ہم پہلی بات سے صرفِ نظر نہیں کر سکتے۔دیگر دوباتوں کے لیے دلیل کوئی غبی ہی مانگ سکتا ہے۔داخلی استحکام سب کی ذمہ داری ہے۔ سب سے زیادہ اہلِ سیاست کی۔افسوس کہ وہ اس پیمانے پر پورا نہیں اترے۔جو ملک بقا کی جنگ لڑ رہا ہو،وہاں آئے دن دھرنے اور احتجاج کی سیاست کیا کسی سیاسی بصیرت کی علامت ہو سکتی ہے؟رہا معاملہ تدبر کا تو جس ملک میں کوئی باضابطہ وزیرِ خارجہ نہ ہو،جہاں اعلان کے باوجود کوئی قومی بیانیہ ترتیب نہ دیا جا سکے، وہاں کیا توقع رکھی جا سکتی ہے؟
1965ء اور آج کے حالات یکساں نہیں۔ایک بات البتہ تبدیل نہیں ہوئی۔ وہ ہے خارجی دشمن کے خلاف قومی ہم آہنگی۔ اس وحدت کی مو جودگی میں،اس بات کا کوئی امکان نہیں کہ باہر کا کوئی دشمن ہمیں نقصان پہنچا سکے۔فوج کی قیادت پر ایک عمومی اعتماد ہے۔اسی لیے کہتے ہیں کہ دفاعِ پاکستان کے لیے فوج کا غیر سیاسی ہونا لازم ہے۔ 6ستمبر 1965ء کو قوم یکسو تھی۔ الحمدللہ آج بھی یک سو ہے۔اس کو قائم رکھنے ہی میں دفاعِ پاکستان کا راز مضمر ہے۔