میری بیٹی کی عمر بھی کم و بیش اُس بیٹی کی عمر جتنی ہے جوکراچی میں مار ڈالی گئی۔آپ ممکن ہے اسے کوس رہے ہوں اور ساتھ اس لڑکے کو بھی جس نے لڑکی کو قتل کر کے خود کشی کر لی ۔آپ سوچ رہے ہوں گے:کیسا دور آگیا ہے‘ شرم نہ حیا‘ ہمارے دور میں تو ایسا نہیں ہو تا تھا۔اس عمر میں تو ہمیں کسی بات کا پتا نہیں ہوتا تھا۔آج کے لڑکے اور لڑکیاں تو اللہ کی پناہ۔ممکن ہے آپ ٹھیک کہہ رہے ہوں لیکن میں کچھ اور عرض کرنا چاہتا ہوں۔میں تو ان والدین کو کوسنا چاہتا ہوں جن کے گھروں میں ایسے بچے پروان چڑھتے ہیں۔میں اس گود کے بارے میں سوال اٹھانا چاہتا ہوں جس میں ان کا بچپن گزرتاہے۔میں اس آنگن کوشک کی نظر سے دیکھتا ہوں جہاں یہ بچپن میں کھیلتے ہیں۔
کوسنے کو اور بھی بہت کچھ ہے‘ مثال کے طور پر میڈیا۔میں ٹی وی کم دیکھتا ہوں۔انٹرٹینمنٹ تو بالکل نہیں۔لیکن میں جس ماحول میں رہتا ہوں،اس میں بہت سی باتوں سے گریز ممکن نہیں۔گھر میں آتے جاتے، ادھر اُدھر نظر پڑ جا تی ہے۔میرے مشاہدے کی حد تک،نوے فیصد ڈراموں اور پروگراموں کا ایک ہی مو ضوع ہے:ہر کوئی اپنے فیصلوں میں آزاد ہے۔مذہب، روایت، خاندان اور والدین سمیت کسی کو یہ حق نہیں کہ وہ فرد پر کوئی پابندی لگائے۔اس میں عمر کی کوئی قید نہیں۔ سولہ سال کا مطلب ہے کہ آپ خود مختار ہیں۔کون ہے جو زندگی کے بارے میں بنیادی فیصلوں سے آپ کو روک سکے؟سادہ سی بات ہے کہ جب صبح شام یہی تعلیم دی جا ئے گی تو اس کے بعدوہی کچھ ہوگا جس کا مظاہرہ کراچی میں ہوا۔بچوں کا ذہن تو ایک صاف سلیٹ تھا، ہم نے اس پر جو کچھ لکھا،اب وہی پڑھ رہے ہیں۔ اس میں حیرت کیسی؟
پھر ہماری قیادت، جس نے سماج میں جذبات اور احتجاج کا ذہن پیدا کیا۔ہمیں یہ سکھایاگیا کہ اصل چیز ہمارے جذبات ہیں۔جدید اصطلاح میں ہم اسے مطالبات کہتے ہیں۔ہمارے مطالبات ہر صورت میں پورے ہونے چاہئیں۔ اگر ان کی راہ میں کوئی آئین، کوئی قانون ، کوئی اخلاقی قدر جیسا معاہدہ یا وعدہ حائل ہوتا ہے تو ہم اسے ماننے کے لیے تیار نہیں۔اگر کوئی ہمیں اس جانب توجہ دلائے تو ہم اس کے پیچھے پڑ جاتے ہیں۔ 1948ء میں ہمارے کچھ لوگ مقبوضہ کشمیر کی آزادی کے لیے علمِ جہاد لے کر نکل پڑے۔ مولانا مودودیؒ نے توجہ دلائی کہ یہ ان اخلاقی ضابطوں کے خلاف ہے جو ہمیں اسلام نے سکھائے ہیں۔بھارت کے خلاف اعلانِ جنگ کے لیے لازم ہے کہ ہم پہلے اس کے ساتھ اپنے سفارتی تعلقات ختم کریں۔سفارتی تعلق کی حیثیت معاہدے کی ہے۔بھارت کے خلاف ضرور لڑیں مگر پہلے حکومت ان معاہدوں کے خاتمے کا اعلان کرے۔لوگوں نے مان کر نہیں دیا۔ کہا یہ جہادِ کشمیر کے مخالف ہیں‘مو لانا وضاحتیں کرتے دنیا سے رخصت ہوگئے۔ اخلاق اور آداب کی بات کرنے والا، عالم ہو یاسیاست دان‘ لکھاری ہو یا دانش ور، مطعون قرار پاتا ہے۔ حق گوئی ایک قیمت مانگتی ہے‘بہت کم لوگ یہ قیمت ادا کرنے پر تیار ہوتے ہیں۔
میں جب عمران خان پر تنقید کرتا ہوں تو سطحی ذہن اسے اقتدار کی حریفانہ کشمکش کے تناظر میں دیکھتا ہے۔یہ میرا مسئلہ نہیں۔نوازشریف ہوں یا عمران خان، شخصی اعتبار سے مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا۔میں نواز شریف صاحب سے آ خری بار غالباً 2011ء میں ملا تھا۔ غالب خستہ جان سے اُن کی کون سی غرض وابستہ تھی جو ملتے۔اللہ کا شکر ہے کہ مجھے بھی کبھی ان سے ملنے کی ضرورت نہیں پیش آئی۔اسی طرح میں عمران خان سے ماضی کے اچھے تعلق کے با وجود ،سالوں سے نہیں ملا۔عمران پر میرا نقد ہی یہ ہے کہ انہوں نے ہیجان کے اس کلچر کو فروغ دیا، جو آئین، روایت اورنظام کو بے وقعت بنادیتا ہے۔اس کلچر میں اصل چیز میرا 'مطالبہ‘ ہے۔ جسے ہر صورت پورا ہونا چاہیے۔ میرے اطمینان کے لیے یہی کافی ہے کہ میں اسے درست سمجھتا ہوں۔جب محراب و منبر سے یہی تعلیم دی جائے گی ۔جب اخبارات کے صفحات میں یہی لکھا ہو گا‘جب ٹی وی سکرین صبح شام یہی پیغام دے گی تو آپ بتائیں کیا مجھے ان بچوں کو کوسنا چاہیے جنہوں نے ان سب سے اثر قبول کرتے ہوئے جان دی بھی اور لی بھی؟
اس کے باوجود میں سب سے زیادہ والدین کو کوستا ہوں۔میرا احساس ہے کہ میری نسل کے والدین شاید تاریخ کے ناکام ترین
والدین ہیں۔ ذہنی افلاس اورخوف کے مارے ہوئے۔انہیں ایک طرف بچوں کوماڈرن بنانے کا شوق ہے اور دوسری طرف انہیں جدت سے خوف بھی آتا ہے۔وہ چاہتے ہیں کہ ان کے بچے لباس، تعلیم اور زبان کے حوالے سے تو مغرب کے رنگ میں رنگے ہوں لیکن تہذیبی طور پر مسلمان یا مشرقی ہوں۔ ذہنی افلاس کی وجہ سے،وہ نہیں جانتے کہ لباس،زبان اورتعلیم کلچر سے الگ نہیں ہوتے۔یہ پیکج ڈیل ہے۔ اس میں انتخاب کا حق ہمارے پاس نہیں۔زبان سیکھنا اور زبان اپنانا دو مختلف باتیں ہیں۔لباس کا سوچ کی آزادی سے کوئی تعلق نہیں۔سر سید سے زیادہ جدید آ دمی، ہماری تاریخ میںپیدا نہیں ہوا‘ ان کی جدت مگر فکری تھی۔ تہذیبی اعتبار سے وہ اپنی روایت سے کبھی جدا نہیں ہوئے۔میرے نسل کے والدین اس فرق سے لاعلم ہیں‘ خود ابہام کا شکار ہیں اور وہی اپنے بچوں کو منتقل کر رہے ہیں۔
نئی نسل مگر ابہام میں نہیں رہنا چاہتی۔وہ سوال کرتی ہے کہ اگر انسان ہر طرح سے آزاد ہے تو میں اپنے فیصلوں میں آزاد کیوں نہیں؟اگر میرا لباس میری تہذیب کا پابند نہیں اور میرے والدین کو اس پر اعتراض نہیں ہوتا تو شادی بیاہ کے معاملات میں ،میں تہذیب کا پابند کیوں بنوں اوروالدین ان معاملات میں معترض کیوں ہوتے ہیں؟مجھے میرے والدین نے کبھی نہیں بتا یا کہ میںخدا کا بندہ اور اس کی اطاعت کا پابند ہوں۔ اور یہ کہ اصل زندگی آ خرت کی زندگی ہے تو میں کسی ایسی اخلاقی روایت کا پابند کیسے بن سکتا ہوں جو الہام سے ماخوذ ہے؟ میرے والدین جب بھی مجھ سے سوال کرتے ہیں، گریڈ کاپوچھتے ہیں۔ والد سے میری گفتگو کا ایک نکاتی ایجنڈا ہے کہ او لیولز اور اے لیولز کرنے کے بعد مجھے کس یونیورسٹی میں جا نا ہے۔ ملک میں پڑھنا ہے یا ملک سے باہر؟یہ کہ کوئی خدا ہے، میں اس کا بندہ اور اس کے حضور میں جواب دہ ہوں، نہ باپ نے کبھی یاد دلایا نہ ماں نے۔ اس کے بعد کیا اُن کا یہ حق باقی ہے کہ وہ مجھ سے اخلاقیات کا کوئی سوال کریں؟کیا وہ مجھے روک سکتے ہیں کہ میں کس سے ملوں اور کس سے نہ ملوں۔میں کس سے شادی کروں اور کس سے نہ کروں۔باپ اگر گریڈ کے لیے پیسے دیتا ہے تو اسے چاہیے کہ خود کو اس سوال تک محدود رکھے۔اخلاقیات کا سوال وہ تب اٹھائے جب اس نے مجھے اس کا درس دیا ہو۔مذہب کی بات تب کرے جب اس نے مجھے خدا کی کتاب اور اس کے رسولﷺ سے متعارف کرایا ہو۔
میں نے اخبار میں یہ خبر پڑھی تو لرز اٹھا۔ اسی لمحے مجھے اپنی بیٹی کا خیال آیا۔ وہ اس وقت سکول جا چکی تھی۔میں نے اپنے آپ سے سوال کیا:کیا اس نے صبح کی نمازادا کی تھی؟کیا قرآن مجید کا مطالعہ اس کے معمولات کا حصہ ہے؟ کیا وہ جانتی ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ کیوں مبعوث ہوئے؟کیا وہ اماں عائشہؓ کی سیرت سے باخبر ہے؟کیا میں نے اس مو ضوع پر اسے کوئی کتاب لا کر دی؟ سوا ل بڑھتے جاتے تھے اور میری پیشانی پر پسینہ بھی۔'دنیا‘ کی ویب سائٹ میرے سامنے کھلی تھی اورمیں اس بچی کا خط دیکھ رہا تھا۔ایک بیٹی کی آ خری تحریر۔پھر میں کچھ پڑھ نہیں سکا۔دھندلی آنکھوں سے کوئی کیسے پڑھ سکتا ہے؟