قومی ایکشن پلان پرپیش رفت ایک بحث کا مو ضوع ہے۔ اب تو وزیر اعظم نے بھی عدم اعتماد کا اظہار کردیا ہے۔ چودھری نثار علی صاحب ، بلا شبہ حکومت کے سب سے قادرالکلام ترجمان ہیں، مگر ان کی طلاقتِ لسانی (articulation) بھی اس عقدہ کشائی میں کامیاب نہیں ہے کہ اس باب میں حکومت نے اب تک کیاکیا۔
اس قومی منصوبے کے لیے ریاستی اداروں میں جو ہم آہنگی چاہیے تھی، وہ کہاں ہے؟ معلوم ہوتا ہے کہ کہیں نہیں۔ اب تو صاف دکھائی دیتا ہے کہ فوج کی ضرورت صرف ضربِ عضب کے محاذ تک محدود نہیں، ہر شعبے تک پھیل چکی۔ اس کی تازہ ترین مثال دینی مدارس کی قیادت کے ساتھ حکومتی مذاکرات ہیں۔ اس میں آر می چیف کے ساتھ ڈی جی آئی ایس آئی بھی شریک ہوئے۔ اس ملاقات میں کیا ہوا، اتحاد تنظیمات المدارس کے ترجمان، برادرِمحترم مولانا قاری محمد حنیف صاحب جالندھری نے ایک طویل مضمون میں اس کی تفصیلات بیان کر دی ہیں۔ یہ مضمون ہمارے لیے چشم کشا ہے اور حکومت کے لیے عبرت ناک۔ اس مضمون کے چند مختصر اقتباسات سے آپ کو معلوم ہو جائے گا کہ یہ چشم کشا کیوں ہے اور عبرت ناک کیوں؟ ملاحظہ کیجیے:
٭ ''کوائف طلبی کا طریقہ کار انتہائی افسوس ناک اور توہین آمیز ہے۔اس وقت ملک بھر میں بیسیوں قسم کے سروے فارم گردش کر رہے ہیں۔ ہر ایس ایچ اواورڈی پی او نے اپنا الگ فارم تیارکر رکھا ہے۔ بعض جگہوں پر، مدارس کے اساتذہ و طلبا کی بہنوں اور بیٹیوں کے نام اور فون نمبر تک طلب کیے گئے۔ اس بات پر چیف آف آرمی سٹاف نے برہمی کا اظہار کیا اور اپنے سٹاف کو ہدایات جا ری کیںکہ اس بات کا سراغ لگایا جائے کہ اس قسم کی نادانی کا مظاہرہ کس کی طرف سے کیوںکیاگیا ہے؟‘‘ (وزیراعظم یا وزیرداخلہ کے ردِ عمل کا مضمون میں کوئی ذکر نہیں)
٭ '' اس بات پر اتفاق کیا گیا کہ کوائف کے لیے ایک ہی ڈیٹا فارم تیارکیا جا ئے گا اور سال میں ایک یا دو مرتبہ کوائف حاصل کر لیے جائیں گے اور بار بار مدارس کو پریشان نہیں کیا جائے گا‘ بلکہ جس ادارے کو مدارس کے کوائف مطلوب ہوںگے، وہ براہ راست اہل ِمدارس کو پریشان کرنے کے بجائے متعلقہ ادارے سے رجوع کرے گا‘‘۔
٭ ''مو لانا مفتی منیب الرحمٰن نے وفدکی نمائندگی کر تے ہوئے وزیراعظم سے گلہ کیا کہ وفاقی وزیراطلاعات پرویز رشید کا، مدارس کے بارے میں جو بیان سامنے آیا، اس پر ہمیں دلی دکھ ہوا اور اس سے زیادہ اس بات کا افسوس ہوا کہ وزیراعظم نے اس بیان پر اوراس پر آنے والے شدید ردِ عمل کا نوٹس نہیں لیا۔ اس پر وفاقی وزیرداخلہ نے کہا کہ اس بیان کا کوئی جواز نہیں تھا اور اس کا ہمارے پاس کوئی جواب بھی نہیں ہے، اس لیے ہم اس پر معذرت کرتے ہیں‘‘۔
اس اقتباس سے یقیناً آپ جان گئے ہوںگے کہ میں نے اسے حکومت کے لیے عبرت ناک کیوںکہا۔ اس مضمون سے پہلی ہی نظر میں یہ تاثر ملتا ہے کہ 'ملزم‘ مدارس نہیں، حکومت ہے۔ وہ معذرت کر رہی ہے اوروضاحت بھی۔ مُنصف آرمی چیف ہیں جو ایک فریق کی شکایت کا نوٹس لے رہے ہیں۔ مولانا نے ہمیں یہ اطلاع بھی دی: ''ایک موقع پر جب یہ کہا گیا کہ اجلاس کو مختصرکیا جائے کیونکہ چیف آف آ رمی سٹاف کی کوئی اور مصروفیت ہے توچیف آف آ رمی سٹاف نے کہا کہ اجلاس جب تک جاری رہے گا، میں اس وقت تک مو جود رہوںگا۔ اجلاس کو ہرگز مختصر نہ کیا جائے‘‘۔ میرا خیال ہے اس میں نشانیاں ہیں آنکھوں والوںکے لیے!
واقعہ یہ ہے کہ اُسی منصوبے پر'قومی ایکشن پلان‘ کا اطلاق ہوتا ہے جس میں ریاست اور سماج کے تمام اداروں میں باہمی ہم آہنگی کو واضح کیا جاتا ہے اور ان کے دائرہ کار کا بھی تعین ہو تا ہے۔ اسی لیے ایکشن پلان پر مقدم، قومی بیانیہ ہوتا ہے جو یہ کام کرتا ہے۔ اس بیانیے کے نہ ہو نے کے باعث مدارس کو یہ جائز شکایت پیدا ہوئی کہ ریاست کے مختلف ادارے اپنے طور پر کوائف اکٹھے کر رہے ہیں اور ریاست ابھی تک یہ طے نہیں کر سکی کہ رجسٹریشن کے لیے فارم کیسا ہوگا۔ یہی نہیں، ابھی تک تو یہ بھی معلوم نہیںکہ یہ کام حکومت کاکون سا محکمہ کرے گا۔ اس فکری پراگندگی کا یہ عالم ہے کہ مدارس کے بارے میں اجلاس ہو رہا ہے اورحکومت کا اپنا ادارہ 'مدرسہ بورڈ‘ جو اس کام کے لیے بنا ہے، وہ اس عمل کا حصہ ہی نہیں ہے۔ اس کے چیئرمین کوکسی اجلاس میں شریک نہیںکیا جا رہا۔ اس ذہنی انتشارکے نتیجے میں جب معاملات الجھ جاتے ہیں تو آر می چیف کو بلا لیا جا تا ہے۔ اس کے بعد حکومت کے حصے میں کیا رہ گیا۔۔۔۔نندی پورکا سکینڈل یا ایک ادارے میں چارارب روپے کا فراڈ؟
حکومت کا دائرہ کار دکھائی یہ دیتا ہے کہ سکڑتا چلا جا رہا ہے۔ میڈیا میں جاری بحث کو دیکھیے تو وزرا ہر چینل پرکٹہرے میںکھڑے دکھا ئی دیتے ہیں۔کوئی پی ایس اوکے معاملے میں وضاحت دے رہا ہے،کوئی نندی پور پر معذرت پیش کر رہا ہے، وزیراعلیٰ نااہلی کے کسی واقعے پر نوٹس لے رہے ہیں۔ سوائے میٹروکے، کسی موضوع پر گفتگو'اقدامی‘ نہیں، ہر جگہ وضاحت ہے یا ندامت۔ میٹروکا حال بھی سن لیجیے۔ ابھی جمعہ جمعہ آٹھ دن نہیں ہوئے افتتاح کو اور اسلام آبادکے بلیو ایریا میں ساری سڑک کھدی پڑی ہے۔گویا انتشارِ فکر صرف قومی ایکشن پلان ہی تک محدود نہیں، ہر جگہ پھیلا ہوا ہے۔ حسنِ کارکردگی کا ایوارڈ پانے والے یہ بھی نہیں جانتے تھے کہ اس منصوبے کو ایک مہینے بعد کیا مسئلہ درپیش ہو سکتا ہے۔کوئی ہے جو ان کا حتساب کرے؟ ہر طرف سے تاثر یہ ملتا ہے کہ اگر کوئی کام کر رہا ہے تو وہ فوج ہے۔ حکومت موج کر رہی ہے یا وضاحت۔
اس کے ساتھ احتجاج کی ایک لہر ہے۔ اس پر حکومتی ردِ عمل سے واضح ہے کہ وہ صرف احتجاج ہی کی زبان سمجھتی ہے۔ ڈاکٹرز تین دن سڑکوں پر رہے، پھر ان کے مطالبات مان لیے گئے۔ اگر یہ مطالبات جائز تھے تو انہیں احتجاج کی ضرورت کیوں پیش آئی اوراگر ناجائز تھے تو مانے کیوںگئے؟ اس وقت اگر شمارکیا جائے، ان طبقات کی تعداد تشویش ناک ہے جو اس وقت سڑکوں پر ہیں۔ میری حیرت کی انتہانہ رہی کہ پنجاب میں ریستورانوں پر چھاپوں کی شہرت رکھنے والی خاتون افسرکو وزیر داخلہ نے اسلام آباد طلب کیا۔ کیا مرکزی حکومت اور پنجاب کے پاس صرف ایک افسر ہے جو دیانت دار اوراہل ہے؟ یہ اس بات کا اظہار ہے کہ گورننس کے باب میں بہت خلا ہے۔ اس خلاسے جوکچھ چھن چھن کر باہر آ رہا ہے، وہ حکومت کے لیے باعث ِ تشویش ہونا چاہیے۔ حالات میں واضح طور پر بہتری آ چلی تھی کہ لگتا ہے باگ ہاتھ سے نکلے جا رہی ہے، حکومت بہتری کاکریڈٹ کھوتی جا رہی ہے۔
احتساب حکومت کی روح ہے۔ یہ ایک مسلسل عمل ہے۔ حکومت اوراہلِ سیاست کا بڑا انحصار ساکھ پر ہوتا ہے۔ دھرنے کی قضیے میں اگرحکومت سرخرو رہی تو اس کی وجہ یہ تھی کہ دھرنے کی کوئی اخلاقی بنیاد نہیں تھی۔ حکومت کو اگر اپنی مدت پوری کرنی ہے تو اس کا انحصار اس کی ساکھ پر ہے۔ یہ دیانت اور حسنِ کارکرد گی سے عبارت ہے۔ یہ اچھا ہے کہ وزیراعظم نے نندی پورکے سکینڈل کا نوٹس لیا۔ قومی ایکشن پلان کے بارے میں بھی حکومت کو سوچنا ہوگا کہ خاکم بدہن،اس کی ناکامی ایک قومی المیے کا سبب بن سکتی ہے۔ یہ بات اس پر واضح ہونا چاہیے کہ حکومت کے دائرہ کارکا سکڑنا اس کے لیے نیک شگون نہیں ہے۔