آرمی چیف کی مقبولیت سے کیا ایک منتخب وزیراعظم کو خائف ہو نا چاہیے؟ کیا دونوں ایک دوسر ے کے حریف ہیں؟ آرمی چیف کی مقبولیت ہر پاکستانی کے لیے باعثِ مسرت ہے۔ اس منصب کا تقاضا ہے کہ پوری قوم مسلکی و سیاسی وابستگی سے ماورا ہوکر اپنے سپہ سالار کا احترام کرے اور اس سے محبت بھی۔ وہ ایک ایسے ریاستی ادارے کا سربراہ ہے جسے قوم نے ملک کے دشمنوں سے نمٹنے کی ذمہ داری سونپی ہے۔ فوج کے جوان جب اس کام میں اپنی جان تک قربان کردیتے ہیں تو قوم کے دلوں میں امر ہو جاتے ہیں۔ ان کے معاملے میںقوم، مذہب، رنگ و نسل اورمذہبی و سیاسی وابستگی سے بلند ہو جا تی ہے۔ وہ سب کے غیر متنازعہ ہیرو ہو تے ہیں۔ ایسے جان نثاروںکے گروہ کا سپہ سالار بھی ان ہی کی طرح لوگوں کے دلوں میں بستا ہے۔
اگر یہ مقدمہ درست ہے تو سوال یہ ہے کہ جنرل یحییٰ خان، جنرل ضیاء الحق اور جنرل پرویز مشرف پر اس اصول کا اطلاق کیوں نہیں ہوا؟ یہ متنازعہ کیوں ہیں؟ یہی نہیں، ان میں سے بعض تو غیر متنازعہ طور پرمجرموں کی فہرست میں شامل ہیں جیسے یحییٰ خان۔کیا یہ استثنا اس اصول کی نفی کر رہا ہے؟میں کہتا ہوں کہ یہ استثنا دراصل اس اصول کی شرح ہے۔ اس سے یہ طے ہو تا ہے کہ اس منصب کاحامل کیوں پوری قوم کے لیے عزت و احترام کا مستحق ٹھہرتا ہے۔ اس سے معلوم ہو تا ہے کہ یہ استحقاق دوشرائط کے ساتھ مشروط ہے۔ ایک پیشہ ورانہ مہارت اور دوسراغیر سیاسی طرزِ عمل۔ اس منصب کا حامل، جب جنگ کے ماحول میں اپنے عشرت کدے میں دادِ عیش دینے کے بجائے، جنرل راحیل شریف کی طرح، دشمن سے نبرد آزما سپاہیوں کے ساتھ ا گلے مورچوں میں، بیدارو توانا کھڑا ہو تا ہے تو فوجی جوان ہی کا نہیں، ایک عام شہری کا دل بھی اطمینان سے بھر جا تا ہے۔ اس کا ناگزیر نتیجہ احترام ہے۔
اسی طرح جب اس کے نہاں خانۂ دل میں اقتدار کی خواہش کے لیے کوئی جگہ نہیں ہو تی اوروہ ہر ترغیب اوراپیل سے صرفِ نظر کرتے ہوئے، ایک فوجی کی شان کے ساتھ اپنے منصب سے الگ ہو تا ہے تو پھر اس کی ملازمت ختم ہو جاتی ہے، اس کا احترام نہیں۔ وہ لوگوں کے دلوں میں زندہ رہتا ہے،ایک خوش گوار یاد بن کر۔ میں نے ذہن پر زور دے کر اس کی مثال تلاش کی تو جنرل محمد موسیٰ ہی کانام مل سکا۔ اس کے برعکس مثالوں کی البتہ کمی نہیں تھی۔ ان سے سلبی طور پر یہی مقدمہ ثابت ہوتا ہے کہ اقتدار کی خواہش سے آزادی، اس منصب کے حاملین کے ساتھ غیر متنازعہ محبت کی لازمی شرط ہے۔
اس پس منظر میں، کوئی وجہ نہیں کہ ایک منتخب وزیراعظم ایک آ رمی چیف کی مقبولیت سے خوف زدہ ہو۔ خوف تو کسی حریف سے ہوتا ہے۔ اگر ایک آرمی چیف اس کھیل کا کھلاڑی ہی نہیں تو خوف کیسا؟ شاہد آفریدی کو محمد حفیظ سے خوف ہو سکتا ہے، اعصام الحق سے نہیں۔ نوازشریف صاحب کوکسی سیاست دان سے خائف ہو نا چاہیے جوان کی جگہ لے سکتاہے، آرمی چیف سے نہیں۔ میرا خیال ہے انہیں اس بات کا اندازہ ہوگا۔ اگر وہ بطور وزیراعظم حسنِ کارکردگی کا مظاہرہ نہ کر سکے تو آئندہ انتخابات میں عوام، ان کی جگہ کسی دوسرے راہنما کو منتخب کر لیں گے۔ اسی طرح جب آرمی چیف کی مدت ِ ملازمت پوری ہو گی تو ان کی جگہ فوج ہی میں سے کوئی لے گا۔ نوازشریف تو آر می چیف بننے سے رہے۔
اگر معاملے کی نوعیت یہی ہے توپھر یہ تقابل کیسا؟ سیاسی تجزیوں میں دونوں کو ایک دوسرے کا حریف ثابت کرنے کی کوشش کیوں ہے؟ ایک کی کارکردگی کو دوسرے کی ناکامی کیوں تصور کیا جا رہا ہے؟ دونوں کا دائرہِ کار الگ اور آئینی ذمہ داریاں مختلف ہیں تو پھر یہ مسابقت کیسی؟ میرے نزدیک یہ اس بات کا اظہار ہے کہ ہم میںسے بعض لوگ، جمہوریت کی طرف مراجعت کے باوجود، ابھی تک اپنے تاریخی تجربا ت کے حصار سے نہیں نکل سکے۔ وہ اب بھی فوجی حکومت کو سیاسی وجمہوری حکومت کاایک جائزمتبادل سمجھتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ ایک منتخب وزیراعظم اگر ناکام ہو تا ہے تو اس کی جگہ کسی سیاست دان کو نہیں، کسی آرمی چیف کو لینی چاہیے۔یہ وہی ذہن ہے جو ضیاء الحق صاحب کی آمد پر مٹھائیاں بانٹتااور یہ خیال کرتا ہے کہ قوم کو نیا 'امیر المومنین‘ مل گیا۔ اگر یہ لوگ ذہنی ارتقا سے گزرتے تو 2015 ء تک ،انہیںیہ ضرور سمجھ لینا چاہیے تھا کہ ایک منتخب حکمران کا متبادل غیر منتخب آ دمی نہیں، کوئی نیا منتخب راہنما ہی ہو سکتا ہے۔کم ازکم اس میں یہ گنجائش تو ہوتی ہے کہ آپ اسے منصب سے الگ کر سکتے ہیں۔ ضیاء الحق صاحب اور مشرف صاحب کے تجربات سے یہ بات پوری طرح ثابت ہوچکی۔
ایسے لوگوں کو یہ بات بھی جاننا چاہیے کہ فوج اس وقت آپریشن ضربِ عضب کے نام سے جو قومی خدمت سرانجام دے رہی ہے، اس کا مینڈیٹ اسے منتخب عوامی حکومت نے دیا ہے۔ یہی نہیں، اس حکومت نے اس فیصلے میںتمام سیاسی قیادت کو بھی شریک کیا۔ یوں تمام پارلیمان اس آپریشن کی پشت پر کھڑی ہے۔ فوج کو ن لیگ ہی کا نہیں، پیپلزپارٹی اور تحریکِ انصاف سمیت سب سیاسی جماعتوں کا اعتماد حاصل ہیں۔ اسی وجہ سے جنرل راحیل شریف کسی ایک سیاسی جماعت کے نہیں، پوری قوم کے مقبول آرمی چیف ہیں۔ مجھے حیرت ہوئی کہ آرمی چیف نے 6 ستمبر کی تقریر میں، آپریشن کا ساتھ دینے پرمیڈیا کا شکریہ ادا کیا لیکن سیاسی قیادت کا نہیں حالانکہ سیاسی جماعتوں کے راہنما، اظہارِیک جہتی کے لیے اس تقریب میں بھی موجود تھے۔
آج دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستانی قوم فوج کی پشت پرکھڑی ہے۔ فوج نے یہ قدم تنہا نہیں اٹھایا۔ فوج نے اپنے جن جوانوںکو قربان کیا ہے، انہیں اس قوم کی مائیں پالتی اور اس قربانی کے لیے تیار کرتی ہیں۔ یوں فوج اور قوم ایک ہی وجود کے حصے ہیں۔ سیاسی جماعتوں کے راہنما اور کارکن بھی اسی قوم کا حصہ ہیں۔ اہلِ سیاست اور فوج کو ایک دوسرے کا متبادل یا حریف ثابت کرنا قوم کو تقسیم کر نا ہے۔ آئین اور انسانی تجربے سے ہمیں یہی معلوم ہوا کہ قوم اپنی بقا کے لیے مختلف افراد کو مختلف ذمہ داریاں سونپتی ہے۔ جب سب اپنے اپنے حصے کاکام کرتے ہیں تو قومی وجود توانا رہتا ہے۔ اگر قوم یہ سمجھتی ہے کہ ایک حصہ اچھی کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کر پایا تو وہی اس شعبے کے دوسرے افراد کو سامنے لے آتی ہے۔ چونکہ یہ فطری ہے کہ کسی منصب پر کسی وجہ سے کوئی نااہل بیٹھ جائے تواس کا طریقہ طے کر دیا جاتاہے کہ اسے کیسے تبدیل کرنا ہے۔ یہ خدمت عام طور پر آئین سرانجام دیتا ہے۔ ایسا نہیں ہوتا کہ اٹارنی جنرل کو اگر بدلنا ہے تو اس کے لیے قانون کے بجائے،کسی دوسرے شعبے سے کوئی فرد تلاش کیا جا ئے۔
آج پاک فوج اُس ذمہ داری کو بحسن و خوبی سرانجام دے رہی ہے جو قوم نے منتخب نمائندوں کی معرفت، اسے سونپی ہے۔ پوری قوم کے دل میں جنرل راحیل شریف اور فوجی جوانوں کے لیے بے پناہ محبت ہے۔ وہ لوگ دراصل اس محبت پر ڈاکہ ڈالنے کے مرتکب ہیں جو راحیل شریف صاحب کو نواز شریف صاحب کا حریف ثابت کرنا چاہتے ہیں۔ یہ ایک غیر متنازعہ اور محترم شخصیت کو متنازعہ بنا نا ہے۔ راحیل شریف صاحب کی عزت نوازشریف صاحب کی عزت ہے۔ نوازشریف صاحب میرا خیال ہے کہ ایسا ہی سمجھتے ہیں۔ اگر نہیں تو انہیں ایسا سمجھنا چاہیے۔ اگر شہباز شریف عائشہ ممتاز کی مقبولیت سے خائف ہونے لگیں تو پھران کی جگہ وزیر اعلیٰ ہاؤس نہیں، ان کا گھرہے۔