"KNC" (space) message & send to 7575

منیٰ کا حادثہ،مسئلہ جبر اور سیاست

کیامنیٰ کا سانحہ مسلمانوں کے باہمی اختلافات کی دھند میںکھو جائے گا؟کیا یہ تقدیر کا لکھا تھا؟کیا ہم اس واقعے کا، بطور حادثہ، تجزیہ کرنے کی صلاحیت نہیںرکھتے؟
یہ محض اتفاق ہے کہ جس دن یہ حادثہ ہوا، اُسی روز' انٹرنیشنل نیویارک ٹائمز‘ میں ایک مضمون شائع ہوا جو اسی سوال کو موضوع بناتا ہے۔مسلمان ہر واقعے کو تقدیر کا لکھا قرار دیتے ہیں اوراس سے ان کی مراد یہ ہوتی ہے کہ اِس کا عالمِ اسباب سے کوئی تعلق نہیں۔اس مضمون میں کرین کے حادثے کو بنیاد بناتے ہوئے،یہ بتا یا گیا کہ پہلی بار اس نوعیت کے واقعے کی تحقیقات ہوئیں تو معلوم ہوا کہ اس کی ذمہ دار تعمیراتی کمپنی ہے جس نے ان حفاظتی ہدایات کا خیال نہیں رکھا جن کا احترام اس پر لازم تھا۔مضمون نگار یوں متوجہ کرتا ہے کہ عالمِ اسلام میںہر معاملے کو قسمت اور تقدیر کا لکھا قرار دینے سے خود احتسابی کی روایت آگے نہیں بڑھی اور یوں ایسے حادثات کا اعادہ ہوتا رہتا ہے۔ اس کے برخلاف جدید دنیا میں عالمِِ اسباب میں جھانکا جاتا ہے اوریوں آنے والے دنوں میں حادثات کی تکرار نہیں ہوتی۔مضمون کا عنوان ہے:'اسلام کا المناک فلسفۂ جبر‘(Islam's tragic fatalism) ۔
بدقسمتی سے منیٰ کے حادثے کے بعدبھی اسی فلسفۂ جبرکی صدائے بازگشت سنی گئی۔سعودی عرب کے مفتی اعظم شیخ عبدالعزیزبن عبداللہ نے حج کمیٹی کے سربراہ شہزادہ محمد بن نائف سے کہا:''جو امور انسانی بس میں نہیں ہیں،اُن کے لیے آپ کو الزام نہیں دیا جا سکتا۔قسمت اور تقدیر کے لکھے کو ٹالنا ناممکن ہے۔‘‘سب مسلمانوں کا اس پر اایمان ہے لیکن سوال یہ ہے کہ کس واقعے پر اس کا اطلاق ہوتا ہے اور کس پر نہیں؟اگر اس کوبلا امتیاز مان لیا جائے تو پھر دنیا اور آخرت میں جواب دہی کا قانون بے معنی ہو جاتا ہے۔تقدیر کے معاملات مالکِ تقدیر پر چھوڑتے ہوئے،ہمیں اپنی ذمہ داری ادا کرنا پڑے گی۔ کرین کے حادثے کو بھی تقدیر پر چھوڑا جا سکتا تھا،مگر شہزادہ سلمان بن عبدالعزیزالسعود نے تحقیقات کا حکم دیا۔ تعمیراتی کمپنی کو بلیک لسٹ قرار دیا۔تحقیقات سے ثابت ہوا کہ یہ حادثہ انسانی غفلت کا نتیجہ تھا۔ 
جبر وقدر مذہب اور فلسفے کے معرکتہ الآرا مضامین میں شامل ہے۔ایک کالم میں اس کی گتھیاں سلجھائی نہیںجا سکتیں اور میں اس کی صلاحیت بھی نہیں رکھتا۔ہمیں دیکھنا یہ ہے کہ اس فلسفے کو ہم رویہ نہیں بنا سکتے۔جبر کی سرحد وہاں سے شروع ہو تی ہے جہاں انسانی اختیارکی سرحد ختم ہو تی ہے۔ یہ ہم نہیں جانتے کہ اختیار اور کوشش کی یہ حد کہاں تک ہے۔یوں ہم تادمِ مرگ کوشش کے پابند ہیں۔مریض کی سانس جب تک آ جارہی ہے، ڈاکٹر کا اختیار ختم نہیں ہوتا۔ وہ کوشش کا پابند ہے۔وہ موت کا فیصلہ نہیں کر سکتا۔موت کا فیصلہ عالم کا پروردگار کرتا ہے ا ور یہاں سے جبر کا آغاز ہو جا تا ہے۔منیٰ میں حادثہ کیوں ہوا؟نائجیریا کی حکومت اس بات کو قبول کرنے پر آمادہ نہیں کہ اس کے حجاج اس کے ذمہ دار ہیں۔اس لیے لازم ہے کہ اس کو تقدیر کا معاملہ قرار دینے سے پہلے عالمِ اسباب میں اس کی وجوہ تلاش کی جائیں۔ 
انتظاماتِ حج کے باب میں سعودی حکومت کی کارکردگی غیر معمولی ہے۔حجاج کو سہولتیں فراہم کر نے کا کام مسلسل جاری رہتا ہے اوراس میں شبہ نہیں کہ حج آسان سے آسان تر ہور ہا ہے۔اس کے باوجود یہ ایک انسانی کاوش ہے جس میں اصلاح کا امکان ہر وقت باقی ہے۔حجاج کی غلطیاں اپنی جگہ لیکن میرا خیال ہے کہ منیٰ جیسے حادثات متقاضی ہیں کہ ان کی تحقیقات ہوں۔ان میں علما کے ساتھ گورننس کے ماہرین کوشامل کیا جائے اور اس بات کو ممکن حد تک یقینی بنایا جا ئے کہ مستقبل میں ہم ایسے حادثات سے محفوظ رہیں۔جیسے جمرات کوستون کے بجائے اب دیوار کی صورت دے دی گئی اوراس کی کئی منازل بھی بنا دی گئی ہیں۔قربانی کی عملی مشکلات کو دیکھتے ہوئے،اس معاملے میں بھی اجتہاد کیا گیا ہے۔انسانی جانوں کی حفاظت کے لیے اس عمل کو مزید آگے بڑھایا جا سکتا ہے۔ اس کے ساتھ میرا خیال ہے کہ حجاج کی تعداد میں غیر معمولی اضافہ بھی توجہ چاہتا ہے ۔چونکہ سعودی معیشت کو اس سے غیر معمولی فائدہ ہوتا ہے ،اس لیے حجاج کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہاہے۔اس پر بھی غور کیا جا نا چاہیے کہ سعودی حکومت اتنے افراد ہی کو اجازت دے جس کا انتظام کرنا اس کے لیے ممکن ہے۔ 
اس حادثے پر سارا عالمِ اسلام افسردہ ہے‘ مگر ایرانی حکومت نے جس طرح اسے باہمی سیاست کی نذر کیا ،اسے افسوس ناک ہی کہنا چاہیے۔اس واقعے کو غیر ضروری طور پر اقوام ِ متحدہ میں اٹھا یا گیا۔ میرا خیال ہے کہ اس سے گریز کیا جاتا تو بہتر تھا۔اس حادثے میں جیسے سیاست اور فرقہ واریت کو گھولا گیا ،وہ میرے لیے تو تشویش کی بات ہے۔تاہم اس سے یہ اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ فرقہ واریت اور سیاسی اختلافات کی جڑیں، اس امت کی نفسیات میں کتنی گہری ہیں۔ان کے ہوتے ہوئے امت کو ایک سیاسی وحدت میں بدلنے کا خواب شر مندۂ تعبیر نہیں ہو سکتا۔جو لوگ اس کے اسباب خارج میں تلاش کرتے ہیں، انہیںسعودی عرب اور ایران کی اس چپقلش کا سنجیدگی سے مطالعہ کر نا چاہیے۔ 
ایرانی حکومت نے اس حادثے سے 'فائدہ ‘اٹھاتے ہوئے،اپنا دیرینہ مطالبہ دہرایا ہے کہ حج کے انتظامات عالمِ اسلام کی مشترکہ ذمہ داری قرار دی جائے۔اس مطالبے کی تائیدمشکل ہے۔یہ معاملات کو مزید پیچیدہ بنا نا ہے۔سعودی عرب کی حکومت فی الجملہ ان معاملات کو خوش اسلوبی سے سرانجام دے رہی ہے۔کسی مسلمان ملک کو اگر کوئی شکایت ہے یا اس کے پاس انتظامات کی بہتری کی کوئی تجویز ہے تو اسے سعودی حکومت تک پہنچا یاجاسکتا ہے۔اسی طرح اسے او آئی سی کے فورم پر بھی اٹھا سکتا ہے۔اسے اقوامِ متحدہ کے فورم پر اٹھا نا جگ ہنسائی کا باعث بنے گا۔اگر مسلمان ممالک سیاست اور مذہب کو الگ الگ رکھ سکیں تو اس میں ہی مسلمانوں کا بھلا ہے۔
سیاست اور مذہب کے اس ملاپ سے مسلمانوں کو بہت نقصان ہوا ہے۔ جب ان میں علیحدگی کی بات کی جاتی ہے تو میرے نزدیک اس کا مفہوم یہ نہیں ہو تا کہ سیاست و ریاست ،میں اسلام کی تعلیمات سے راہنمائی نہیں لینی چاہیے یا انہیں فیصلہ کن حیثیت نہیں دی جا نی چاہیے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ سیاسی اور دنیادی معاملات کو دنیاوی طریقے سے حل کر نا چاہیے اور مذہب کو اپنے سیاسی مفادات کے لیے استعمال نہیں کرنا چاہیے۔ بدقسمتی سے بعض لوگ یہ کام ایک ریاست کے اندر گروہی طور پر کرتے ہیں اور بعض اسے ریاستی حکمتِ عملی کا حصہ بنا دیتے ہیں۔جیسے اب حج کے نام پر سیاست ہونے لگی ہے۔حرمین کی تولیت عثمانیوںکے ہاتھ میں ہوگی یا آلِ سعودکے،انہیں اس کا سیاسی فائدہ بھی ہوگا۔انہیں اس سیاسی فائدے سے محروم کر نے کے لیے حج کو سیاست کو موضوع بنا نا افسوس ناک ہے۔ 
منیٰ کا حادثہ ہم سب کے لیے تکلیف دہ ہے۔ہمارے سینکڑوں حاجی ابھی تک لاپتہ ہیں۔ہم اسے تقدیر سمجھ کر خاموش ہو سکتے ہیں۔پھر ہرسال ہمیں ایسے حادثے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ہم اس سے سیاسی فائدہ بھی اٹھا سکتے ہیں۔ اس کے بعد ہمیں تیار رہنا چاہیے کہ مذہب کے مسلمات بھی اختلاف کامو ضوع بن جائیں۔ہم ان باہمی اختلافات کی موجود گی میں امتِ مسلمہ کو ایک روحانی کے بجائے سیاسی وحدت سمجھنے پر اصرار کرسکتے ہیں۔اس کا نتیجہ خوابوں میں رہنا ہے۔فیصلہ اب ہمارے ہاتھ میں ہے۔ 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں