'پاکستان اور افغانستان کا باہمی تعلق بھائیوں جیسا نہیں ہے‘۔اشرف غنی صاحب نے وہ بات زبانِ قال سے کہہ دی جو تاریخ زبانِ حال سے کہتی آئی ہے۔سعودی عرب اور ایران بھی ، باندازِ دگریہی کہہ رہے ہیں۔مشکل یہ ہے کہ ہم نے تاریخ کی بات سمجھی نہ اشرف غنی صاحب کی سمجھ پائیں گے۔
قندوز پر طالبان کا قبضہ پاکستان اور افغانستان کے مابین بڑھتے فاصلوں میں اضافہ کرے گا۔کابل سے واشنگٹن تک، اس 'کامیابی‘ کا سہرا پاکستان ہی کے سرسجے گا۔نتیجتاً اس کا وبال بھی ہمارے سر ہوگا۔یہ تاریخ کا جبر ہے،جس سے نکلنے کی کوئی صورت، معلوم ہوتا ہے کہ ہم تلاش نہیں کر پائے۔کشمیر پر وزیراعظم نواز شریف صاحب کا حالیہ موقف بھی یہ بتا رہا ہے کہ صرف افغانستان ہی نہیں،ہم کسی معاملے میں بھی تاریخ کا رخ موڑنے پر قادر نہیں ہیں۔مزید بد قسمتی یہ ہے کہ دوسری طرف صف آرا بھی اسی جبر کا شکار ہیں۔یہ نریندرمودی ہوں یا اشرف غنی،سب اسی کے اسیر ہیں۔نتیجہ یہ ہے کہ اس خطے کے عوام کوبھی ابھی مزید جبر سہنا ہے۔انہیں افغانستان میںطالبان کے ہاتھوں مرنا ہے یا عالمی قوتوں کی پشت پناہی سے قائم حکومت کے ہاتھوں۔اسی طرح اہلِ کشمیر پاکستان اور بھارت کی باہمی آویزش کی نذر ہورہے ہیں۔دونوں کا دعویٰ ہے کہ دوسرا لائن آف کنٹرول کی خلاف ورزی کررہا ہے۔اس کا فیصلہ جو بھی ہو،ایک فیصلہ تو تاریخ رقم کر چکی۔دونوں اطراف کشمیری مر رہے ہیں۔ان کے پاس اس وقت یہی انتخاب ہے۔وہ بھی اسی تاریخی جبر کے اسیر ہیں۔
انسانی تاریخ کا کہنا ہے کہ دنیا میں قیادت کے منصب پردو طرح کے لوگوںفائز رہے ہیں۔ایک وہ جو تاریخ کے جبر سے آزاد ہوتے ہیں۔ دوسرے وہ جو تاریخ کے جبر کے اسیر ہوتے ہیں۔پہلی صف میں تھوڑے لوگ کھڑے ہیں۔اکثریت دوسری صف میں ہے۔اس لیے ہزاروں سالوں میں تاریخ نے بہت کم رخ بدلا ہے۔اس کادھارا ایک خاص رو میں بہتا اور پھر بہتا چلا جا تا ہے۔سیاست، علوم،فنون،ہر میدان میں یہی عالم ہے۔تاہم ایک خاص وقفے کے بعد انسان کا تہذیبی ارتقاپکار پکار کر تبدیلی کو آواز دیتا ہے۔وہ زبانِ حال سے اعلان کرتا ہے کہ اب پامال راستوں پر مزید سفر ممکن نہیں رہا۔ذہین لوگ اس کی پکار کو سنتے اور یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ تبدیلی کہاں ضروری ہے اور کیوں؟دوسرے تبدیلی کی ضرورت کو محسوس تو کرتے ہیں مگر یہ صلاحیت نہیں رکھتے کہ وقت کی نبض پر ہاتھ رکھ کر، متعین طور پر تبدیلی کا مقام بتا سکیں۔وہ بالفعل تبدیلی کو مان لیتے ہیں مگر ان کا فتویٰ تبدیلی کے خلاف ہی ہوتا ہے۔اس سے شخصیت میں جو تضاد پیدا ہوتاہے ،وہ قوموں کو ابہام کے حوالے کر دیتا ہے اوریوں وہ تاریخ کے قافلے سے بچھڑ جاتی ہیں۔اس خطے کے مکینوں کے ساتھ بھی یہی ہو رہا ہے۔
گزشتہ ساٹھ ستر سال کے عرصے میں، جنوبی ایشیا میں دوبڑے واقعات ہوئے۔ایک برصغیرکی تقسیم اور دوسرا افغانستان پر سوویت یونین کا حملہ۔اس خطے کے کروڑوں عوام ان کے منفی اثرات کی زد میں ہیں۔سوویت یونین تو اس کی قیمت ادا کرکے ایک بھولی بسری داستان بن چکا۔افغانستان پرالبتہ جو زخم لگا، وہ ابھی تک ایسا تازہ ہے کہ اس کی سرزمین انسانی لہو سے مسلسل رنگین ہے۔یہ طالبان کا لہو ہو یا صف کی دوسری طرف کھڑے افغانوں کا،ہے تو انسانی لہو۔اب تو معلوم ہوتا ہے کہ اس زمین کو اگر انسانی لہو نہ ملاتو بنجر ہو جائے گی۔کچھ یہی معاملہ سرزمینِ کشمیر کا بھی ہے۔ہر جگہ فریقین موت کو گلیمرائز کرتے ہیں مگر مردے کو جتنا سرخی پاؤڈر لگا لیں،اس میں روح تو نہیں پھونکی جا سکتی۔آج یہ خطہ پکار پکار کر کہہ رہا ہے کہ اسے تبدیلی کی ضرورت ہے۔ زمین ایک حد سے زیادہ انسانی لہو کا متحمل نہیں ہو سکتی۔ایک وقت آتا ہے کہ وہ اسے اُگل دیتی ہے۔افسوس کہ ابھی یہاں وہ قیادت پیدا نہیں ہوئی جو تبدیلی کی اس پکار کو سن سکے۔
اشرف غنی صاحب کا بیان اور طالبان کی فتح، دونوں اس بات کا اعلان ہیں کہ ابھی امن اس خطے سے بہت دور ہے۔سرحد کے دونوں طرف کوئی ایسا فرد موجود نہیں ہے جو تاریخ کا رخ بدلنے کی خواہش رکھتا ہے یا اس کی صلاحیت۔پاکستان جانتا ہے کہ پشاور میں ہونے والے دونوں انسانیت سوز واقعات میں ملوث لوگ افغانستان میں بیٹھے ہیں۔افغانستان میں لوگوں کی بڑی تعداد یہ سمجھتی ہے کہ وہاں برپا فسادکا ذمہ دار پاکستان ہے۔قومی ریاست کا ایک المیہ یہ ہے کہ ریاست کے موقف کی تائیدہی حب الوطنی ہے۔یوں کوئی خود کو غدار نہیں بنا نا چاہتا۔اس طرح فریقین کا موقف تبدیل نہیں ہوتا اور عوام اس کا کشتہ بنتے رہتے ہیں۔اشرف غنی صاحب سے ہم نے امیدیں وابستہ کیں کہ یہ حامد کرزئی صاحب سے مختلف ہوں گے۔ معلوم ہوا کہ افغانستان کی سیاست کا ایک تقاضا یہ بھی ہے کہ آپ پاکستان کے مخالف دکھائی دیں۔گویا آپ تاریخ کے اسیر رہیں۔اشرف غنی صاحب نے بھی اسی روش کو اپنا لیا ہے۔انہوں نے بتا دیا کہ پاکستان اور افغانستان کے لوگ بھائی نہیں، دومختلف ریاستوں کے شہری ہیں۔اس سے یہ اندازہ بھی ہوتا ہے کہ افغانستان میں اب پاک افغان دوستی کانعرہ سیاسی افادیت کھو چکا۔
اسی طرح کی تبدیلی ہمیں پاکستان میں نوازشریف صاحب کے ہاں بھی ملتی ہے۔1998ء میں ہمیں یہ اندازہ ہورہا تھا کہ شاید یہ وہ آدمی ہے جو اس خطے کوتاریخ کی اسیری سے نکال سکتاہے۔ کچھ ایسا ہی تاثر واجپائی صاحب نے بھی دیا تھا۔آج معلوم ہوا کہ وہ محض ایک خواب تھا۔واجپائی صاحب کی جگہ مودی صاحب نے لے لی اورنوازشریف صاحب نے خود ہی اپنے گزشتہ موقف سے رجوع کر لیا۔اس کا مفہوم اس کے سوا کچھ نہیں کہ ابھی جنوبی ایشیا کو مزید تاریخ کا اسیر بن کر جینا ہے۔یہاں کی سیاسی قیادت تاریخ میں نہیں،اپنے عہد میں جینا چاہتی ہے۔یورپ کی قیادت نے تاریخ میں جینے کا فیصلہ کیا۔آج یورپ عالمی جنگوں کی قید سے آزادہو چکا۔دوسری طرف جنوبی ایشیا کے ساتھ مشرق ِ وسطیٰ بھی تاریخ کا اسیر ہے۔یوں یہ دونوں علاقے اس وقت فساد کا گھر ہیں۔وقت کے سب سے بڑے مقتل یہیں آباد ہیں۔صرف عراق میں،گزشتہ چار سال میں کم و بیش تین لاکھ پچاس ہزار افراد مر چکے۔اس سے پہلے امریکہ کی آمد کے بعد جو لوگ مارے گئے،وہ اس کے علاوہ ہیں۔ جنوبی ایشیا کے مقتولین کی تعداد تو ہم سب جانتے ہیں۔تقسیم ہند کے نتیجے میں مرنے والوں کی تعداد بھی لاکھوں میں تھی۔
اس خطے کو بدلنا ہے تو اسے تاریخ کی اسیری سے نکلنا ہوگا۔پاکستان اور بھارت کو ایسی قیادت کی ضرورت ہے جو اسے 1947ء کی نفسیاتی فضا سے نکال سکے۔قائد اعظم اور گاندھی دونوں یہ نہیں چاہتے تھے کہ یہاں کے لوگ ہمیشہ ایک تلخی کی گرفت میں رہیں۔اگر ایسا ہوتا تو قائد اعظم کبھی باہمی تعلقات کے مستقبل کو امریکہ اور کینیڈا کے تعلقات کے مماثل ہونے کی خواہش کرتے اور نہ سرحد کے پار رہ جانے والے مسلمانوں کوبھارت کا وفادار شہری بننے کو مشورہ دیتے۔اسی طرح گاندھی بھی پاکستان کے اثاثوں کے لیے بھوک ہڑتال نہ کرتے۔
پاکستان اور افغانستان کو بھی سوچناہے کہ انہیں کب تک 1979ء کے واقعات کا اسیر رہنا ہے۔1947ء اور 1979ء کے واقعات میں دو سبق پوشیدہ ہیں جنہیں اب زبانِ قال سے کہا جارہا ہے۔ایک یہ کہ ریاستوں کے باہمی تعلقات بھائیوں کی طرح نہیں ہوتے ۔دوسرا یہ کہ تاریخی واقعات کی ا سیری قوموں کی ترقی میں مانع ہوتی ہے۔جو راہنما،ان اصولوں کی روشنی میں سیاست کرے گا،وہی اس خطے کا مقدر بدلے گا۔اُس وقت تک اشرف غنی اورمودی پر گزارا کریں۔آپ اس فہرست میں حسبِ توفیق اضافہ کرسکتے ہیں۔