امیر المومنین سید نا علیؓ ابن ابی طالب کا ارشاد ہے:
گفتگو کرو تاکہ پہچانے جاؤ
گفتگو کیاہے؟
عرض ِمدعا کے لیے الفاظ کا انتخاب اور ترتیب۔لغت کے ہزاروں صفحات پر پھیلے اَن گنت الفاظ میں سے ،میں چندکا انتخاب کر تا اور پھر انہیں جملے کی صورت بیان کر دیتا ہوں۔یہ لفظوں کاانتخاب اور حسنِ ترتیب میری شخصیت کا اظہار ہے۔یہی انتخاب ہے جومجھے محترم بنا تا ہے ا ور یہی ہے جو رسوا بھی کرتا ہے۔
کھلتا کسی پہ کیوں مرے دل کا معاملہ
شعروں کے انتخاب نے رسوا کیا مجھے
لغت کیا ہے؟الفاظ کا جھاڑ جھنکاڑ۔کہیںگلاب اور موتیا ،کہیں گھاس اور خار۔کہیں چنبیلی کی لبھاتی ڈالیاں اور کہیں دامن سے الجھتی جھاڑیاں۔کوئی چاہے تو اقبال کی طرح لف و نشر مرتب کر ڈالے ؎
مکتب و ملا واسرارِ کتاب
کور مادرز ادو نورِ آفتاب
اور کوئی چاہے توسودا کی طرح ہجولکھ ڈالے۔کوئی منبرِ خطابت پر کھڑا ہو کرابوا لکلام آزاد بن جائے اور کوئی چاہے تو مظہر علی اظہر۔یہ انتخاب انسان کا اپنا ہے۔انسان کو لیکن یاد رکھنا چاہیے کہ اس کی شہرت اورساکھ الفاظ کے انتخاب سے براہ راست متعلق ہے۔گھاس پھوس اورکانٹوں سے شغف رکھنے والے کو یہ گلہ نہیں ہو نا چاہیے کہ اس عطر فروش کیوں نہیں سمجھا جا تا۔
کیا اچھی بات کہی واصف علی واصف نے۔پیغمبر کی بات، باتوں کی پیغمبر ہے۔کوئی دلیل چاہے توزبور میں سیدنا داؤدؑ کے مزامیر اورانجیل میں سیدنا مسیحؑ کے خطبا ت پڑھ لے۔خدا توفیق دے تواحادیث کی کتابوں میں اللہ کے آ خری سول اور نبی، سیدنا محمد ﷺ کے ارشادا ت پر پڑاؤ ڈال دے۔فرمایا: میں عربوں میں سب سے فصیح ہوں۔نفسِ مضمون پر تو کلام نہیں کہ پیغمبر دین کے باب میں خدا کے اذن سے کلام کر تے ہیں،ذکرالفاظ کے انتخاب کا ہے کہ دیکھیے تو دیکھتے جائیے!حسنِ بیان سے حسنِ ذات کاسفر بہت آسان ہو جاتا ہے۔پیغمبر کی ذات کا دروازہ کھلا تو گویا ایمان کا در کھل گیا۔
بدکلامی اور دشنام کو لوگ حق گوئی کہتے ہیں:'چور کو چور نہ کہیں تو کیا کہیں‘؟بظاہرتعلیم سے آراستہ، جب یہ دلیل پیش کر تے ہیں تو حیرت میںڈوب جاتا ہوں۔کیا مہذب معاشروں میںجلسہ ہائے عام میں لگے تقریروں کے ترازویہ فیصلہ سناتے ہیں کہ پاجی کون ہے اور ناجی کون؟کیا شیخ رشید اور عابد شیر علی کو ہم قاضی القضاۃ مان لیں؟اس میں شبہ نہیں کہ عوام کو متنبہ کرنے کے لیے ضرورت پڑتی ہے کہ انہیں غلط اور صحیح کا فرق بتا یا جا ئے۔اہل سیاست اور اربابِ اقتدار کی پالیسیوں پر نقد ہونا چاہیے کہ اسی سے بہتری کا راستہ کھلتا ہے۔یہ کام مگر شائستگی کے ساتھ بھی ہو سکتا ہے۔چور اور قاتل جیسے اسمائے صفت کا اطلاق تو عدالت ہی کر سکتی ہے۔نواب زادہ نصراللہ خان سے بڑھ کر کون ہے جو پاکستان کی سیاست میں حریتِ فکر اوراپوزیشن کی علامت ہو سکتا ہے؟کیا وہ مخالفین کو اسی طرح پکارا کر تے تھے:
یوں پکارے ہیں ہمیں کوچۂ جاناں والے
ادھر آ بے، ابے او چاک گریباں والے
اس کا مگر کیا کیا جائے کہ سیاست و صحافت سماج کا پرتو ہوتے ہیں۔مقبولیت کا تعلق عوامی مذاق سے ہے۔سیاست دان اس سے بے نیاز رہ سکتا ہے نہ لکھنے والا۔سید مو دودی کی مسند پر بیٹھا آد می کہتا ہے:میں حکمرانوں کے گریبان میں ہاتھ ڈالوں گا۔اردولکھنے والوں کا معاملہ بھی یہی ہے۔ان کے معاوضے کا تعین،ان کی مقبولیت سے ہوتا ہے۔یہ سوشل میڈیا کا دور ہے۔اخبارات کے ویب سائٹس پر ،ہرکالم کے ساتھ ایک ترازو لگا ہے۔فیس بک پر کتنوں نے پڑھا ۔ٹویٹ کتنا ہوا۔کالم نگارجب اپنے ذوق کے لحاظ سے موضوع اور اسلوب کاانتخاب کرتا ہے توپسندیدگی کا گراف گر جاتا ہے۔جب عوامی جذبا ت سے کھیلتا اورعقل و دانش کو کچھ دیر کے لیے ایک طرف رکھ دیتا ہے تو گراف اوپر چلا جاتا ہے۔ایک خاص جماعت کا وکیل بن جائے تو گراف اتنا اوپر جاتا ہے کہ آد می حیرت میں ڈوب جا تا ہے۔کچھ ایسا ہی معاملہ ٹی وی ٹاک شوز کا ہے۔جب سیاست اور صحافت ذریعہ معاش ہوں تو کون ہے جو غالب کی طرح میدان ِ صحافت میں ترازو لے کر کھڑا ہو جائے:
جویہ کہے کہ ریختہ کیوں کہ ہو رشکِ فارسی
گفتہ ء غالب ایک بار پڑھ کے اسے سنا کہ ''یوں‘‘
سیاست ذریعۂ معاش نہ بھی توجمہوری معاشرے میں عوامی مقبولیت اس کی ضرورت ہے۔کم لوگ ہوتے ہیں جو اس مقدمے کوتسلیم کرتے ہوئے پہلی توجہ عوامی ذوق کی تبدیلی پر دیتے ہیں۔مو لا نا مودودی عوامی تائید ہی سے برسرِ اقتدار آنا چاہتے تھے۔مگرانہیں معلوم تھا کہ عوام کی ذہنی تربیت کے بغیر صحیح قیادت کا انتخاب ممکن نہیں۔یوں انہوں نے آغازفکری تربیت سے کیا۔اشتراکیت کی تحریک میں بھی ذھن سازی کو بنیاد مانا گیا۔ذوق اور فکر کی تربیت اب اہلِ سیاست کے پیشِ نظر ہے اور نہ اہلِ صحافت کے۔دونوں اپنے' آج‘ میں جینا چاہتے ہیں، آنے والے کل میں نہیں۔حُبِ عاجلہ غالب ہے۔اب عوام کا مذاق بدلنے کے بجائے،اسی پر پورا اترنے کی کوشش ہے۔
انسانی فطرت مگر تبدیل نہیں ہوتی۔ایک ترازو جلسہ ہائے عام میں استوار ہے۔ایک انسان کے اندر بھی لگا ہوا ہے۔اس کی پکار کچھ اور ہے۔ہمارے معاوضے بڑھ رہے ہیں اور جلسوں میں ہجوم بھی مگر سماج کے معیارات خطرات میں گھرے ہیں۔سیدنا علیؓ کے جس قول سے با ت کا آغاز کیا، برسوںپہلے یہ جملہ افتخار عارف کی پہلی کتاب 'مہرِ دونیم‘ کے پہلے صفحے پر لکھا دیکھا تھا۔اسی کتاب میں شامل ایک غزل کاآخری شعرہمارے المیے کو بیان کر رہا ہے
کہاں کا خیر، کیسی حرمتِ لفظ و معانی
میں دنیا میں ہوں اور اسباب ِدنیا چاہتا ہوں