گزشتہ شام سے ایک تسلسل کے ساتھ مینہ برس رہا ہے۔ بوندیں مسلسل گر رہی ہیں۔ کبھی تیزی سے، کبھی دھیرے سے۔ زمین پر چھوٹے چھوٹے دائرے ابھرتے ہیں اور ایک دوسرے میں کھو جاتے ہیں۔ بجلی کی لپک ہے اور بادلوں کی گھن گرج۔ یہ سرما کی پہلی بارش ہے۔ اس بار سردی اچانک آئی ہے، جیسے کوئی چپکے سے کمرے میں قدم رکھے اور آپ دیکھتے ہی چونک اٹھیں۔ شکایت تو بہت تھی کہ اس نے آنے میں تاخیر کی، مگر وہ اس انداز سے آئی کہ اُس کی آمد کے سرور نے شکوے کو شکریے میں بدل دیا، جیسے بارش نے شکایت کو لمحوں میں دھو ڈالا ہو۔ میں نے آگے بڑھ کر سرما کی رت کا استقبال کیا۔ انتظار یقین کے ساتھ ہو تو وصال کی شیرینی گزرے وقت کی تلخی کو بھلا دیتی ہے۔ اہلِ یقین کو مایوسی زیبا نہیں۔ وہ انتظار کی آگ میں سلگتے رہتے ہیں اور اسی کی شعلوں سے امید کا چراغ روشن رکھتے ہیں: ؎
چاہیے خانۂ دل کی کوئی منزل خالی
شاید آ جائے کہیں سے کوئی مہمانِ عزیز
انتظار اور یقین کا باہمی تعلق بہت دلچسپ ہے۔ انتظار یقین سے ہم رکاب ہو تو عقیدہ بن جاتا ہے۔ اہلِ مذہب اس ذائقے سے آشنا ہیں؛ تاہم اس میں یہ خطرہ موجود ہوتا ہے کہ انسان بے عملی کو شعار کر لے، جیسے کسی مسیحا کا انتظار۔ اقبال جیسے دانائے راز اس جانب متوجہ کرتے ہیں۔ عالم کے پروردگار سے بڑھ کر اس بندہ خاکی میں چھپے خدشات سے کون باخبر ہے۔ اس نے آنے والے وقت میں پوشیدہ یقینی امکانات کو آج کی محنت سے مشروط کر دیا۔ قرآن مجید اسی کی یاد دہانی ہے۔ اللہ کے آخری رسول اور نبی سیدنا محمدﷺ کی زبانِ حق ترجمان نے اسے ایک جملے میں سمیٹ دیا۔ فرمایا: ''دنیا آخرت کی کھیتی ہے‘‘۔ یوں انتظار کا رخ عمل کی طرف پھیر دیا۔ آخرت شدنی ہے، مگر یہ سب کے لیے ایک جیسی نہیں ہو گی۔ میرے لیے ویسی ہو گی جیسے اس دنیا میں میرے اعمال ہوں گے۔ آپ کے لیے ویسی جس کی آپ نے تیاری کی۔ جو یہاں بویا جائے گا، وہاں کاٹا جائے گا۔
سیدنا مسیح ؑ نے بھی اسے ایک تمثیل سے بیان کیا۔ دس کنواریاں ہیں جو مشعل لیے دولہا کے انتظار میں ہیں۔ عقل مندوں نے مشعل کے ساتھ تیل لیا۔ جو عقل سے محروم تھیں، انہوں نے اس کا اہتمام نہیں کیا۔ دولہا نے دیر لگائی تو سب سو گئیں۔ آدھی رات شور اٹھا کہ دولہا آ گیا۔ سب نے اپنی اپنی مشعل روشن کی۔ جن کے پاس تیل نہیں تھا، انہوں نے دوسروں سے مانگا۔ ان کے پاس اتنا تیل نہ تھا کہ دو کے لیے کفایت کرتا۔ انہیں مشورہ دیا گیا کہ وہ خرید لائیں۔ وہ تیل لینے گئیں تو اس دوران میں دولہا آ پہنچا۔ جو تیار تھیں وہ شادی کے جشن میں اندر چلی گئیں اور دروازہ بند ہو گیا۔ دوسری تیل لے کر لوٹیں تو دروازے کو بند پایا۔ انہوں نے درخواست کی کہ اے خداوند! ہمارے لیے دروازہ کھول دے۔ جواب ملا: ''میں تم کو نہیں جانتا‘‘۔ کاہلی نے سب امکانات کو برباد کر دیا۔ آخرت یقینی ہے مگر خدا کی بادشاہی انہی کے لیے ہے جو تیاری کے ساتھ انتظار کرتے ہیں۔
یہ معاملہ محض آخرت کے ساتھ نہیں ہے۔ عالم اسباب میں بھی انتظار اور یقین کا تعلق ثابت ہے۔ جو آج محنت کرے گا، اس دنیا میں بھی اس کا مستقبل روشن ہوگا۔ جو ہاتھ پر ہاتھ دھرے منتظر فردا رہے گا، اس کا دامن خالی رہے گا۔ جو محنت کرتا ہے، اسے یقین رکھنا چاہیے کہ وہ سرخرو ہو گا، آج نہیں تو کل۔ تقدیر کو بے عملی کا بہانہ نہیں بننا چاہیے۔ واقعہ یہ ہے کہ مستقبل کے پردے میں امکانات چھپے ہوتے ہیں، جو انہیں تلاش کر لیتا ہے، اس کے لیے آنے والا کل روشن ہو جاتا ہے۔ فرد اور قوم کے لیے یہی پیغام ہے جو کبھی رسولوں کے ذریعے دیا جاتا اور کبھی عقل اور فطرت کے ذریعے بھی، اس کی تذکیر کی جاتی ہے۔
الہام اور عقل دونوں کی راہنمائی میں جب ہم آگے بڑھتے ہیں تو یقین اور انتظار کے قافلے میں دو الفاظ کا مزید اضافہ ہو جاتا ہے: عمل اور صبر۔ عمل کا دوسرا نام تدبیر ہے۔ صبر تدبیر کے نتائج پر نظر رکھنا ہے۔ صبر بے عملی یا بزدلی نہیں۔ اگر ہم نے اپنی عقل اور بصیرت کے مطابق تدبیر کی اور صبر کے ساتھ نتائج کا انتظار کیا تو ہمیں یقین رکھنا چاہیے کہ ہمارا مستقبل روشن ہو گا۔ اس سارے عمل میں شکایت کا کوئی کردار نہیں۔ یہ خارجی نہیں، داخلی معاملہ ہے۔ شکایت اور الزام سے جو کلچر پیدا ہوتا ہے، وہ اس سے بالکل مختلف ہے جو انتظار، یقین، تدبیر اور صبر سے ترتیب پاتا ہے۔ شکایت سے ہم اپنی کامیابی اور ناکامی کو خارجی وسائل سے وابستہ کر دیتے ہیں۔ ہماری توجہ پھر اپنی ذات پر نہیں دوسروں پر ہوتی ہے۔ ہم اپنی ناکامی کے اسباب دوسروں کی سازش میں تلاش کرتے ہیں یا پھر تقدیر میں۔ اس سے منفی اندازِ نظر فروغ پاتا ہے۔ دوسروں پر الزام اور نفرت اس کا حاصل ہے۔ جب سماج ان بنیادوں پر کھڑا ہو جائے تو پھر بے چینی اور اضطراب پھیل جاتے ہیں۔
بدقسمتی سے ہم اسی راہ پر چل رہے ہیں۔ ہر کوئی اپنی ناکامی کا ذمہ دار دوسرے کو سمجھتا ہے۔ کوئی اپنی خامیوں کا جائزہ لینے پر آمادہ نہیں۔ حکومت اپنی نااہلی کا الزام دوسروں کو دیتی ہے کہ فلاں نے کام نہیں کرنے دیا۔ حزبِ اختلاف حکومت کی خامیوں کو تلاش کرتی اور اس پر الزام دھرنے کے مواقع ڈھونڈتی ہے۔ یوں اس کی کمزوریوں پر اپنی سیاست کی اساس رکھتی ہے۔ طالب علم اپنی ناکامیوں کا ذمہ دار نظامِ تعلیم کو سمجھتا ہے اور والدین اپنی کوتاہیوں کا الزام بچوں کو دیتے ہیں۔ یوں ہر کوئی دوسروں کی طرف دیکھ رہا ہے۔ اس کے نتیجے میں کسی کا مسئلہ حل نہیں ہو رہا۔ اس سے سطحی جذبات کی تسکین ہو جا تی ہے مگر سماج کا ارتقا نہیں ہوتا۔
انتظار، یقین، عمل اور صبر سے ترتیب پانے والا معاشرہ اور طرح سے سوچتا ہے۔ وہ اپنی توانائی پر بھروسہ کرتا ہے اور دوسروں کے عیبوں میں اپنی قوت تلاش نہیں کرتا۔ وہ یقین کے ساتھ انتظار کرتا ہے مگر تدبیر اور صبر کو شعار کرتا ہے۔ میرا تاثر ہے کہ الہامی ہدایت کی راہنمائی میں تشکیل پانے والا سماج ایسا ہی ہوتا ہے۔ پیغمبر شخصی تعمیر کی تعلیم دیتے ہیں۔ تزکیہ نفس اسی کا نام ہے۔۔۔۔ اپنے من میں ڈوب کر سراغِ زندگی پانا۔ عقل کی راہنمائی کا نتیجہ بھی اس سے مختلف نہیں۔ خود احتسابی ہی اصلاح کا وہ طریقہ ہے جس پر تجربے کی مہر لگی ہے۔ یہ اشتراکی فکر اور تحریک ہے جس نے تبدیلی کی اساس دوسروں کے ساتھ نفرت پر رکھی۔ تجزیہ درست تھا مگر علاج منفی۔ اسی سے انقلاب کا وہ تصور پھوٹا جس نے تشدد کو ایک جائز حکمتِ عملی کے طور پر متعارف کرایا۔ اس سے مذہبی تحریکوں نے بھی اثر قبول کیا اور یوں اسلامی انقلاب کا تصور تشدد سے آلودہ ہو گیا۔ آج تو معاملہ ہاتھوں سے نکل چکا۔
آج ہمارے سماج کو نئی بنیادوں کی ضرورت ہے۔ انتظار یقین کے ساتھ، مگر اس طرح کہ عمل اور صبر ہم رکاب ہوں۔ شکایت کی کلچر سے اضطراب پیدا ہوتا ہے۔ شکایت نفرت کو ابھارتی ہے۔ صبر کے ساتھ انتظار، شکایت کو شکریے میں بدل دیتا ہے۔ شکر کی نفسیات، نفسِ مطمٔنہ کو جنم دیتی ہے۔ سردی موخر ہو رہی تھی۔ شکایت تھی مگر بارش نے اسے دھو دیا۔ اس کے ساتھ یہ سبق بھی دیا کہ انتظار یقین کے ساتھ ہو تو اس کا انجام خوش گوار ہے۔ گزشتہ شام سے شروع ہونے والے بارش مسلسل برس رہی ہے۔ سردی کو اب آنے سے روکا نہیں جا سکتا۔ بلاشبہ موسموں کے اس الٹ پھیر میں نشانیاں ہیں، ان کے لیے جو غور پر آمادہ ہیں۔