زمین اِس طرح ہلی کہ دل دہل گئے۔زندگی اور موت کا فاصلہ سمٹ گیا۔آج خوف کے ساتھ ذہنوں میں سوالات بھی ہیں۔ زمین میں تھرتھراہٹ کیوں ہوتی ہے؟کیازیرِ زمین کچھ ہے جو اسے چین نہیں لینے دیتا؟یہ سوال ہر زلزلے کے بعد اٹھتے ہیں۔ان کے جواب بھی دیے جاتے ہیںلیکن معلوم ہوتا ہے کہ انسان کا فکری اضطراب کم نہیں ہو رہا۔
تاریخ میںزندگی اور نظامِ کائنات کی دو تعبیرات رائج رہی ہیں۔ ایک طبیعیاتی اورایک مابعد الطبیعیاتی۔طبیعیات بتاتی ہے کہ زمین کی ساخت کیسی ہے۔وہ کیا تبدیلیاں ہیں جو زمین کے توازن پر اثرانداز ہوتی ہیں۔یہ علم اس جستجو میں ہے کہ اِن مؤثرعوامل کا سراغ لگائے ۔اُن قوانین ِفطرت کو دریافت کرے جنہوں نے اس کائنات کوجکڑ رکھا ہے اور ان طبعی اسباب کو جانے جو زلزلے جیسے حادثات کاسبب بنتے ہیں ۔جہاں تک وہ اس قوانین کو دریافت کر پاتا ہے،انسان کو اس طرح کے نقصانات سے بچانے کی سعی کرتا ہے۔دریافت اور تحقیق کی یہ ایک دنیا ہے جو انسان کے شرف اور علم کی فضیلت کا بیان اور شہادت ہے۔ طبیعیات کا علم اس سے آگے نہیں بڑھتا۔اس نے اپنی حدود کا تعین کر رکھاہے۔یہ بات کہ طبیعیات سے آگے بھی کوئی دنیا ہے،یہ علم اس باب میں خاموش ہے۔اس کی کامیابی کا راز بھی یہی ہے کہ وہ اپنی حدود سے واقف ہے۔
ایسی آفات کی ایک تعبیرمابعد الطبیعیاتی بھی ہے۔اس میں بھی دو نقطہ ہائے نظر ہیں۔ایک وہ جوکوئی محکم علمی اساس نہیں رکھتا۔یہ طبیعیات کے علم کی نفی کرتا ہے۔محض روایت کو مانتا ہے کہ پچھلی نسلیں،ان واقعات کی ایسی تعبیر کی قائل رہی ہیں۔اس کے پاس واحد دلیل یہی آبائو اجداد کا عقیدہ ہے۔مثال کے طور پریہ روایت کہتی ہے کہ ایک بیل ہے جس نے زمین کو اپنے ایک سینگ پہ اٹھارکھا ہے۔وہ سینگ تبدیل کرتا ہے تو زمین ہلنے لگتی ہے۔دوسرانقطہ نظر وہ ہے جو خدا کے رسول اور نبی پیش کرتے ہیں۔یہ تعبیر طبیعیات کے علم کی نفی نہیں کرتی۔وہ عالمِ اسباب میں جاری اللہ کی سنت کو مانتی ہے اور انسانی عقل و مشاہدے کی دریافت کو جھٹلاتی نہیں۔وہ اس سے منع بھی نہیں کرتی کہ انسان خود کوایسی آفات سے بچانے کی سعی کرے۔ تاہم وہ انسان کو طبیعیات سے مابعد الطبیعیات کی طرف لے جاتی ہے۔وہ ان آفات کو دلیل بناتی اور انہیںابن آ دم کے لیے ایک بڑے واقعے کی تذکیر کا موقع بنا دیتی ہے۔
کس واقعے کی تذکیر؟قیامت کی۔ایک ایسے دن کی جب اس زلزلے اور سونامی کا حجم بہت بڑھ جائے گاجس کا انسان نے اپنی تایخ میں مشاہدہ کیا۔یہ قیامت صغریٰ جو ہم پر گزرتی ہے،ایک قیامتِ کبریٰ میں بدل جائے گی۔''جس دن زمین اور پہاڑ کانپ اٹھیں گے اور پہاڑ پراگندہ ریت کا تودہ ہو جائیں گے۔‘‘(المزّمل73:14)۔اس کائنات کی ساخت تبدیل ہوجائے گی۔یہ اس عرصہ حیات کے خاتمے کا اعلان ہوگا۔پھر عالم کا پروردگار سب انسانوں کو دوبارہ زندہ کرے گا۔ان سے پوچھے گا کہ انہوں نے یہ عرصہ کیسے گزارا۔ان کے جواب کی بنیاد پران کے مستقبل کا فیصلہ کیا جائے گا۔یہ ہمیشہ کی آسودگی ہو سکتی ہے اور ہمیشہ کی ہلاکت بھی۔گویا یہ آفات تذکیر ہیں قیامت ِکبریٰ کی۔یہ کسی جرم کی سزا نہیں۔تنبیہ اور تذکیر سب کے لیے ہوتی ہے اور سزا صرف مجرموں کے لیے۔
سزا کے لیے اتمام ِحجت لازم ہے۔دنیا کی عدالتیں اس کا اہتمام کرتی ہیں۔یہ کیسے ممکن ہے کہ اللہ کی عدالت حجت قائم کیے بغیر سزا سنائے اوراسے نافذبھی کردے۔اللہ تعالیٰ اس دنیا میں کسی قوم پراتمامِ حجت کے لیے، اس کی طرف اپنا رسول بھیجتا ہے۔تب حق اس طرح ظہور کرتا ہے کہ کسی کے پاس انکار کے لیے کوئی عذر باقی نہیں رہتا۔اس کا فیصلہ بھی وہ خود کرتا ہے کہ کس کے پاس کوئی عذر نہیں ہے۔اس کا استحقاق اسی کو ہو سکتاہے جو دلوں کے بھید جانتا ہے۔ یہی سبب ہے کہ اتمامِ حجت کا فیصلہ رسول اپنے اجتہاد سے نہیں کرتے۔جب اتمامِ حجت ہو جاتا ہے تواللہ تعالیٰ رسول کا انکار کرنے والوں کو عذاب دیتا ہے۔یہ زلزلوں کی صورت میں ہو سکتا ہے اورآسمان سے آنے والی کسی آفت کی شکل میں بھی۔تاہم اس عذاب سے پہلے اللہ تعالیٰ رسول اور اس کے ماننے والوں کو الگ کردیتا ا ور ان کو بچا لیتا ہے۔یہ عذاب صرف مجرموں کے لیے ہوتا ہے اور اس کا فیصلہ بھی خدا کرتا ہے جو قیامت کے دن تمام انسانیت کے لیے جزاو سزا کا ،اسی طرح اپنے علم کی بنیادپرفیصلہ کرے گا۔الہامی ہدایت واضح کرتی ہے کہ جب یہ آفات اللہ کے عذاب کے طور پر نازل ہوتی ہیں تو پھر کوئی انسانی تدبیر انہیں روکنے پر قادر نہیں ہوتی۔
ہمارے رسول سید نا محمد ﷺ اللہ کے آخری رسول تھے۔آپ کی ذاتِ والا صفات اپنے مخاطبین کے لیے اللہ کی حجت تھی۔ختم نبوت کا ایک مفہوم یہ بھی ہے اللہ کا قانو نِ اتمامِ حُجت ،آپ کے بعدکسی پر نافذ نہیں ہوگاکیونکہ اس کا تعلق رسول کی مخاطب قوم سے ہے۔اب حق کے انکار پر کوئی اجتماعی عذاب ،اس دنیا میں نہیں دیا جائے گا۔تاہم تنبیہ کا باب کھلا ہے۔یہ تنبیہ کبھی زلزلے کی صورت میں ہو سکتی ہے اور کبھی سونامی کی شکل میں بھی۔بایں ہمہ،قدرتی آفات ان قوانین ِفطرت کے تحت بھی آتی ہیں جو اس کائنات میں جاری و ساری ہیں۔اللہ نے انسان کو ہدایت کی ہے کہ وہ ا س کائنات کو مسخرکرے۔گویا ان قوانین کو دریافت کرتے ہوئے،نئے افق تلاش کرے۔انسان نے اس جستجو میں بہت طویل سفر طے کیا ہے۔ٹیکنالوجی کاعروج دراصل انہی قوانینِ فطرت کی دریافت اور پھر ان کا اطلاق ہے۔انہی کے تحت وہ بیماریوں پر قابو پاتا اورقحط اور زلزلوں جیسی آفات کے امکانات کو کم کر تا چلا جا تا ہے۔اس کا علم جیسے جیسے آگے بڑھتا ہے، وہ ان قوانین ِفطرت سے آگاہ ہوتا چلا جاتا ہے۔مذہب اس جستجو میں نہ صرف مانع نہیں بلکہ اس کی حو صلہ افزائی کر تا ہے کہ یہ علم اسے خدا کی معرفت عطاکرتا ہے۔
زلزلے،سونامی اور قدرتی آفات کے باب میں یہ اس الہامی ہدایت کا مقدمہ ہے جو اللہ کے رسول لے کر آتے ہیں۔پیغمبروں کی دعوت اصلاً قیامت کی تذکیر اور تنبیہ ہے۔ انسان بھول جاتاہے کہ قیامت برپا ہونی ہے اور اسے اپنے رب کے حضور میں پیش ہو نا ہے۔اُس دن کی یاد دہانی کے لیے،کبھی زمین ہلتی اور کبھی سمندر کی لہریں بے قابو ہو جا تی ہیں۔یہ ایسے واقعات کی ایک عمومی تعبیر ہے۔تاہم یقین کے ساتھ کسی ایک واقعے پراس کا اطلاق مشکل ہے۔یہ بات تو یقینی ہے کہ اللہ تعالیٰ وقتاً فوقتاً متنبہ کرتا ہے لیکن یہ کہنا کہ فلاں واقعہ اس کی تنبیہ ہے ،قیاسی معاملہ ہے۔تاہم یہ بات واضح ہے خدا کی اجتماعی نافرمانی پر عذاب کا دروازہ اب بند ہوچکا۔اس کے لیے اتمامِ حجت لازم ہے اورختم ِنبوت کے بعد،اس کا حق اب کسی کے پاس نہیں کہ وہ ایک واقعے کو اللہ کا عذاب قرار دے۔قرآن مجیدبالکل واضح ہے کہ عذاب کے آنے سے پہلے ،رسولوں کی قوموں کو خبر دار کر دیا جاتا رہا کہ رسول کے انکار کی صورت میں ان کے ساتھ کس طرح کا معاملہ ہوگا۔
آج جو زلزلے یا سونامی آتے ہیں، وہ کسی اجتماعی نافرمانی پر اللہ کا عذاب نہیں۔ایسا ہوتا تو ان کا ہدف کچھ اور مقامات ہوتے۔تاہم اخلاقیات کا ایک عمومی تعلق قانون ِ فطرت سے ہے۔اس سے انحراف کی تعزیریں ہیں۔غیر الہامی روایت، طبیعیات کی دنیا میں اسباب تلاش کر کے رک جاتی ہے۔ مذہب اس کو آگے بڑھاتا،مابعد الطبیعیات سے متعلق کرتا اور اسے تذکیر کے لیے استعمال کرتاہے۔تذکیر ایک ایسے دن کی، جب ہم سب کو اپنے رب کے حضور پیش ہو نا اور جواب دہ ہونا ہے۔اگر زلزلے نہ بھی آئیں تو یہ مقدمہ صرف بعثتِ پیغمبر ﷺ ہی سے پوری طرح ثابت ہے۔