کیا پاکستان میں اردو کا نفاذممکن ہے؟عدالتِ عظمیٰ کافیصلہ آ چکا مگر یہ سوال بدستور جواب طلب ہے۔ایک جواب انور مسعود صاحب کی طرف سے بھی سامنے آیا ہے:
بچو یہ سبق آپ سے کل بھی میں سنوں گا
وہ آنکھ ہے نرگس کی جو ہرگز نہیں سوتی
عنقا ہے وہ طائر کہ دکھائی نہیں دیتا
اردو وہ زباں ہے کہ جو نافذ نہیں ہوتی
کیا یہ اردو کی تنگ دامنی ہے جو مانع ہے؟ کیا وہ اس پر قادر نہیں کہ تمام شعبہ ہائے زندگی میں ابلاغ کی زبان بن سکے؟اردو کی تاریخ اور رفعتوں سے بے خبر ان سوالات کے جواب اثبات میں دیتے ہیں۔ واقعہ یہ ہے کہ اردو زبان نہ صرف اس پر قادر ہے بلکہ ماضی میں وہ اس کے عملی مظاہر پیش کر چکی ہے۔
انگریز یہاں آئے تو ان کے ساتھ انگریزی زبان آئی۔ جدید علوم بھی آئے کہ اُس عہد میں ان علوم کی ایک اہم زبان انگریزی بھی تھی۔ نئی ایجادات کے نام انگریزی ہی میں تھے۔ انگریزوں نے اس ضرورت کو محسوس کیا کہ مقامی آبادی کی زبان جانیں اوراردو دانوں کو بھی خیال ہوا کہ انگریزی میں موجود علوم تک رسائی ہو۔ اس دوطرفہ ضرورت نے ترجمے کا دروازہ کھولا۔ فورٹ ولیم کالج بنا تو اس کا دارالترجمہ بھی قائم ہوا۔ یوں انگریزی اور دوسری مغربی زبانوں کی کتب کا اردو میں ترجمہ کیا جا نے لگا۔'انگریزی ہندوستانی لغت‘ اسی دور کا کارنامہ ہے۔ پھر دہلی کالج آگے بڑھا اوریہاں جدید علوم و فنون کے تراجم اور اصطلاحات سازی کے لیے 'دہلی ورنیکلر ٹرانسلیشن سوسائٹی‘ قائم ہوئی۔ یہاں کیمیا، نباتات، معدنیات، ریاضی، طب اور دوسرے علوم کی اصطلاحات وضع ہوئیں۔ ڈیڑھ سو کتب کی اشاعت بھی ہوئی۔
1863ء میںسر سید احمد خان کی سائنٹیفک سوسائٹی نے اس کام کا بیڑا اٹھایا اورمختلف فنی، سائنسی اور تاریخی موضوعات پر چالیس کتب کا ترجمہ کیا۔ رڑکی انجینئرنگ کالج میں 1856ء سے1888ء تک اردو بھی ایک ذریعہ تعلیم تھی۔ اسی طرح آگرہ میڈیکل کالج میں، اردومیں بھی طب کی تعلیم دی جاتی تھی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس وقت انجینئرنگ اور طب کی کتب اردو میں مو جود تھیں۔ میرے والدِ گرامی عالمِ دین تھے اور حکیم بھی۔ انہوں نے طب کی کتب اردو میں پڑھیں۔ آج بھی بعض کتب ہمارے گھر میں محفوظ ہیں، یہ بھی اسی دور کا قصہ ہے۔
جامعہ عثمانیہ نے تو اردو کو بام ِعروج تک پہنچا دیا۔ یہاں ذریعہ تعلیم اردو تھا۔ مولوی عبدالحق صاحب کی سربراہی میں 14اگست 1917ء کو دارالترجمہ قائم ہوا۔ علم کی دنیا کے اکابر اس سے وابستہ ہوئے اور مختلف علوم کی امہات ِکتب کو اردو میں منتقل کیا۔ میرے بزرگوں کے چھوڑے ہوئے علمی ورثے میں مو جود 'جمہوریہ افلاطون‘ آج بھی میرے پاس محفوظ ہے جس کا ترجمہ 'مولوی مرزا محمد ہادی صاحب بی اے‘ نے کیا اور جو1935ء میں شائع ہوئی۔اس کے ساتھ انجمن ترقی اردو دہلی تھی۔ اسی ورثے میں، جدید فلسفے کے امام ،کانٹ کی کتاب کا ترجمہ 'تنقید عقلِ محض‘ بھی مو جود ہے جو ڈاکٹر سید عابد حسین نے کیا اور جسے انجمن نے شائع کیا۔ یہ ایک مشکل کتاب ہے جو اصلاً جرمن زبان میں ہے۔ ڈاکٹرعابد حسین کا کہنا ہے کہ اس کے جتنے انگریزی تراجم ہندوستان میں مو جود ہیں، وہ بھی کم گنجلک نہیں، اس لیے انہوں نے اصل کتاب سے رجوع کرتے ہوئے، اس کا عام فہم ترجمہ کیا۔ یہ1941ء میں شائع ہوا۔
سوال یہ ہے کہ جو زبان سو ڈیڑھ سو سال پہلے اپنی قدرتِ کلام کی وسعت کا عملی ثبوت پیش کر چکی، آج جدید علوم کے بیان اور تدریس پرکیوں قادر نہیں ہے؟اس کی واحد وجہ ہمارے برسرِ اقتدارطبقے کی قومی بے حسی، تہذیبی پس ماندگی اورذہنی غلامی ہے۔ انہوں نے اردو کو جدید زبان بنا نے سے دانستہ گریز کیا۔ وہ انگریزوں کے دور سے مو جود حاکم اور محکو م کے فرق کو باقی رکھنا چاہتے تھے۔انہوں نے انگریزوں کی طرح آزادی کے بعد بھی اس فرق کو ختم نہیں ہو نے دیا۔ اس طبقے نے اپنے بچوں کو انگریزی کی تعلیم دلائی تاکہ وہ انگریزوں کی جگہ لے سکیں ۔اس کے ساتھ عام آدمی کے لیے انگریزی کی تعلیم کومشکل بنا دیا۔ عام آ دمی کے پاس آگے بڑھنے کا واحد راستہ یہی تھا کہ انگریزی کو اپنا لے۔ یوں متوسط طبقے نے اپنے بچوںکو انگریزی سکھانا شروع کیا۔ اہلِ علم جانتے ہیں کہ زبان صرف ابلاغ کا ذریعہ نہیں، تہذیب کا دروازہ بھی ہے۔ یوں ہمارا سماج ایک نئے کلچر سے روشناس ہوا۔۔۔۔ مغربی تہذیب سے مرعوبیت اور احساسِ کمتری کا ایک آ میزہ۔
یہ برسرِ اقتدار طبقہ دراصل اردو کی ترقی میں حائل ہے۔ اس طبقے کی سوچ کو پروفیسر فتح محمد ملک صاحب نے بیان کیا ہے۔ انہوں نے لکھاہے کہ بھٹوصاحب جب ایوب خان کے خلاف نکلے تو انہوں نے راولپنڈی میں ایک پریس کانفرنس کی۔ ایک صحافی نے سوال کیا کہ آپ عوام تک کیسے اپنی بات پہنچائیں گے۔ عوام کی زبان تو اردو ہے۔ بھٹو صاحب نے کہا کہ وہ اگلی بار لیاقت باغ میں عوام سے اردو میں خطاب کریں گے۔ انہوں نے ایسا ہی کیا اور پھر وہ عوام کے مقبول راہنما بن گئے۔ 1970ء کے انتخابات ہوئے تو پختونخوا اور بلوچستان میں نیپ اور جمعیت علمائے اسلام کی حکومت بنی۔ مفتی محمود صاحب صوبہ سرحد کے وزیر اعلیٰ بنے۔ ان دو صوبوں میں اردو نافذ کر دی گئی۔ پنجاب کو بھی تحریک ملی۔ ایک کمیٹی بنی جس میں احمد ندیم قاسمی، صوفی تبسم، وقارعظیم اور فتح محمد ملک صاحب جیسے افراد تھے۔ حنیف رامے وزیراعلیٰ بنے تو گرم جوشی بڑھ گئی اور بہت سا کام ہوا۔ بھٹو صاحب کو بھنک پڑی تو اردو کو سرکاری حیثیت دینے سے روک دیا۔ اس رویے پر ملک صاحب سوال اٹھاتے اور پھر خود ہی جواب دیتے ہیں: ''کیوں ؟ اس لیے کہ اس سے سندھ میں اور مرکز میں وزیراعظم اور پارٹی کے لیے مشکلات پیدا ہوں گی۔ جس نے جمہور تک اپنا پیغام اردو زبان میں پہنچایا، جب اقتدار میں آیا تواپنی طبقاتی بالا دستی قائم رکھنے کی خاطر اپنی محسن اردو کی گردن مارنے پر تیار ہو گیا۔‘‘
اس طبقے کی سوچ اور طرزِ عمل آج بھی وہی ہے۔ قیامِ پاکستان کے بعد ہمارے ہاں بعض ادارے بنے جنہوں نے قابلِ قدر کام کیا۔ اردو لغت بورڈ، اردو سائنس بورڈ، مقتدرہ اردو زبان۔ شہزاد احمد مرحوم جیسے اہلِ علم نے سائنسی مضامین کو کامیابی کے ساتھ اردو میں ڈھالا۔ اس کام کا جائزہ لیا جاسکتا اوراسے بہتر بھی بنایا جا سکتا ہے۔ لیکن یہ کام نفاذ کے بعد ہی ہو سکے گا۔ جب اردو روزمرہ اور روزگار کی زبان بن جائے گی تو فطری ضرورت کے تحت اس میں ارتقا کا عمل تیز تر ہوگا، جیسے ماضی میں ہوا۔ میں مثالیں دے سکتا ہوں کہ کیسے اردو نے کبھی دوسری زبانوں کے الفاظ کو اپنے انداز میں ڈھالا اور کبھی انہیں اسی صورت میں اپنی لغت کا حصہ بنا لیا۔ رہی بات تحقیق اور تخلیق کی تو جس قوم میں یہ عمل آگے بڑھتا ہے، اسی میں علوم کی اصطلاحات بھی وجود میں آتی ہیں۔ الجبرا عرب دنیا میں جنم لے گا تو اس کی عربی اصطلاحیں انگریزی میں بھی رائج ہو جا ئیںگی۔
میں یہ بھی عرض کر تا ہوں کہ جمہوریت کے فروغ کے لیے بھی اردو کا نفاذ ناگزیر ہے۔ زبان اور تہذیب کا باہمی تعلق ایک الگ کالم کا متقاضی ہے۔ غالب اور اقبال سے لاتعلقی مجھے میرے تہذیبی پس منظر سے جدا کر دیتی ہے اور یہ کم خسارہ نہیں ہے۔ اسی طرح یہ بھی واضح کرنے کی ضرورت ہے کہ اردو کا انگریزی یا مقامی زبانوں سے کوئی تصادم نہیں ہے۔ زبان سیکھنے اور اپنانے میں فرق ہوتاہے۔ تاہم آج مجھے صرف یہ کہنا ہے کہ اردو کی تنگ دامنی کا گلہ کرنے والوں کو اپنے تساہل اور بے توفیقی کا ماتم کر نا چاہیے۔ شورش کاشمیری نے صحیح کہا تھا کہ اردو کے دامن میں یہ وسعت ہے کہ اس میںکائنات سما جائے۔