طیّب اردوان کی حیران کن فتح کے پیچھے محض ایک لفظ ہے۔یہ لفظ ان کی انتخابی و سیاسی حکمت ِعملی کا محور تھا۔انہوں نے بصیرت افروز سیاسی شعور کے ساتھ اپنا ایک سیاسی مقدمہ قائم کیا اور اکثریت کو ہم نوا بنا لیا۔یہ اتفاق ہے کہ اسی لفظ میں وزیراعظم نواز شریف کی سیاسی قوت پوشیدہ ہے۔وہ مگر اسے ایک کامیاب سیاسی حکمتِ عملی میں تبدیل کرنے پر قادر نہیںہیں۔دونوں میں آخر فرق کیا ہے؟
جون میںہونے والے انتخابات کے نتائج سامنے آئے تو معلوم ہوا کہ عوام یکسو نہیں ہیں۔رائے عامہ بکھرچکی تھی اور کوئی جماعت فیصلہ کن اکثریت کو ہم نوا نہ بنا سکی۔اتحادی حکومت بنا نے کی کوشش ناکام ثابت ہوئی اوردوبارہ انتخابات کااعلان کرنا پڑا۔آئینی تقاضا یہی تھا۔ترکی اس دوران میں خلفشار کا شکار رہا۔دہشت گردی،عدم استحکام ،بے یقینی۔ترک سیاست کے اجزائے ترکیبی یہی تھے۔اس پس منظر میں اردوان نے ترکوں کوباورکرایا کہ سیاسی استحکام اس وقت ملک کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔خطے کی سیاست نے جو چیلنج پیدا کر دیے ہیں،ان سے ایک یکسو اور مستحکم ترکی ہی نبردآزما ہوسکتا ہے۔اگر یہ بات درست ہے تو اس استحکام کی ضمانت صرف اے کے پی دے سکتی ہے۔اس کا تجربہ، ماضی ،پروگرام اور صلاحیت ہی عدم استحکام کا علاج ہیں۔ملک کی کوئی دوسری سیاسی جماعت اس کی صلاحیت نہیں رکھتی۔سادہ لفظوں میں استحکام کا دوسرا نام طیب اردوان ہے۔اس مقدمے کے پہلے جزو سے کس کو اختلاف ہو سکتا تھا۔یہ ان کی کامیاب حکمتِ عملی تھی کہ انہوں نے استحکام اور اردوان کو باہم مترادف بنا دیا۔
ترکوں نے ان کی بات مان لی۔یہ ایسا ہی ایک مقدمہ تھا جو جنرل ضیاالحق مرحوم نے قائم کیا۔پاکستان کو اسلام کی ضرورت ہے۔اسلام چاہتے ہو تو اس کا مطلب ہے کہ میں پانچ سال کے لیے صدر ہوں۔انہوں نے تو خیر اس مقدمے کا دوسرا حصہ نام نہاد ریفرنڈم سے منوایا۔اردوان کا معاملہ یہ نہیں تھا۔ واقعہ یہ ہے کہ اِس وقت ترکی کے پاس اُن کا کوئی متبادل نہیں ہے۔اس بات سے ان لوگوں نے بھی اتفاق کیا جو ان کے اسلوبِ حکومت سے بہت خوش نہیں تھے۔انہوں نے ایک کام یہ بھی کیا کہ عوام میں گرم جوشی پیدا کی۔انہیں آمادہ کیا کہ وہ گھروں سے نکلیں اور اپنی رائے کا اظہار کریں۔یوں ووٹوں کا تناسب جون کے انتخابات کی نسبت زیادہ رہا۔کم و بیش 85فی صد لوگوں نے حقِ رائے دہی استعمال کیا۔
طیب اردوان کو کس بات نے استحکام کا مترادف بنا یا؟اس کا جواب بھی ایک لفظی ہے:گڈ گورننس۔اقتدار کے ایوانوں میں انہوں نے بارہ برس گزارے۔ساری دنیا جانتی ہے کہ ان ماہ و سال نے ترکی کا چہرہ بدل دیا۔اس کی معیشت، کلچر اور سیاست نے ترکی کا ایک نیاتعارف دنیا کے سامنے رکھا۔ترکوں میں وہ اعتماد پیدا ہوا کہ وہ خود کو خطے اور عالمِ اسلام کا قائد سمجھنے لگے۔دنیا بھی انہیں اسی نظر سے دیکھنے لگی۔اس میں شبہ نہیں کہ ان کے طرزِ حکمرانی سے بہت سے لوگوں کو شکایات پیدا ہوئیں۔یہ ایسی بے جا بھی نہیں تھیں۔جیسے ان کی آمرانہ رجحانات۔اس کے باوجود اگر وہ ترکوں کا انتخاب بنے تو اس کا سبب گڈ گورننس تھا۔انہوںنے فی الواقعہ مختلف شعبوں میں اصلاحات کو متعارف کرایا۔ چند روز پہلے ایک ملاقات میں ڈاکٹر شعیب سڈل نے مجھے حیران کردیا۔ترکی میں جب اردوان حکومت نے پولیس کے نظام میں اصلاحات کر نا چاہیں توپڑھے لکھے افراد کوسامنے لانے کا پروگرام بنا۔تصور تھا؛ علم کی بنیاد پر اداروںکی تشکیل ِ نو۔اس تصور کو ایک حکمتِ عملی میں بدل دیا گیا۔حیران کر نے والی بات یہ تھی کہ اس وقت ترکی کی پولیس میں پانچ ہزار اہل کار ایسے ہیں جو پی ایچ ڈی کی ڈگری رکھتے ہیں۔
ایک اور بات بھی باعثِ حیرت ہے۔اردوان پر کرپشن کے بہت سے سنگین الزامات بھی عائد کیے جاتے رہے ہیں۔اس مبینہ کرپشن کا حجم بھی ترکی کی معیشت سے متناسب ہے۔اس ضمن میںان کے بیٹے بلال اردوان کا نام لیا جا تا رہا۔اس پر 'اکانومسٹ ‘اور دوسرے معتبر جرائد نے بھی لکھا۔ان الزامات کا جواب اردوان نے حکومتی قوت سے دیا۔ان ابلاغی اداروں کے خلاف اقدام کیا گیا جنہوں نے ان سکینڈلز کی تشہیر کی۔فتح اللہ گولن اور ان کے ادارے بطور خاص ان کا ہدف بنے۔ان الزامات اور قابلِ اعتراض اقدامات کے با وصف اگر وہ ترک قوم کا انتخاب قرار پائے تو اس کا سبب ان کی گورننس ہے۔انہوں نے اداروں کی تشکیلِ نو کی،معیشت کو مستحکم کیا اور سماج میں اعتماد پید ا کیا۔اس سے میں یہ نتیجہ اخذ کرتا ہوں کہ اگر کوئی سیاسی قیادت گڈ گورننس کا مظاہرہ کرتی ہے اور اس کے فوائدعوام تک پہنچتے ہیں توپھر عوام کرپشن کو زیادہ اہمیت نہیں دیتے۔ مہاتر محمد کا معاملہ بھی یہی تھا۔ان پر بھی کرپشن کے الزامات تھے لیکن انہوں نے عوام کو فائدہ پہنچایا۔یوں ان کے آ مرانہ رجحانات اور کرپشن کے الزامات کو زیادہ قابل ِتوجہ نہیں سمجھا گیا۔
نوازشریف صاحب کا معاملہ طیب اردوان سے مماثلت رکھتاہے۔ان کو جو سیاسی پس منظر ملا،اس کے اجزائے ترکیبی مو جودہ ترکی سے مختلف نہیں تھے۔2013ء کے انتخابات کے بعد وہ استحکام کی علامت بن کر سامنے آئے۔میرا ثاثرہے کہ آج بھی وہ پاکستان میں استحکام کی واحد علامت ہیں۔ان کے علاوہ کسی سیاسی رہنما کی یہ حیثیت نہیں۔عمران خان ان کا متبادل ہو سکتے تھے۔ انہوں نے اپنے طرزِ عمل سے ثابت کر دیا کہ استحکام ان کی شخصیت کا حصہ ہے نہ سیاست کا۔ان جیسی افتادِ طبع کا آ دمی انقلابی سیاست کے لیے تو مو زوں ہو سکتا ہے، جمہوری سیاست کے لیے نہیں۔دیگر جماعتیں ،پیپلزپارٹی کے علاوہ نا قابلِ ذکر ہیں۔پیپلزپارٹی کے لیے ماضی کے تاریک سائے سے نجات ضروری ہے اورفی الوقت وہ اس کا ارادہ نہیں رکھتی۔یوں نوازشریف کے علاوہ کوئی سیاسی کردار ایسا نہیں جو استحکام کی علامت بن سکتا ہے۔ان کو اردوان کی طرح پاکستانی قوم کو یہ باور کرا نا تھا کہ نوازشریف اور سیاسی استحکام باہم مترادف ہیں۔میرا خیال ہے کہ وہ پوری طرح اس میں کامیاب نہیں ہوسکے۔آج جو لوگ سیاست دانوں سے مایوس ہیں،وہ جنرل راحیل شریف کو اگر بطور متبادل پیش کرتے ہیں تو یہ زبانِ حال سے اس کاا علان ہے کہ اگر نوازشریف نہیں تو پھر کوئی دوسری سیاسی شخصیت بھی قابلِ بھروسہ نہیں۔
نوازشریف صاحب اگر خود کو استحکام کامترادف ثابت نہیں کر سکے تو اس کے دو اسباب ہیں۔ایک گڈ گورننس کی کمی اور دوسرا میڈیا میں غیر موثر نمائندگی۔گڈ گورننس کے راستے میں دو بڑی رکاوٹیں ہیں: ارتکازِ اختیار اورتساہل۔انہوں نے حکومتی مناصب اوراختیارات کو شخصی وفاداروں اورخاندان میں جمع کیا اور دوسری طرف بروقت فیصلے نہیں کئے۔نندی پور اور ایل این جی جیسے معاملات صرف تساہل کی وجہ سے مو جودہ حکومت کے گلے پڑے۔حکومت کی میڈیاپالیسی محض اتنی ہے کہ ٹی وی ٹاک شوز میں کوئی نمائندہ بھیج دیا۔میڈیا پالیسی یہ ہوتی ہے کہ اخبارات اور ٹی وی چینلزپر حکومت کا ایجنڈا موضوع بنتا دکھائی اور سنائی دے۔گڈ گورننس جب نہیں ہوتی تو پھرکرپشن کی باتیں زیادہ نمایاں ہوتی ہیں اور میڈیا میں حکومتی نمائندے صرف اپنا دفاع کرتے دکھائی دیتے ہیں۔
اگر نواز شریف صاحب اپنی ان کمزوریوں کا تدارک کر سکیں تو وہ طیب اردوان کی طرح پاکستان میں استحکام کی علامت قرار پائیں گے اور لوگ بادل نخواستہ بھی ان کی اس حیثیت کو قبول کریں گے۔میرے نزدیک پاکستان کا مستقبل جمہوری اور سیاسی عمل کے تسلسل سے وابستہ ہے۔یہ مقدمہ پوری طرح ثابت ہے۔یہ بات کہ اس کا ناگزیر نتیجہ وزیر اعظم نوازشریف کی قیادت ہے، اس کو ثابت کرنا ن لیگ کا کام ہے۔