سوال گڈ گورننس کا نہیں ہے۔قضیہ یہ ہے کہ کون سرِ عام سوال اٹھانے کا مجاز ہے؟ کون کس کو جواب دہ ہے؟ آداب کا تقاضا کیا ہے؟
حفظِ مراتب کی اساس پر کھڑے ایک سماج میں اس قضیے کوسمجھنا مشکل نہیں ہو نا چاہیے۔باپ اور بیٹے میں اختلاف ہوتویہ لازم نہیں ہے کہ باپ ہی حق پر ہو۔ بیٹے کی یہ حرکت لیکن کسی صورت میں پسندیدہ نہیں شمار ہوتی کہ وہ سرِ عام باپ کو مطعون کرے۔ بڑھاپے میں لوگ چڑ چڑے ہو جاتے ہیں۔ امکان رہتا ہے کہ دوسرے زچ آ جائیں۔ اللہ کی آ خری کتاب اسی امکان کو سامنے رکھتے ہوئے خبردار کرتی ہے کہ والدین بوڑھے ہو جائیں تو انہیں اُف تک نہ کہو۔مرد کو عورت پر یا عورت کو مرد پر کوئی صنفی برتری نہیں۔یہی مرد و عورت رشتوں میں بندھ جاتے ہیں تو کبھی عورت بر تر ہوتی ہے اور کبھی مرد۔یہ اُنہی رشتوں کاعطا کردہ حسن ہے جو ایک گھر کو مادی نعمتوں کے بغیر بھی جنت نظیربنائے رکھتا ہے۔رشتوں کایہ احترام سماج میں ظہور کرتا ہے تووہ محبت کا مسکن بن جا تا ہے۔رشتے ہم جانتے ہیں کہ حفظِ مراتب کا لحاظ رکھے بغیر قائم نہیں ہوتے۔
سماج میں حفظِ مراتب کے آداب،روایت اور سماجی تعامل سے وجود میں آتے ہیں۔انہیں ہم اقدار کہتے ہیں۔سماج ایک نظام ِ اقدار پر کھڑا ہو تا ہے۔ریاست ایک جدید ادارہ ہے۔اس میں بھی باہمی تعلقات طے کرتے وقت حفظِ مراتب کا لحاظ رکھا جا تا ہے۔اس کا تعین آئین کر تا ہے۔وہ عمرانی معاہدہ جس پر سب بطیبِ خاطرمتفق ہوتے ہیں۔پاکستان کا آئین بھی ریاست کے لیے ایک نظام دیتا ہے۔یہ سول ملٹری تعلقات کے لیے حفظِ مراتب کے آداب طے کرتا ہے۔یہ بتاتا ہے کہ کون کس کا ماتحت اورکون کس کو جواب دہ ہے۔اس وقت یہ بحث ہر گز نہیں ہے کہ ملک میں گڈ گورننس ہے یا نہیں،قضیہ یہ ہے کہ کون سرِعام سوال اٹھانے کا حق رکھتا ہے؟حفظِ مراتب کا تقاضا کیا ہے؟انسانی تاریخ کا مطالعہ یہ کہتا ہے کہ سماج حفظِ مراتب سے بے نیاز ہو جائے تو اس کا حسن برباد ہو جا تا ہے۔ ریاست اسے نظر انداز کرے تولاقانونیت جنم لیتی ہے۔
یہ بات تو کوئی غبی ہی کہہ سکتا ہے کہ حکومت پر کسی صورت تنقید نہیں ہو نی چاہیے۔یا یہ کہ ایک بار جب کوئی منتخب ہو جائے تو اگلے انتخابات تک اس کو کھلی چھٹی مل جانی چاہیے۔آئین اگرحفظِ مراتب کا لحاظ رکھتا ہے تو وہ تنقیدکا حق اور احتساب کا ایک نظام بھی دیتا ہے۔تنقیدکا حق عوام اور میڈیا کے لیے ثابت ہے۔احتساب کا نظام عدلیہ کو اختیار دیتا ہے کہ قانون کا تقاضا ہوتو وہ منتخب وزیر اعظم کو کٹہرے میں لا کھڑا کرے۔یہ سب کچھ ہوتا ہم اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں۔ابھی پرسوں کی با ت ہے،سپریم کورٹ میں کہا گیا:''وزیراعظم مطلق العنان نہیں۔انہیں توہینِ عدالت کا نوٹس جاری کرنے سے پہلے موقع دیتے ہیں کہ ایک سزایافتہ شخص کوعہدہ دینے کا نوٹیفکیشن واپس لیا جائے یا پھراس کا دفاع کیا جائے ‘‘۔کوئی عوام ، میڈیا یا عدلیہ کے اس حق کوچیلنج نہیں کرتا۔حدود اور آداب کی بات ضرور ہوتی ہے۔ اخلاقی پہلو بھی زیرِ بحث آتا ہے لیکن کسی صاحب ِعقل کویہ زیبا نہیں کہ وہ عوام میڈیا یا عدلیہ کے حق ِ تنقید و احتساب ہی کو چیلنج کردے۔اس لیے میں عرض کرتا ہوں کہ معاملہ گورننس یا تنقید کا ہر گز نہیں ہے۔
فوج اورحکومت کے تعلقات،ہمارے ہاں ہمیشہ کشیدہ رہے ہیں۔قضیہ یہی حفظِ مراتب کا ہے۔بعض لوگوں کا خیال ہے کہ یہ کتابی بات ہے۔زمینی حقیقت یہ ہے کہ اختیار کاآئینی مرکزاور ہے اور عملی اور۔اس کا ادراک کیے بغیر اس گتھی کو سلجھایا نہیں جا سکتا۔بجا ارشاد۔میرا خیال ہے کہ اہلِ سیاست نے اس زمینی حقیقت کو تسلیم کیا۔کیا آصف زرداری صاحب نے کبھی اسے چیلنج کیا؟ایک آدھ بار کوشش کی لیکن بہت جلد رجوع کر لیا۔نوازشریف صاحب کوبھی ابتدا میں غلط فہمی ہوئی۔دھرنے نے ان کی طبیعت کچھ اس طرح صاف کی کہ اب شاید انہیں یہ بھی یاد نہیں کہ اس ملک میں پرویز مشرف نا م کا کوئی آ دمی رہتا ہے۔یا کم از کم وہ اسے یاد نہیں رکھنا چاہتے۔یہی نہیں، اہلِ سیاست نے آنکھوں میں آنسوئوں کے ساتھ فوجی عدالتوں کو آئینی تحفظ دیا۔دہشت گردی کے خلاف ہر طرح کا تعاون کیا۔مشاورت کے عمل میں شریک رکھا ۔یہاں تک کہ حکومت خارجہ پالیسی تک سے رضا کارانہ طور پر دست بردارہوگئی۔ ہر فورم پر اپنی فوج کو خراجِ تحسین پیش کیا۔مگر دوسری طرف سے ایک بار بھی کسی نے اہلِ سیاست اور حکومت کی تعریف میں ایک لفظ نہیں کہا۔ 6ستمبر کی تقریب ہوئی تو چیئرمین سینیٹ اور وزیر اطلاعات سمیت بہت سے اہلِ سیاست وحکومت صفِ اوّل میں جا بیٹھے۔آرمی چیف کے خطاب میں میڈیا سمیت سب کے تعاون کی تعریف ہوئی۔اگر کسی طبقے کا ذکر نہ ہوا تو وہ اہلِ سیاست تھے۔کیا زمینی حقیقت کا اعتراف یک طرفہ ہوتا ہے؟
ہم وہموں اور گمانوں کے مارے لوگ ہیں۔وزیراعظم اور آرمی چیف ایک تصویرمیں مسکراتے نظر آجائیں تو گمان کرتے ہیں کہ ایک پیج پر ہیں۔ہم خواہش کو خبر بنانے میں دیر نہیں کرتے۔ وقتاًفوقتاً کوئی دھرنا، امپائر کی انگلی کا ذکر ،کوئی پریس ریلیز ہمیں یاد دلاتی ہے کہ مسکراتی تصویروں پر یقین نہ کیا جائے۔جب بات کھلتی ہے توکم ہی ایسا ہوتا ہے کہ کوئی سیاست دانو ںکا ساتھ دے۔پھر جمہوریت کی اپنی اپنی تاویلات ہوتی ہیں اور سب چاہتے ہیں کہ انہیں جمہوریت پسندوں میں شمار کیا جا ئے۔سیاستدانوں کا ساتھ دینے کا مطلب اُن کی خامیوں پرپردہ ڈالنا نہیں ہے، لیکن کیاتنقیدکے شوق میں حفظ ِمراتب کو نظر انداز کر دیا جائے ؟گورننس کے مسائل دنیا بھر میں ہیں۔کیا بھارت میں نہیں ہیں؟مقبوضہ کشمیرمیں گورننس کی حالت سب کو معلوم ہے۔وہاں لاکھوںبھارتی فوج پھنسے ہوئے ہیں۔ ہم نے نہیں سنا کہ وہاںکبھی گورننس پر کوئی پریس ریلیز جاری کی گئی ہو۔
سیاست کی اپنی مجبوریاں ہیں۔میںبار ہالکھ چکاکہ جنہیں سیاسی عصبیت حاصل ہو جائے ان کے خلاف قانون کا اطلاق آسان نہیں ہوتا۔سندھ میں ایم کیو ایم اور پیپلزپارٹی سیاسی نظام کے دو ستون ہیں۔دونوں کو بیک وقت کیسے گرایا جا سکتا ہے؟ دونوں کو گرانے کا مطلب سندھ کو نئے بحران کے حوالے کرنا ہے۔پھر عدلیہ اپنا کام کر رہی ہے۔دہشت گردی اور کرپشن کو ایک لاٹھی سے نہیں ہانکاجا سکتا۔یہ فرق اُن کو تو سمجھنا چاہیے جو سیاسی حرکیات کو سمجھنے کا دعویٰ رکھتے ہیں۔سیاست ارتقاپریقین رکھتی ہے۔ا س کو کسی تنظیمی سانچے میں نہیں ڈھا لا جا سکتا ہے ہم مارشل لا بھی دیکھ چکے۔اس کا پالا جب سیاسی حقائق سے پڑتا ہے تو وہ کسی نوازشریف اور کسی چوہدری شجاعت حسین کو تلاش کرتاہے۔ یہی نہیں، وہ ایم کیو ایم کوبھی شریک ِ اقتدار کرتا ہے بلکہ حسبِ ضرورت پیدا بھی کرتا ہے۔
مجھے لگتا ہے کہ شتر گربگی زیادہ عرصہ نہیں چل پائے گی۔یہ غیر فطری ہے۔پاکستان میں ہم اسی کو پیدا کرنے کی کوشش میں رہے ہیں۔ملک کا نظام اس وقت بہتر چلتا رہا ہے جب یہ گربہ ہو یا پھر شتر۔دونوں کے اپنے مسائل ہیں۔ہمیںکسی ایک کا انتخاب کر نا ہے۔وزیراعلیٰ رہے اور اپیکس کمیٹی بھی احکام جاری کرے۔یہ شاید مزید نہ چل سکے۔سوال یہ ہے کہ 'ہم‘ سے مراد کیا ہے؟اگر عوام تو ان کی نمائندگی کون کر تا ہے؟اگر 'ہم ‘ سے مرادکوئی اورہے تو اس کا نام لے لیا جائے۔میرا اصرار البتہ اس پر ہے کہ حفظِ مراتب کے بغیر سماج چل سکتا ہے نہ ریاست۔