پارلیمنٹ کی بالا دستی محض بیان بازی اور فوج کو برا بھلا کہنے سے قائم نہیں ہو سکتی۔اس کے لیے لازم ہے کہ اس کی دُہائی دینے والے خود پارلیمان کے سامنے سرِتسلیم خم کریں۔ورنہ تیار ہو جائیں کہ افتخار چوہدری صاحب صدارتی نظام کا نعرہ لے کر آرہے ہیں۔
چوہدری نثار علی صاحب نے عوام کے دل کی بات کہی۔میری سرزمین کا یہ سیاست دان شاید ن لیگ کی صفوں کے چند غنیمت افراد میں سے ایک ہے جو نوازشریف صاحب کے رو برو کسی مرعوبیت اورنفع نقصان کے ا حساس سے بے نیاز ہو کر،دل کی بات کہہ سکتے ہیں۔ انہوں نے قومی اسمبلی کے سامنے اپنی وزارت کی کارکردگی بیان کر نے کا اعلان کیا اور یہ بھی کہا کہ ہروزیر ایسا ہی کرے۔ان کا یہ کہنا جمہوریت کی روح ہے کہ پارلیمان کابینہ سے زیادہ اہم ہے۔افسو س کہ حکومت ابھی تک اس کا عملی مظہر کم ہی پیش کر سکی ہے۔عمران خان سے روز کہا جا تا ہے کہ وہ پارلیمان کے سامنے اپنا مقدمہ پیش کریں۔یہ بے معنی ہے اگر وزرا اپنی کارکرد گی پارلیمان کے سامنے نہیں رکھتے۔
جمہوریت محض سیاست دانوں کی حکومت کا نام نہیں۔یہ صرف اس کا نام بھی نہیں کہ کوئی عوام کے ووٹ لے کر اسمبلی پہنچ جائے۔یہ عوام کے سامنے جواب دہی کا نام ہے۔لازم ہے کہ حکومت اہم امور پر پارلیمان کوا عتمادمیں لے۔اس فورم پر اپنا موقف بیان کرے۔اس کے بعد وہ اپوزیشن سے یہ کہے کہ و ہ بھی اسی فورم کو اظہارِخیال کا وسیلہ بنا ئے۔اگر وزرا اپنے فیصلوں میں پارلیمان سے بے نیاز ہیں۔اگر آئین کی صریح خلاف ورزی کرتے ہوئے، پارلیمان کی منظوری کے بغیر اربوں روپے کے ٹیکس لگ جا ئیں تو یہ پارلیمان ا ور عوام کے ساتھ مذاق ہے۔یہ اعلان ہے کہ آپ پارلیمان کی بالادستی کو قبول نہیں کرتے ۔
وزیراعظم امریکہ کے دورے پر گئے۔ان کے بعد ہمارے سپہ سالار بھی وہاں گئے۔حکومت کی ذمہ داری تھی کہ وہ ان دونوں دوروں میں ربط اور ان کے اہداف کے بارے میں پارلیمان کو اعتماد میں لیتی۔ وزیراعظم اس دورے سے پہلے یا بعد ،قومی اسمبلی سے خطاب کرتے۔عوام، میڈیا، سب کو یہ معلوم ہوتا کہ یہ دو مختلف دورے نہیں، بلکہ ایک حکمت عملی کا تسلسل ہیں جو پاکستان نے خارجہ امورکے باب میں اختیار کی ہے۔ جب ایسا نہیں ہوا تو قیاس آرائیوں کا ایک سیلاب بہہ نکلا۔بزمِ یار سے الگ الگ خبریں آنی لگیں۔تاثر یہ پیدا ہوا کہ ان حضرا ت کے دوروں میں کوئی ربط نہیں۔اس تا ثر کا منفی نتیجہ حکومت کے حصے میں آیا۔لوگوں کو کہنے کا موقع ملا کہ فوج اور حکومت میں دوریاں ہیں۔کیا ہر روزٹی وی ٹاک شوز میں بیٹھ کر اپنی صفائی پیش کرنا ایک بہتر حکمتِ عملی ہے یا پارلیمان کے سامنے اپنا نقطہ نظر بیان کرنا؟
گڈ گورننس کے مسائل بھی اسی لیے جنم لیتے ہیں کہ عوام حکومت کی کارکردگی کے بارے میں بے خبر ہیں۔کابینہ کے افراد کچھ تو کر رہے ہوں گے۔وہ کیا ہے، اُسے سامنے آنا چاہیے۔اب تو یہ معلوم ہوتاہے کہ وزیر اعظم کچھ منصوبوں کا افتتاح کر رہے ہیں یا شہباز شریف صاحب۔باقی لوگ کہاں ہیں، اس کی کسی کو خبر نہیں۔ چوہدری نثار صاحب کا استثنا ہے یا پھر کچھ لوگ خواجہ سعد رفیق صاحب کی بھی بات کرتے ہیں۔اچھی یا بری، اس کا تعین تو بعد کی بات ہے، پہلے یہ تو معلوم ہو کہ گورننس ہے بھی یا نہیں۔اگر کوئی رکن اسمبلی سوال اٹھا دے تو وزیر صاحب ،سوال و جواب کے سیشن میں مختصر ساجواب دے دیتے ہیں۔اس کے علاوہ اسمبلی میں کبھی وزارتوں کی کارکردگی زیر بحث نہیں آتی۔ حکومت کی سطح پر کیا ہو رہا ہے،کسی کو خبر نہیں۔کیا یہ پارلیمان کی با لادستی ہے؟
اس میں شبہ نہیں کہ پاکستان کی جمہوریت ارتقا ئی مراحل میں ہے۔اس کا لیکن یہ مطلب بھی نہیں کہ وہ عہدِ طفولیت سے نکلنے کا نام ہی نہ لے۔نواز شریف صاحب تیسری بار ملک کے وزیراعظم بنے ہیں۔سب لوگ جہاں دیدہ ہیں۔حکمران جماعت کے اکثر افراد برسوں سے پارلیمانی جمہوریت کا حصہ ہیں۔ پارلیمانی روایات سے واقف ہیں۔ان سب لوگوں کو معلوم ہو نا چاہیے کہ پارلیمانی نظام کے بارے میں عدم اعتماد کی فضا پیدا ہو رہی ہے۔یہ کہا جار ہا ہے کہ پارلیمان عوامی جذبات کی ترجمانی نہیں کر سکی۔اس لیے اب پاکستان کو صدارتی نظام کی طرف مراجعت کرنی چاہیے۔ ہم پہلے بھی یہ تجربہ کر چکے اور دنیا میں یہ بھی جمہوری روایت کا حصہ ہے۔
میں اصولاً پارلیمانی جمہوریت کے حق میں ہوں۔ مشاورت جس طرح پارلیمانی نظام میں بروئے کار آتی ہے،کسی دوسرے نظام میں نہیں آ سکتی۔اس نظام میں حکومت اجتماعی بصیرت کا نمونہ ہو تی ہے۔لیکن یہ سب باتیں اسی وقت درست ہیں جب کسی سماج میں پارلیمانی روایت کو آگے بڑھا یا جا رہا ہو۔پاکستان میں ایسا نہیں ہو رہا ۔اس لیے اگر کوئی صدارتی نظام کی بحث کا آ غاز کر تا ہے تو میرا خیال ہے کہ کم از کم نظریاتی حد تک اسے ہم نوا مل جا ئیں گے۔اس کا ایک سبب اور بھی ہے۔ہمارے نظامِ فکر میں اقتدار کا تصورایک فردِ واحد کے گرد گھومتا ہے۔ایک مسیحا، ایک امیر المومنین، ایک مردِ جری جو بیک جنبشِ قلم اس سماج کی کایا پلٹ دے۔یوں صدارتی نظام میں یہ تصور مشہود ہو تا دکھا ئی دیتا ہے۔نوازشریف، عمران خان، سب اختیارات کی مر کزیت کے قائل ہیں۔معاملات اگر اس جانب بڑھتے ہیں تو میرا خیال ہے کہ اس تحریک کو شاید بڑی مزاحمت کا سامنا نہ کر نا پڑے۔
جو لوگ پارلیمانی نظام کے حق میں ہیں انہیں سنجیدگی سے سوچنا ہو گا کہ یہاں پارلیمان کو کس طرح با لا دست بنا یا جا سکتا ہے۔پارلیمان اگر اسی طرح نظرا نداز ہو تی رہی تو مایوسی میں اضافہ ہو گا اور لوگ دوسرے راستے تلاش کریں گے۔جولوگ آمریت کو متبادل بنا کر پیش کرتے ہیں،وہ جانتے ہیں کہ ان کا مقدمہ اخلاقی طور پر کمزور ہے اور دلیل کے اعتبار سے بھی۔ایسے لوگوں کے لیے بھی صدارتی نظام میں ایک کشش ہے۔اس لیے افتخار چوہدری صاحب کی بات کو پذیرائی مل سکتی ہے۔
فردِ واحد کا اقتدارتو ظاہر ہے کسی طور گوارا نہیں کیا جا سکتا۔جمہوریت کے اندر البتہ مختلف تجربات کیے جا سکتے ہیں۔ان میں کسی کی مقبولیت کا بڑ اانحصار اس بات پر ہے کہ وہ عوام کی توقعات پر کس حد تک پورا اتر سکا ہے۔اگر پارلیمان کی بالا دستی عملاً مستحکم نہ ہو ئی تو یہ جمہوریت کے نام پر آ مریت ہو گی۔میرے جیسے لوگ اگرچہ اس کے بعد بھی اس کے حق میں ہو ں گے کہ اگر کسی خیر کی امید کی جا سکتی ہے تو وہ پارلیمانی جمہوریت ہی ہے لیکن عام آدمی کا مسئلہ یہ نہیں ہے۔اسے اپنے مسائل کے حل سے دلچسپی ہے اور یہی حل ہی اس کے نزدیک کسی کو جوازِ اقتدار فراہم کر تا ہے۔
چوہدری نثار علی صاحب کی باتوں پر اگر عمل کیا جا ئے تو پارلیمانی جمہوریت کو بچا یا جا سکتا ہے۔اگر وزیر اور حکومت اپنی کارکردگی کا حساب اس فورم پر دیں۔اسی پرمسائل کے حل، مشاورت کے ساتھ تلاش کیے جائیں تو اس نظام پر عوام کے اعتبار کو بحال کیا جا سکتا ہے۔میرا خیال ہے کہ اس حوالے سے وزرا کو پابند کر دینا چاہیے کہ وہ تین ماہ میں کم از کم ایک بار، قومی اسمبلی میں اپنی کارکردگی کی رپور ٹ پیش کریں۔یہ کام اگر وزیراعظم نہیں کر تے تو میری تجویز ہو گی کہ سپیکر اس کی رولنگ دیں۔ یا پھر اپوزیشن اس کی تحریک پیش کرے۔