"KNC" (space) message & send to 7575

نون لیگ کے دروازے پر شکست کی دستک

شکست ن لیگ کو چھو کر گزر گئی۔ سوچا جا سکتا ہے کہ اگر اسلام آباد کے میئر کا تعلق تحریکِ انصاف سے ہو تو اقتدار کا مزا کیسے کرکرا ہو جائے۔ پھر کیسے اسلام آباد ایک تماشہ گاہ میں بدل جائے۔ ن لیگ کی پیٹھ پر وقت نے ایک تازیانہ لگا کر چھوڑ دیا۔ شاید کہ وہ سنبھل سکے۔
نواز شریف صاحب کے دورِ حکومت میں جو چیز سب سے زیادہ نظر انداز ہوتی ہے، وہ ان کی اپنی جماعت ہے۔ وہ اقتدار کے ایوان میں پہلا قدم رکھتے ہی، پہلی ٹھوکر اُس سیڑھی کو لگاتے ہیں جو انہیں اس بلندی تک پہنچاتی ہے۔ جماعت پھر اس وقت یاد آتی ہے جب کسی انتخاب میں اس کی ضرورت پڑتی ہے یا پھر کوئی آ مر ان کے درپے ہوتا ہے۔ 30 نومبر کی شب ن لیگ کے گندے کپڑے جس طرح سر بازار دھوئے جاتے رہے، ٹی وی سکرین پر یقیناً حکومتی زعما نے دیکھا ہو گا۔ کیا اب بھی انہیں اندازہ نہیں کہ حکومت پارٹی کا متبادل نہیں ہو سکتی۔ اگر ایسا ہوتا تو ق لیگ کو کبھی زوال نہ آتا۔ 
ن لیگ جب اقتدار میں ہوتی ہے تو دو گروہوں میں بٹ جاتی ہے۔ ایک وہ جس کا تعلق ن لیگ سے نہیں، شریف خاندان سے ہوتا ہے۔ وہ رشتہ دار ہو سکتے ہیں اور ذاتی وفادار بھی۔ یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ اقتدار سے مستفید ہونے والے بھی یہی ہوتے ہیں۔ دوسرا گروہ وہ جسے اقتدار میں ذرا سا حصہ بھی نہیں ملتا۔ یہ گروہ ایک عرصہ اس سرخوشی اور زعمِِ باطل میں گزار دیتا ہے کہ ہماری حکومت ہے۔ جب ضمنی یا بلدیاتی انتخابات آتے ہیں تو اس گروہ کو حقائق کا اندازہ ہوتا ہے۔ انہیں پہلی بار احساس ہوتا ہے کہ وہ جسے اپنی پارٹی سمجھتے ہیں، اب اُس کی باگ کسی اور ہاتھ میں چلی گئی ہے۔ اب انتخابی امیدواروں کے فیصلے پارٹی کے دفاتر میں نہیں، اقتدار کے ایوانوں میں ہوتے ہیں۔ وہ گروہ اب پارٹی کے امور میں بھی دخیل ہوتا ہے جو پارٹی سے زیادہ شریف خاندان سے وابستہ ہوتا ہے۔ ایک مایوسی اِس گروہ کو گھیر لیتی ہے۔ پھر وہ بغاوت پر آمادہ ہوتا اور مقابلے میں کھڑا ہو کر اپنے غصے کا اظہار کرتا ہے‘ یا پھر سیاسی عمل ہی سے الگ ہو جاتا ہے۔ اسلام آباد میں، اس گروہ نے پہلا راستہ اختیار کیا۔ اسی وجہ سے شکست ن لیگ کو چھو کر گزر گئی۔ 
نون لیگ کو اقتدار کے اڑھائی سالوں میں بڑی محنت کے ساتھ ایک صوبائی جماعت بنا دیا گیا۔ میں آج تک یہ نہیں جان سکا کہ کے پی میں لیگ کو منظم کر نے میں کیا امر مانع ہے؟ دیہی سندھ میں تو کہا جا سکتا ہے کہ پیپلز پارٹی کے ساتھ کوئی ڈیل ہو گی‘ کے پی میں ایسی ڈیل کا تصور نہیں کیا جا سکتا۔ پھر کیا وجہ ہے کہ ن لیگ صوبائی حکومت کے لیے ایک دن بھی چیلنج نہیں بن سکی۔ اب ایسا تو نہیں ہے کہ کے پی میں سب کچھ ٹھیک ہو رہا ہے۔ وہاں کوئی مسئلہ ایسا نہیں‘ جس پر صوبائی حکومت کے خلاف کوئی آواز نہیں اٹھ سکتی۔ دوسری طرف عمران خان نے پنجاب کو ایک دن چین نہیں لینے دیا۔ پنجاب پر وہ ایک بیرونی حملہ آور کی طرح مسلسل تاخت کرتے رہتے ہیں۔ اس حوالے سے تو انہوں نے محمود غزنوی کا ریکارڈ بھی توڑ دیا۔ اب تو وہ اے این پی کے ساتھ ہم آواز ہیں کہ چین کے ساتھ اقتصادی معاہدے کے ثمرات میں پنجاب کا حصہ کیوں ہو۔ ان کی پوری کوشش رہی کہ یہاں کوئی ترقی کا منصوبہ آگے نہ بڑھنے پائے‘ جیسے وہ پنجاب کے عوام کو سزا دینا چاہتے ہیں کہ انہوں نے تحریکِ انصاف کا انتخاب کیوں نہیں کیا۔ لوگ کہتے ہیں کہ عمران خان نے پنجاب پر 'توجہ‘ نہیں دی‘ ورنہ وہ بلدیاتی انتخابات میں بہتر بتائج حاصل کرتے۔ کیا پنجاب پر مزید 'توجہ‘ کی ضرورت ہے؟ مزید توجہ تو یہی ہے کہ اس صوبے کی ہر سڑک پر تحریکِ انصاف کے جیالوں کو مستقل بٹھا دیا جائے تاکہ صوبے میں لوگوں کے لیے سانس لینا محال ہو جائے۔
ایک طرف پنجاب میں تحریکِ انصاف کے تحرک کا یہ عالم ہے اور دوسری طرف کے پی میں ن لیگ کا وجود ہی ثابت نہیں۔ میرے نزدیک اگر لاہور جیسے شہر میں، ان گنت نوازشوں کے باوجود، ن لیگ کو اتنی بڑی مخالفت کا سامنا ہے کہ اس کا امیدوار دو ہزار ووٹوں کی اکثریت سے کامیاب ہوتا ہے تو اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ یہاں پارٹی کا کوئی وجود نہیں۔ اسی کا اعادہ اسلام آباد میں ہوا۔ پارٹی کو نظر انداز کرنا وہ بڑا عامل ہے جو ن لیگ کی شکست کا سبب بنا۔ دوسرا بڑا سبب امیدواروں کی اخلاقی حیثیت کو نظرانداز کرنا ہے۔ اسلام آباد میں مقابلہ سیاست دانوں کے مابین نہیں، پراپرٹی ڈیلرز کے درمیان تھا۔ یہ کام جب ایک بڑی سطح تک پہنچتا ہے تو قبضہ گروپس کے ہاتھ میں چلا جاتا ہے۔ یہی کچھ یہاں بھی ہوا۔ خود ن لیگ کے عہدے داروں نے پریس کانفرنس میں چار ایسے گروپس کی نشاندہی کی۔ میدان انہی کے ہاتھ رہا۔ ن لیگ اگر اخلاقی معیارات کو اہمیت دیتی تو اس کی ساکھ محفوظ رہتی اور شاید نشستوں میں بھی اضافہ ہو جاتا۔
ایک تیسرا عامل بھی ان نتائج پر اثر انداز ہوا۔ یہ اسلام آباد کے گرد و نواح میں آباد پٹھان آبادی ہے۔ انتخابی نتائج اور عمران خان کی سیاست سے 2013ء کے بعد یہ تاثر قائم ہوا ہے کہ تحریکِ انصاف پٹھانوں کی نمائندگی کر رہی ہے اور ن لیگ پنجاب کی۔ یہ تاثر پنجاب میں نہیں کیونکہ پنجاب، پنجابی شناخت کے حوالے سے کبھی حساس نہیں رہا۔ دوسری صوبائی قومیتوں میں شناخت کا یہ احساس بہت گہرا ہے۔ میرا تاثر ہے کہ خیبر پختون خوا میں ان نتائج کو اسی طرح سمجھا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ پنجاب میں آباد پٹھان زیادہ تر تحریکِ انصاف کے ووٹر ہیں۔ مثال کے طور پر راولپنڈی ن لیگ کا گڑھ رہا ہے۔ یہاں پٹھانوں کی ایک بڑی تعداد آباد ہے۔ یہ روایتی طور پر مسلم لیگ کے ساتھ تھے۔ 2013ء کے انتخابات میں، رکشے والے سے لے کر کپڑے کے تاجروں تک، تحریکِ انصاف میں چلے گئے۔ اس سے ن لیگ کو نقصان اٹھانا پڑا۔ یہی پٹھان آبادی اسلام آباد کے نتائج کو بھی ایک رخ دینے میں بروئے کار آئی ہے۔
اسلام آباد کے بلدیاتی انتخابات میں شکست کی دستک صاف سنائی دی۔ معلوم نہیں، مرکزی قیادت کی قوتِ سماعت کیسی ہے؟ اگر اس نے سُن کر پارٹی کو منظم کر لیا تو یہ دستک اس کے لیے تذکیر بن سکتی ہے۔ اگر سنی ان سنی کر دی تو اسے یاد رکھنا چاہیے کہ سیاست کا سفر خواہشات کی وادیوں میں نہیں، حقائق کے سنگلاخ راستوں پر چل کر طے ہوتا ہے۔ جو حقائق سے نظریں چار نہیں کرتے، وہ راستوں کی دھول بن جاتے ہیں۔ 
(پس تحریر: شیریں مزاری صاحبہ کی صاحب زادی ایمان نے اپنا پہلا ووٹ ن لیگ کو دیا۔ اُن کا کہنا ہے کہ انہوں نے ن لیگ کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا لیکن جواباً کبھی ان کی تضحیک نہیں کی گئی۔ میرے نزدیک یہ بات ن لیگ کے لیے تمغہء امتیاز ہے۔ یہ اعتراف ان کے لیے باعثِ مسرت ہونا چاہیے۔ میرا مشورہ ہو گا کہ ن لیگ والے ہمیشہ اپنی اخلاقی برتری پر اصرار کریں۔ کاش میں یہ مشورہ تحریکِ انصاف کے کارکنوں کو بھی دے سکتا۔ اُن کی قیادت کا سبق تو یہ ہے کہ جس سے جوابی حملے کا خطرہ ہو، اس سے معذرت کر لو۔ قیادت بھی ایسا ہی کرتی ہے۔ اگر کسی ایسے آ دمی سے پالا پڑ جائے جو جواباً گالی نہ دیتا ہو تو گالیوں میں اضافہ کر دو)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں