مکتبِ بخاری کا آخری خطیب دنیا سے رخصت ہوا۔ سید عبدالمجید ندیم کے بعد، اب پیرِ مغاںکی سخاوت اور اِس مے کدے کی رونقوں کا ذکر حسرت کے ساتھ ہوا کرے گا۔
جان کر من جُملہ خاصانِ مے خانہ مجھے
مدتوں رویا کریں گے جام و پیمانہ مجھے
میری نسل نے سید عطاء اﷲ شاہ بخاری کو نہیں دیکھا۔ اُن کی خطابت اور وجاہت کا ذکر کتابوں میں پڑھا ہے۔ وہ خوش الحان ایسے تھے کہ قرآن مجید ان کی زبان سے جاری ہوتا تو ایسوںکو بھی مسحورکرتا جو اس پر ایمان نہیں رکھتے تھے۔ خطابت ایسی کہ منظر کھینچتے تو لوگوں کی نگاہوں کے سامنے کردار چلنے پھرنے لگتے: '' وہ دیکھو! دروازے پر اماں عائشہ ؓکھڑی ہے‘‘۔ شاہ صاحب جملہ کہتے تو لوگ گردن گھما کر دیکھتے کہ خیال جیسے پیکرِ محسوس میں ڈھل گیا ہے۔ میری نسل نے یہ سب کچھ دیکھا نہ سنا۔ ہاں، مگر سید عبدالمجید ندیم صاحب کو دیکھا اور سنا ہے۔ شاید قدرت کو گوارا نہیں تھا کہ وہ ہماری نسل کو محروم رکھتی۔ یوں اُس نے ہمیں شاہ صاحب کی زبان سے قرآن مجید سننا نصیب کیا۔
خطابت کے فن سے میری دلچسپی بچپن سے ہے۔ اردو خطابت نے سیاست اور مذہب کی وادیوں میں جنم لیا ہے۔ یہیں پلی، بڑھی اور جوان ہوئی ہے۔ مذہبی خطابت میں ایک سے زیادہ اسالیب رائج رہے ہیں۔ ایک وہ جسے ہم دبستانِ بخاری کہتے ہیں۔ خطابت کا تعلق فنونِ لطیفہ سے ہے۔ یہ فنون لطیف احساسات کی تاروں کو چھیڑتے ہیں۔ یہ اصلاً حظ اٹھانے کا محل ہیں۔۔۔۔ جیسے شعر، جیسے گیت۔ خطابت بہت سے اجزا کا مرکب ہے۔ شورش کاشمیری مر حوم نے اپنی کتاب ''فنِ خطابت‘‘ میں بتایا ہے کہ یہ اجزا کون کون سے ہیں اور ایک تقریرکو پُر اثر بنانے میں کس کا حصہ کتنا ہے۔ بچپن سے میں مذہبی خُطَبا کو سنتا آیا ہوں۔ زندگی کے اس مرحلے تک اگرچہ ذوق و شوق نے ارتقا کے بہت سے مراحل طے کر لیے، لیکن مذہبی خطابت سے دلچسپی اب بھی کم نہیں ہوئی۔
مذہبی مقررین میں بہت کم ایسے ہیں جن کو خطیب کہا جا سکتا ہے۔ لوگ اچھے واعظین کو بھی خطیب کہہ دیتے ہیں۔ ان مقررین میں جزوی طور پر خطابت کی خوبیاں پائی جاتی ہیں۔کہیں شعلہ بیانی ہوگی، کہیں صحتِ زبان ہوگی،کہیں منطقی اسلوب ہوگا،کہیں خوش الحانی ہوگی۔ خطابت کے اکثر اوصاف کم ہی ایک جگہ مجتمع ہوتے ہیں۔ دو خطیب البتہ میں نے ایسے سنے، جب میں خطیبانہ اوصاف کو بڑی حد تک یکجا دیکھا۔ ایک علامہ عنایت اللہ گجراتی اور دوسرے سید عبدالمجید ندیم۔ علامہ صاحب بھی اللہ کو پیارے ہو چکے۔ مو لانا غلام اللہ خان مرحوم کے حلقہ فکر میں آنکھ کھولی۔ یہیں پڑھا اور پھرمولانا سید ابوالاعلیٰ مودوی کی محبت انہیں جماعت اسلامی میں لے گئی۔ میرا ان کے ساتھ گہرا شخصی تعلق رہا۔ جب فنِ خطابت پر ان کی کتاب 'لذتِ فریاد ‘ شائع ہوئی تو انہوں نے کمال شفقت کا مظاہرہ کرتے ہوئے، فن ِخطابت پر لکھے میرے ایک کالم کو اس کا مقدمہ بنا دیا۔ یہ 1990ء کی دہائی کا قصہ ہے۔
عبد المجید ندیم صاحب سے بھی میرا تعلقِ خاطر تھا۔ بطور سامع تو ان کے ساتھ رشتہ کم از کم تین دہائیاں پرانا ہے۔ جب راولپنڈی منتقل ہوئے تو پھر ملاقاتیں ہونے لگیں۔ واقعہ یہ ہے کہ اُن کی تقاریر سن کر قرآن مجید یاد کر نے کا شوق پیدا ہوا۔ دل چاہتا تھا کہ اُن کی طرح قرآن پڑھا جائے۔ یقیناً اپنے بہت سے سامعین میں انہوں نے یہ ذوق پیدا کیا ہوگا۔ یہ ان کی ا یسی خدمت ہے جو انشاء اللہ ان کے لیے آخرت میں غیر معمولی اجر کا باعث بنے گی۔ روایتی مذہبی خطبا کے برخلاف، میں نے یہ بھی دیکھا کہ وہ اپنی تقاریر میں زیادہ تر قرآن مجید ہی سے استفادہ کرتے۔ خطابت کے ضروریات کے پیش نظر، وہ اشعار، واقعات اور طنز و مزاح سے بھی بھر پور کام لیتے، لیکن ان کا بنیادی استدلال قرآن مجید ہی سے اٹھتا تھا۔ ایک بار سیدہ مریم پر گفتگو کی تو خیال ہوا کہ اگر کوئی مسیحی اس خطاب کو سنتا تو جذبات پر قابو نہ رکھ سکتا۔ حافظِ قرآن ہونے کے باعث قرآن مجید سے استفادے میں انہیں کوئی مشکل پیش نہ آتی۔
ابتدا میں ہم نے انہیں مولانا عبدالشکور دین پوری کے ساتھ سنا۔ مولانا دین پوری کا اسلوبِ خطابت بھی بہت دلچسپ تھا۔ تاہم اُس وقت آتش جوان تھا اور ان کی خوش الحانی زیادہ مسحورکرتی۔ ان کا تعلق مسلکِ دیوبند سے تھا۔ اس عہد کی تقریریں زیادہ تر مسلکی رنگ ہی میں رنگی ہوئی ہیں۔ تاہم میں نے اُن میں ایک ارتقا دیکھا۔ آہستہ آہستہ اپنے مسلک سے وابستگی کے باوجود، وہ مسلکی مبلغ کی سطح سے بلند ہونے لگے۔ آخری دور میں تو وہ ایک نذیر اورداعی تھے۔ اخلاق، تزکیہ اور تعمیرِ سیرت ان کے مضامین بیان ہوتے۔ یہ ایک دلچسپ بات ہے کہ اکثر مذہبی خطیب جو مسلکی شناخت رکھتے تھے، آخری دور میں مسلکی تبلیغ کو کارِ رائیگاں سمجھنے لگے۔ مولانا ضیاء القاسمی طویل عرصہ دیوبندیت کے دفاع میں شمشیرِ برہنہ بنے رہے۔ آخری عمر میں انہوں نے بھی اعتراف کیا کہ ایک کارِ عبث تھا، جس میں عمر گزر گئی۔
ندیم شاہ صاحب زبان کا بھی اچھا ذوق رکھتے تھے۔ میرا مشاہدہ یہ ہے کہ معاصرمذہبی خطبا اور مقررین میں شاید ہی اس معاملے میں کوئی ان کا ہم سر ہو۔ شیعہ خطبا میں بعض ایسے ہیں جو زبان کی صحت اور حسنِ بیان کے حوالے سے حساس ہوتے ہیں۔ شاہ صاحب مرحوم میں ایک خوبی یہ بھی تھی کہ وہ گلہ پھاڑنے کے زیادہ قائل نہیں تھے۔ مجھے حیرت ہوتی ہے کہ لوگ بعض ایسے مذہبی سیاست دانوںکو بھی خطیب سمجھتے ہیں جو زیادہ انحصار اپنے گلے پر کرتے ہیں۔ میں جانتا ہوںکہ ڈی چوک یا لیاقت باغ میں خطابت کی ضروریات مختلف ہوتی ہیں، لیکن آج کے دور میں، جب آوازکو بلند کرنے والے جدید ترین آلے وجود میں چکے، اپنے گلے اور دوسرے کی سماعت کے ساتھ تشدد میرے نزدیک خوش ذوقی کا اظہار نہیں ہے۔ شاہ صاحب کے ہاں نفاست تھی۔ وہ ایک اچھے خطیب کی طرح لحن،اسلوب اور نفسِ مضمون پر زیادہ انحصار کرتے تھے۔ اسی لیے مجھے زیادہ پسند تھے۔
میں انہیں پہلی بار ٹیلی وژن کی سکرین پر لایا۔ ہمارے ٹی وی چینلز کو مذہب کے جن نمائندوں کی بالعموم ضرورت ہوتی ہے، وہ ان میں سے نہیں تھے۔ دھیمے لہجے میں مذہب کے مثبت پہلو کو بیان کر نے والا انہیں کہاں خوش آتا ہے۔ میں نے درخواست کی تو خوش دلی سے قبول کی۔ ایک شیعہ خطیبہ کے ساتھ پروگرام میں بیٹھے اور ایک لمحے کو بھی تکدرکی کوئی فضا پیدا نہ ہوئی؛ نہ پروگرام کے دوران میں اور نہ پہلے اور بعد۔ وہ انہیں بیٹی کہہ کر پکارتے رہے۔ اس کے بعد بھی کئی بار تشریف لائے۔ مذہب اور خاص طور پر فرقوں کے نام پر پھیلتے تشدد سے بہت نالاں تھے۔ اسی وجہ سے فرقہ پرست انہیں زیادہ پسند نہیںکرتے تھے۔
زندگی ارتقا پذیر ہے۔ خطابت کا فن ارتقا سے گزرا ہے اور میںخود بھی۔ تقریر کا جو اسلوب بیس سال پہلے پسند تھا اب نہیں رہا۔ تاہم جیسے میں نے عرض کیا، اس کا تعلق فنونِ لطیفہ سے ہے۔ یہ فنون انسان کے لطیف احساسات کی تسکین کا باعث ہوتے ہیں۔ میں علمی استفادے سے زیادہ خطابت کو اسی حوالے سے دیکھتا ہوں۔ شاہ صاحب کے دنیا سے رخصت ہونے سے یہ بزم ویران ہوگی۔ اب کوئی ایسا نہیں جسے سن کر عطااللہ شاہ بخاری کا ذکر ہو۔ بخاری صاحب تھے تو مولانا ابوالکلام آزاد کا ذکر ہوتا تھا۔ یوں ہم اپنی روایت سے جڑے رہتے تھے۔ اب ایک اٹھتا ہے تو معلوم ہوتا ہے، روایت اٹھ گئی۔ اُن کے جنازے میں قدرے تاخیر ہوئی تو ان کے ہم مسلک علما انہیں خراجِ تحسین پیش کرنے لگے۔ میں ایک صف میںکھڑاسوچتا رہا کہ ان میں کتنے ہیں جنہیں ایک فرد سے زیادہ ایک روایت کے اٹھ جانے کا احساس ہے؟ اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت کرے اور ہمیں ان کا نعم البدل عطا کرے۔