پہلی بار عمران خان نے ایک لیڈر کی طرح کلام کیا۔ محض اُچھل کود سے کھلاڑی تو بنا جا سکتا ہے‘ رہنما نہیں۔ رہنمائی ایک وژن کا تقاضا کرتی ہے۔ پاک بھارت تعلقات کے باب میں، انہوں نے 'بلو م برگ‘ کے انٹرویو میں جو کچھ کہا،وہ ایک لیڈر کا تکلم ہے۔
سشما سوراج کی آمد نے قلبِ ایشیا کانفرنس کو اپنے حصار میں لیے رکھا۔ ان کا پاکستان آنا اس مقام ِنخوت سے اترنا ہے، مودی صاحب بھارت کو جس پر فائز کیے ہوئے تھے۔ انہیں احساس دلا دیا گیا کہ خدائی محض دعوے سے قائم نہیں ہوتی۔ ایسا ہوتا تو نمرود اور فرعون کبھی تاریخ کے راہ گزر کی گرد نہ بنتے۔ ہم ایک عالمی معاشرت میں زندہ ہیں۔ اب دوسروں سے لاتعلقی یا بے تعلقی ممکن نہیں۔ ہمسائے سے تو بالکل نہیں۔ مودی صاحب کو ہوش دلایا گیا اور انہیں سرِدست ہوش آ گیا۔ یہ مگر مسئلے کا مستقل حل نہیں۔ سشما صاحبہ کی آمد خطرے کے احساس کو کم تو کر سکتی ہے، خطرے کو نہیں۔
میں بارہا عرض کر چکا کہ جنوبی ایشیا کو آج ایک نئے وژن کی ضرورت ہے۔ وہ وژن جو اسے تقسیم کی تلخ یادوں سے نکال سکے۔ تقسیم ِہند مذہبی و تہذیبی تصادم سے بچنے کی ایک کوشش تھی۔ حالات نے یہی ثابت کیا کہ تقسیم برصغیر کے مسئلے کو مستقل بنیادوں پر حل نہیں کر سکی۔ تقسیم کو مسلمانوں کی فتح سمجھا گیا۔ ہندو قوم کے لیے یہ ایک زخم تھا۔ اس زخم پہ مرہم رکھنے کی ضرورت تھی۔ بد قسمتی سے ہندوئوں کی قیادت پٹیل جیسوںکے ہاتھوں میں چلی گئی۔ یوں ہندوؤں میں ایک گروہ طاقت ور ہوتا گیا جس نے چاہا کہ اس زخم کو ہمیشہ تازہ رکھا جائے۔ اس کے نزدیک اندمال کی صرف یہی صورت ہے کہ ہندوستان دوبارہ ایک ملک بن جائے۔ وہ ابھی تک اس کے علاوہ کوئی علاج قبول کرنے کے لیے تیار نہیں۔
مسلم لیگ میں صرف قائداعظم تھے، جنہیں تقسیم کے مضمرات سے آگاہی تھی۔ تب ہی انہوں نے امریکہ اور کینیڈاکی طرز پر باہمی تعلق کی بات کی۔ ہجرت اور فسادات کی تلخیوں نے اس سوچ کو آگے نہیں بڑھنے دیا۔ وقت کے ساتھ اہل ِسیاست منظر سے ہٹتے گئے اور ایوب خان کے طبقے نے غلبہ حاصل کر لیا۔ اُس نے وہی کرنا تھا، اسے جس کی تربیت دی گئی تھی۔ بصیرت سیاست کی وادی ہی میں پلتی ہے۔ وہ اُجڑ گئی تو پھر تصادم باہمی تعلقات کی بنیاد بن گیا۔ ایک طرف بھارت کے ساتھ مستقل دشمنی ہماری خارجہ پالیسی کی اساس بن گئی۔دوسری طرف بھارت تدریجاً نریندر مودی تک آ پہنچا۔
آج دونوں تاریخ کا بوجھ اپنے کندھوں سے اتارنے پر آمادہ نہیں۔ ساری دنیا مستقبل کی طرف دیکھتی ہے۔ برصغیر دنیا کا واحد خطہ ہے جو ماضی کی طرف دیکھتا ہے۔ نواز شریف صاحب نے مستقبل کی طرف دیکھنے کی کوشش کی‘ جب واجپائی صاحب کو بلایا۔ وقت کے ساتھ انہیں اندازہ ہو چلا ہے کہ اقتدار میں رہنا ہے تو تاریخ کے اس عمل کا حصہ بن کر ہی رہا جا سکتا ہے۔ تاریخ سازی کی سزا بہت سخت ہے۔ اقتدار سے محرومی تو کم از کم ہے۔ زیادہ سے زیادہ کچھ بھی ہو سکتی ہے۔ یوںانہوں نے تاریخ کی بجائے اپنے عہد میں جینے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ وہ اب شاید کوئی بڑا فیصلہ نہ کر پائیں۔ تاریخ سازی کا کام وہی کر سکتا ہے جس کی جڑیں عوام میں ہوں۔ نواز شریف صاحب کے بعد یہ عمران خان ہیں جنہیں عوام کے ایک بڑے طبقے کی تائید میسر ہے۔ وہ اگر چاہیں تو اپنے حلقہ ٔاثر میں ایک نئی سوچ پیدا کر سکتے ہیں۔ اب تک انہوں نے صرف شخصی رومان پیدا کیا ہے۔ ان کے پاس موقع ہے کہ اس رومان کو ایک نئی سوچ میں بدل ڈالیں۔ 'بلو م برگ‘ کے ساتھ عمران خان کے انٹرویو میں مجھے ایک نئی سوچ کی جھلک دکھائی دی ہے۔
عمران خان کا کہنا ہے: ''بھارت اور پاکستان کو ایسے رہنماؤں کی ضرورت ہے جو امن معاہدے کے لیے فوجی جرنیلوں اور سیاسی دھڑوں کے خلاف مزاحمت کر سکیں۔ کسی پیش رفت کے لیے دونوں ممالک کو مہاتما گاندھی اور نیلسن منڈیلا کے ہم پلہ سیاسی جرأت رکھنے والے رہنماؤں کی ضرورت ہے....مودی اپنے دائیں بازو کے جتھے سے خوف زدہ ہیں، نواز شریف فوج سے پریشان ہیں جن کا داخلی سلامتی اور خارجہ امور پر کنٹرول ہے....گزشتہ صدی میں یورپی ایک دوسرے کو مار رہے تھے۔ اب ان کو دیکھو : انہوں نے ایک دوسرے کے لیے سرحدیں اور تجارت کے دروازے کھول دیے۔ اب ان کا معیارِ زندگی دیکھ لو۔ یہی اس خطے میں بھی کرنا چاہیے۔اگر میں وزیر اعظم ہوتا تو بھارت کے ساتھ امن کے فوائد سے متعلق فوج کو قائل کرنے کے لیے اپنی قائدانہ صلاحیتیں استعمال کرتا‘‘۔
عمران خان وزیر اعظم نہیں مگر ایک عوامی رہنما تو ہیں۔ انہیں چاہیے کہ وہ اپنی قائدانہ صلاحیتوں کو عوام کو قائل کرنے کے لیے استعمال کریں۔ اس بات میں اتنا وزن ہے کہ اسے پورے جنوبی ایشیا کو مخاطب بنانے کے لیے بنیاد بنایا جا سکتا ہے۔ 1947ء کے بعد برصغیر میں کوئی ایسا سیاسی رہنما نہیں آیا جو پاکستان اور بھارت سے بلند تر ہو کر اس خطے کے تناظر میں سوچ سکتا۔ یہ صلاحیت صرف مولانا ابو الکلام آزاد میں تھی۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ وہ ایک عبقری تھے۔ افسوس کہ آخری وقت میںمایوسی نے انہیں گھیر لیا اور تقسیم ِہند کے بعد انہیں حالات نے مہلت دی‘ نہ عمر نے۔ وہ تاریخ کو تقسیم کے واقعہ سے بلند تر ہو کر دیکھتے تھے۔ ایک بار انہوں نے، سرِراہ ،کراچی پڑاؤ کیا۔مختصر قیام کے باوجود،وہ قائداعظم کے مرقد پر دعائے مغفرت کے لیے تشریف لے گئے۔
عمران خان اِن دنوں بھارت میں ہیں۔ وہاں بھی ان کے مداحوں کا ایک حلقہ ہے۔ یہ حلقہ اگرچہ کرکٹ سے متعلق ہے لیکن ان کا یہ مثبت پیغام اس حلقے کو بھی متحرک کر سکتا ہے۔ میری خواہش ہو گی کہ عمران خان کے یہ خیالات بھارت میں بھی زیر بحث آئیں۔اگر عمران خان پاک بھارت تعلقات کے لیے ایک نئے بیانیے پر بحث کا آغاز کر سکیں تو اس سے ان کا قائدانہ تشخص ابھرے گا۔
مولانا ابو الکلام آزاد کے انقلابِ حال کو مولانا مودودی نے بیسویں صدی کی سب سے بڑی ٹریجڈی کہا تھا۔ میں عمران خان کے انقلابِ حال کو پاکستانی تاریخ کا سب سے بڑا المیہ قرار دیتا ہوں۔ وہ وقت گزرنے کے ساتھ جس طرح قطرہ قطرہ تحلیل ہوئے اور انہوں نے اپنی اخلاقی برتری کو جس طرح پامال کیا، وہ ہماری تاریخ کا ایک المناک باب ہے۔ انہیں آج کسی اور عنوان کے زیر بحث آنا چاہیے تھا۔ افسوس کہ اب ان کا ذکر ریحام خان کے حوالے سے ہونے لگا ہے۔ انہیں یہ بات سمجھنی چاہیے کہ لیڈر وژن سے بنتا ہے۔وہ گاندھی کا حوالہ دیتے ہیں۔ گاندھی تو قائداعظم کو ' مائی ڈئیر قائداعظم‘ کے نام سے مخاطب کرتے تھے ۔ ایک بڑا لیڈر وژن اور آداب سے بنتا ہے۔ یہ بات طے ہے کہ جن لوگوں کے جلو میں وہ دکھائی دیتے ہیں، ان کی صحبت عقاب کو صرف زاغ بنا سکتی ہے۔
عمران خان چاہیں تو2018 ء کے انتخابات ایک نئے وژن کے تحت لڑ سکتے ہیں۔ وہ اپنے مداحوں، ان کے بقول،' ٹائیگرز‘ کو ایک فرد کے بجائے ایک سوچ سے وابستہ کر سکتے ہیں۔ واقعہ یہ ہے کہ آج برصغیر میں کسی چیز کی کمی نہیں۔ اس خطے کو ایک وژن چاہیے‘ جو اسے ماضی سے اٹھا کر مستقبل سے وابستہ کر دے۔ یہ کام سشما سوراج اور سرتاج عزیز کی آمدو رفت سے نہیں ہو گا، ایک وژن سے ہو گاجو صرف ایک لیڈر دے سکتا ہے۔ کیا عمران خان لیڈر بننے پر آمادہ ہیں؟