"KNC" (space) message & send to 7575

ترجیح کا مسئلہ

آج ملک کا سب سے بڑا مسئلہ کیا ہے؟ کرپشن بہت ہے اور دہشت گردی بھی روز افزوں۔دونوں کا خاتمہ لازم ہے۔سوال یہ ہے کہ اگر ترجیح قائم کرنا پڑے تو پھر ہمارا فیصلہ کیا ہونا چاہیے؟ 
مالی کرپشن کے باب میں اس سماج کو ضرورت سے زیادہ حساس(Over sensitive) بنا دیا گیا ہے۔اخلاقی عوارض اور بھی بہت ہیں لیکن ان کے معاملے میں ہم زیادہ حساس نہیں ہوتے۔واقعہ یہ ہے کہ کرپشن سرمایہ دارانہ معیشت کا جزو لاینفک ہے۔ ماضی قریب میں، مسلم دنیا میں ترقی کی دو مثالیں ہیں۔ ملائیشیا اور ترکی۔ مہاتیر محمد اور اردوان، دونوں کرپشن کے میگا سکینڈلز کی زد میں رہے۔ دونوں کی اولاد اور خاندان کا اس عنوان سے تذکرہ ہوتا رہا۔ دونوں نے اُن لوگوں کی آواز کو ریاستی قوت سے دبایا جنہوں نے ان کی کرپشن کا ذکر کیا۔ اس کے باوجود ، اس سے انکار محال ہے کہ مہاتیر محمد جدید ملائیشیا کے معمار ہیں اور طیب اردوان جدید ترکی کے۔ ترکی کے حالیہ انتخابات نے ثابت کیا کہ ترک انہیں استحکام کی علامت سمجھتے ہیں۔ 
غیر مسلم دنیا میں چین ترقی کی سب سے روشن مثال ہے۔ امریکہ کے معروف تحقیقی ادارے پیو سنٹر (Pew Center) کے مطابق، آج کرپشن چین کا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔چین اس وقت ماحولیاتی آلودگی پھیلانے والوں میں سر فہرست ہے۔ آلودگی میں چین کا حصہ 27فی صد ہے۔ اس کا بڑا سبب فضا میں کاربن کا اخراج ہے۔ چین میں کوئلے سے توانائی حاصل کرنے کے منصوبے بہت ہیں اور ان میں اضافہ بھی ہو رہا ہے۔2020ء تک اس طرح کے 155 مزید پلانٹس لگائے جائیں گے۔ اس وجہ سے چین کے بڑے شہر گرد و غبار کی لپیٹ میں رہتے ہیں۔چین توانائی کے قابل تجدید(Renewable) ذرائع کی طرف جا نا چاہتا ہے۔کرپشن اس راستے میں حائل ہے۔ چین کے صدرشی جن پنگ نے بد عنوان عناصر کے خلاف ایک مہم کا آغاز کیا اور اس طرف کا رخ بھی کیا۔انہیں ابتدا میں ناکامی ہوئی کہ اس شعبے پر اس کرپٹ طبقے کی گرفت ہے جو کوئلے سے توانائی پیدا کرنے کے بجائے متبادل ذرائع کی طرف منتقلی میں رکاوٹ ہے۔اہم بات یہ ہے کہ یہ کرپشن چین کی ترقی کو روک نہیں سکی۔ 
پاکستان کے سامنے بھی آج معاشی ترقی کا یہی ماڈل ہے اوروہ اسی پر عمل پیرا ہے۔سرمایہ دارانہ معیشت کا کوئی متبادل اس وقت دنیا میں نہیں پایا جاتا۔ اس لیے کرپشن اس کے ناگزیر حصے کے طور پر موجود رہے گی۔ ظاہر ہے کہ اس سے ایک برائی کوسندِجواز نہیں مل جاتی۔ اس کے خلاف آواز اٹھائی جانی چاہیے اور اس کے خاتمے کے لیے نیب جیسے اداروں کو مضبوط ہونا چاہیے۔ اختلاف اس باب میںنہیں ہے۔ سوال ترجیح کا ہے۔ اگر اس وقت دہشت گردی اور کرپشن میں انتخاب کرنا پڑے تو پہلے کسے ختم کیا جانا چاہیے؟ میرا خیال یہ ہے کہ دہشت گردی کے ساتھ بقا ناممکن ہے جبکہ کرپشن کو ایک ناگزیر برائی کے طور پر کچھ وقت کے لیے گواراکیا جا سکتا ہے۔ کراچی میں دونوں کو ایک جیسی برائی قرار دے کر جوخلطِ مبحث پیدا کر دیاگیا ہے، اس کے نتائج خوشگوار نہیں ہوں گے۔ خاص طور پر اس وقت جب کرپشن کا الزام ان لوگوں پر ہو جو سیاسی عصبیت بھی رکھتے ہیں۔
دہشت گردی کی جڑیں جتنی گہری ہیں، شاید ذمہ دار لوگوںکو بھی اس کا اندازہ نہیں ہے۔ گزشتہ چند دنوں میں جو انکشافات ہو رہے ہیں، اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ یہ کہاں کہاں اور کس کس عنوان سے پھیل چکی ہے۔ میں گزشتہ کالم میںکچھ تفصیل بیان کر چکا کہ یہ مرض کس طرح سماج میںسرایت کر چکا ہے۔ گزشتہ تین عشروں سے ذہن سازی کا عمل جاری ہے۔ اس فضا میں ایک پوری نسل جوان ہوئی ہے۔ بظاہر ماڈرن دکھائی دینے والے نوجوانوں سے جب بات کی جاتی ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ طالبان اور ان کی سوچ میں کوئی فرق نہیں۔ آج جومذہبی راہنما بآواز بلند داعش کے ناقد ہیں، وہ اگر اپنی گزشتہ سالوںکی مساعی پر غور کریں تو انہیں اندازہ ہو جائے گا کہ اس فساد کے پھیلنے میں خود ان کا کتنا حصہ ہے۔ داعش اور اس سے پہلے القاعدہ کا حصہ بننے والے لوگ پس منظر کے اعتبار سے آخرکن جماعتوں سے وابستہ رہے؟ان کے ذہنوں میں یہ سوچ کس نے پیدا کی؟
ایسے لوگوں کو ضرور اس بات پر غور کرنا چاہیے کہ جب وہ ایک طبقے کے خلاف نفرت پھیلانے کے لیے دینی استدلال پیش کرتے ہیں تو اس کا اطلاق محض ایک طبقے تک محدود نہیں رہتا۔ مخاطب اپنے ہدف کا انتخاب خود کرتا ہے۔دہشت گردی کیا ہے؟انتہا پسندانہ سچ کا پُر تشدد اظہار۔ریاستی اداروں اور مذہبی تنظیموں کو اس کا جائزہ لینا چاہیے کہ انتہا پسندی کون پھیلا رہا ہے؟یہ با ت بھی پیش نظر رہنی چاہیے کہ سوچ کیسی بھی ہو، بندوق سے ختم نہیں ہوتی۔اس کے لیے لازم ہے کہ اس کو دلیل کے ساتھ رد کیا جائے۔بندوق، بندوق برداروں کا علاج ہے،فکرکا نہیں۔ 
یہ کراچی کا تناظر ہو یا ملک کا،آج ہمیں ترجیح کا تعین کرنا ہو گا۔سب محاذوں پر ایک ساتھ نہیں لڑا جا سکتا۔ دہشت گردی ایک ہنگامی صورت حال ہے اور کرپشن عمومی۔کرپشن سے عمومی قوانین کے تحت ہی نمٹنا چاہیے۔ کراچی میں رینجرز کو اصلاً دہشت گردی اور فساد کے خاتمے کے لیے ہنگامی بنیادوں پر طلب کیا گیا تھا۔ یہ فیصلہ سیاسی حکومت کا ہے اور ظاہر ہے یہ اسے ہی طے کرنا ہے کہ رینجرز سے کیا کام لیا جانا چاہیے۔ یہ اچھا ہے کہ وفاقی حکومت اس وقت رینجرز کا مقدمہ پیش کر رہی ہے اور اسے یہی کرنا چاہیے۔ سیاسی حکومتیں فوج کی آ مد ورفت کا فیصلہ کر تی ہیں۔اس روایت کو قائم رہنا چاہیے کہ اسی میں سب کابھلا ہے۔ قومی مفاد کوکسی سیاسی راہنماکے مفاد یا کسی وزیریا ادارے کی انا کا یر غمال نہیں بننا چاہیے۔
ہمارے سماج کو پچھلے کچھ عرصے میں مالی کرپشن کے حوالے سے بہت حساس بنا دیا گیا ہے۔ اس کے نتیجے میں کرپشن آج اخلاقیات کے بجائے سیاست کا مسئلہ بن گئی ہے۔ اس کا ایک نتیجہ یہ ہے کہ کرپشن کی موضوعی( Subjective ) تعبیرات وجود میں آ گئی ہیں۔ بعض لوگ خیال کرتے ہیںکہ کرپشن وہی ہوتی ہے جو مالی امور میں ہو۔ رہے دوسرے معاملات تو یہ فرد کا ذاتی مسئلہ ہے۔ اسی طرح جو مالی کرپشن میں ملوث ہیں، وہ کرپشن کو دوسرے اخلاقی معاملات میںمقید کرتے ہیں۔اگر یہ بحث اخلاقیات کی ہے تو اس کی کوئی صورت بھی گوارا نہیں ہونی چاہیے۔ کرپشن مادی معاملات میںہویا دوسرے معاملات میں، اسے ایک جیسا قابل مذمت ہوناچاہیے۔اخلاقیات کی اس تعبیر کا ہماری روایت سے کوئی تعلق نہیں۔ اخلاقیات کی یہ جزوی یا موضوعاتی تقسیم دراصل سیاسی مفادات کے زیر اثر وجود میں آئی ہے۔ یہ اسی کا نتیجہ ہے کہ آج مالی کرپشن کو دہشت گردی سے بھی اہم تر سمجھا جا رہا ہے۔
ترجیح اور ترتیب ، اصلاحی حکمت عملی کی ناگزیرضرورت ہے۔ ان سے صرفِ نظر کرنے سے بحران پیدا ہوتے ہیں۔ معاملات مزید پیچیدہ ہوتے ہیں جیسے کراچی میں ہو رہے ہیں۔ اس سے بچنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اس کا ایک ہی طریقہ ہے : ہنگامی اقدامات صرف ہنگامی صورت حال کے لیے ہونے چاہئیں اور وہ دہشت گردی ہے۔ کرپشن جیسے مسائل کو عمومی قانونی طریقوں سے نمٹنا چاہیے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں