خواہی نخواہی، ریاست کے معاملات اہلِ سیاست ہی پر منحصر ہیں، جیسے مریض کی صحت کا انحصار طبیب پر ہے۔ اہلِ سیاست کی اصلاح کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ اگر ایک گروہ اس پر آ مادہ نہیں تو کوئی اور۔ مشکل مگر یہ ہے کہ 'کوئی اور‘ بھی درماندہ تر ہے۔ ایک طرف احسن اقبال اور دوسری طرف پر ویز خٹک۔ عوام کہاں جائیں؟
حکومت نے اقتصادی راہداری کے معاملے کو جس طرح الجھایا ہے، یہ غیر معمولی محنت کے بغیر ممکن نہیں تھا۔ قومی معیشت کی بات ایک طرف، یہ منصوبہ خود حکومت کے لیے ایک غائبانہ مدد تھی۔ تحریکِ انصاف کے دھرنے کو اگر کسی تاثر نے ناکام کیا تو اس میں بڑا حصہ چینی صدر کے دورے کا موخر ہونا ہے۔ اس کا ذمہ دار دھرنے کو ٹھہرا یا گیا۔ یہ بات چو نکہ خلافِ واقعہ نہیں تھی اس لیے دھرنا ایک منفی عمل قرار پایا جس سے قومی مفاد کو نقصان پہنچا۔ تحریکِ انصاف کے لیے اس کا دفاع ممکن نہیں تھا۔ یوں ایک معکوس عمل کا آغاز ہوا اوردھرنا عمران خان کے گلے پڑ گیا۔ اس کا فائدہ حکومت کو ہوا۔ اس کے بعد چینی سرمایہ کاری حکومتی ساکھ کی بحالی کے لیے ایک بنیاد بن گئی۔ اگر ن لیگ کی قیادت خود غرضی کے ساتھ سوچتی تو بھی وہ اس منصوبے کی حفاظت کرتی اور اسے شکوک کے حصارمیں نہ آنے نہ دیتی۔ افسوس کہ وہ اس میں مطلق ناکام رہی۔
اہم سیاسی قیادت حکومت کے ساتھ کھڑی تھی۔ محمود اچکزئی، مشاہد حسین، میاں افتخارحسین اور مولانا فضل الرحمن سب وزیراعظم کے ساتھ بلوچستان پہنچ گئے۔ قومی وحدت کا ایسا منظر تھا کہ آنکھیں ٹھنڈی ہوگئیں۔ قوم نے شکر ادا کیا کہ شکوے دور ہوئے۔ جب یہ لوگ واپس آئے تو معلوم ہوا کہ وہ ایک سراب کے پیچھے بھاگ رہے تھے۔ یہ ایک ایسی سڑک کا افتتاح تھا جو منصوبے کا حصہ نہیں تھی۔ خدشات نے ایک بار پھر سارے معاملے کو اس طرح گھیر لیا کہ خیبر پختونخوا کی ن لیگ بھی حکومت کی مخالف صفوں میں کھڑی ہوگئی۔ میں سوچتا ہوںکہ جس معاملے کی باگ ڈور احسن اقبال جیسے سنجیدہ آ دمی کے ہاتھ میں ہے، اس کا اگریہ حال ہوا تو دوسرے معاملات کا کیا ہو گا؟
دوسری طرف دیکھیں تو پرویز خٹک دکھائی دیتے ہیں۔ پنجاب کے خلاف انہوں نے اس طرح زہر اگلا کہ جیسے اس پر ادھار کھائے بیٹھے ہوں۔ حکومت کی نااہلی کا پنجاب سے کیا تعلق؟ پھر وہ ابھی سے اُن باتوں کا مطالبہ کر رہے ہیں جن کا تعلق منصوبے کے دوسرے یا تیسرے مرحلے سے ہے۔ ابھی یہ طے ہو نا ہے کہ کون سی صنعت کہاں لگنی ہے۔ اس کا فیصلہ سب صوبوں کے نمائندوں کو مل کر نا ہے۔ اس پر ابھی سے واویلا قبل از وقت ہے۔ پھرسونے پر سہاگہ عمران خان ہیں۔ فرمایا کہ میں پرویز خٹک کی جگہ ہوتا تو کے پی کو اسلام آباد کے دروازے پر لا کھڑا کر کے دھرنا دیتا۔ ایک احتجاج پسند ذہن اس کے سوا کیا سوچ سکتا ہے؟ ایک ایسا قومی منصوبہ جس پر ملکی معیشت کا انحصار ہے، اس کے بارے میں قومی قیادت کا رویہ ہمارے سامنے ہے۔ معاملے کی سنگینی کا یہ عالم ہے کہ چین کی حکومت کو بھی کہنا پڑا کہ خدا کے نام پر ہوش کے ناخن لیں اور اس اہم منصوبے کو سبو تاژ نہ کریں۔
جمہوریت کی ایک برکت یہ ہے کہ اس میںدھوکہ دینا مشکل ہو جاتا ہے۔ اسی طرح ابہام بھی باقی نہیں رہ سکتا۔ بحث ہو تی ہے اور حقیقت نکھر کر سامنے آ جاتی ہے۔ یوں ایک نظام کی بر کت سے، عوام سیاسی قیادت کی خوبیوں اور خامیوں سے واقف رہتے ہیں۔ اسی سے اصلاح کے امکانات پیدا ہوتے ہیں۔ جمہوریت کی وجہ سے میں پُرامید ہو ں کہ اس تلخ بحث کا خاتمہ خیر پر ہوگا۔ یہ خوبی جمہوریت کے سوا کسی دوسرے نظام میں نہیں کہ وہ ایک خود کار طریقے سے اپنی اصلاح کی طرف مائل رہتا ہے۔ حکومت اب ابہام قائم نہیں رکھ سکے گی اور حزب ِاختلاف بھی اس منصوبے کو سبو تاژ کر نے کا الزام اپنے سر نہیں لے سکتی۔
پاکستان بحیثیت مجموعی ایک درست راستے پر قدم رکھ چکا ہے۔کم از کم اس بات پر اتفاق پیدا ہو گیا کہ اصلاح ناگزیر ہے۔ اس کے ساتھ امن اور استحکام کی اہمیت بھی واضح ہو چکی ہے۔ اربابِ اقتدار کو اس کا بھی اندازہ ہے کہ شفافیت کے بغیر معاملات آگے نہیں بڑھ سکتے۔ اگر ہم صبر سے کام لیں اور جمہوری عمل کے تسلسل پر قومی اتفاق کو مجروح نہ ہونے دیں تو ایک بہتر مستقبل کی توقع رکھی جا سکتی ہے۔
اللہ کا شکر ہے کہ آج پاکستان کے وجود پر قوم کسی ابہام کا شکار نہیں۔ تازہ ترین گیلپ سروے کے مطابق85 فیصد افراد یہ سمجھتے ہیں کہ اگر پاکستان نہ بنتا تو اس خطے کے مسلمان شدید مسائل کا شکار ہوتے۔ نوجوانوں سے پوچھا گیا کہ اگر وہ 1947ء میں ہوتے تو کیا وہ قیامِ پاکستان کے حق میں ووٹ دیتے؟92 فیصد کا جواب اثبات میں تھا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ قوم کی اکثریت پاکستان کو آج بھی خیر اور امید کی علامت سمجھتی ہے۔ خامیوں کے باوجود، وہ ان امکانات سے واقف ہے جو پاکستان کے وجود میں پنہاں ہیں۔ چند غیر ذمہ دار افراد کا طرز عمل اکثریت کو پریشان تو کرتا ہے لیکن ناامید نہیں۔ میں اس کا کریڈٹ بھی جمہوریت کو دیتا ہوں۔ جب حالات میں بہتری نہ ہو اور زبانیں بھی بند ہوں تو پھر گھٹن جان لیوا ہوتی ہے۔ اللہ کا شکر ہے کہ ہم اس گھٹن کا شکار نہیں ہیں۔
میں جب یہ سطور لکھ رہا ہوں، اختر مینگل صاحب کی میز بانی میں کل جماعتی کانفرنس جاری ہے۔ نقشے پیش کیے جارہے ہیں اور ساتھ ہی مسترد بھی کیے جا رہے ہیں۔ معلوم ہو تا ہے کہ معاملہ وزیر اعظم کی مداخلت کے بغیر حل ہو نے والا نہیں۔ اس سے پہلے اس مقصد کے لیے ایک کانفرنس پشاور میں ہو چکی جس میں وزیر اعظم سے ملاقات کا فیصلہ کیا گیا۔ میرا خیال ہے کہ سیاست مذاکرات اور مکالمے کا نام ہے اور اس مسئلے کے حل کے لیے یہ طریقہ اختیار کیا جا نا چاہیے۔ مولانا فضل الرحمٰن اور محمود خان اچکزئی کی مو جو دگی میں امکان یہی ہے کہ اسی راستے کو اختیارکیا جائے۔
واقعہ یہ ہے کہ پارلیمانی جمہوریت میں پارلیمان ہی کو فیصلے کا فورم ہونا چاہیے۔ پارلیمنٹ کی مو جودگی میں اے پی سی کی ضرورت نہیں ہو نی چاہیے۔ ایسی کانفرنسیں دراصل پارلیمان کے غیر موثر ہونے کا اظہار ہے۔ پارلیمان کو مقتدر بنانا حکومت کا کام ہے۔ اچھا ہو اگر وزیر اعظم سیاسی جماعتوں کے نمائندہ وفد سے ملیں اور پھر پارلیمان میں پالیسی بیان جاری کریں۔ اسی طرح مستقبل میں خدشات کا دروازہ بند کر نے کے لیے لازم ہے کہ ایک ایسا نمائندہ فورم بنا دیا جائے جو اس منصوبے پر پیش رفت سے با خبر رہے اور کسی طرف سے شکوک و شبہات کو در آ نے کا موقع نہ ملے۔ احسن اقبال صاحب کی خدمات قابل قدر ہیں۔ ضرورت ہے کہ انہیں متنازع نہ بنا یا جائے۔ قوم کو ایسے پڑھے لکھے اور دیانت دار افراد کی ضرورت ہے۔
جب یہ طے ہے کہ معاملات اہلِ سیاست ہی کوطے کر نے ہیں تو انہیں اس کا موقع ملنا چاہیے۔ انہیں بھی سوچنا ہے کہ اگر انہوں نے قوم کو مایوس کیا تو پھر انہیں کسی پر گلہ کرنے کا حق نہیں ہے۔ اقتصادی راہداری اہلِ سیاست کے شعورکا امتحان ہے۔