چارسدہ یونیورسٹی پر حملہ ہوا تو میں نے امیرالمومنین سیدنا عمرؓ کو یاد کیا۔ فرمایا: ''کاش ہمارے اور فارس کے بیچ آگ کا پہاڑ ہوتا۔ وہ ہم پر حملہ آور ہوتے نہ ہم اُن پر‘‘۔ میں سوچتا ہوں: کاش ہمارے اور افغانستان کے بیچ بھی آگ کی کوئی دیوار ہوتی، کوئی پہاڑ ہوتا۔
کیا خوب صورت جوان تھے جو اب نہیں رہے۔ تصاویر دیکھیں تو دیکھتا ہی رہ گیا۔ حسن و جمال اور وجاہت و مردانگی کا نمونہ۔ اللہ تعالیٰ نے پختونوں کو ایسا ہی بنایا ہے۔ میں کوڑے کے ڈھیروں میں سامانِ زیست تلاش کرتے افغان بچوں کو دیکھتا ہوں تو خود سے سوال کرتا ہوں: اگر انہیں نہلا دھلا کر کسی چمن زار میں کھڑا کر دیا جائے تو پہلی نظر ان کی طرف اٹھے یا چنبیلی و گلاب کی طرف؟ سچ پوچھیے تو فیصلہ نہیں کر پاتا۔ میںکیا، بھنورے جیسا رازدارِ چمن بھی شاید فیصلہ نہ کر سکے۔ چارسدہ یونیورسٹی کا حادثہ ہوا تو پرانا سوال پھر زندہ ہو گیا: یہ کیسی آگ ہے کہ ایسے گلاب چہرے جھلس گئے ہیں؟ یہ ٹھنڈی کیوں نہیں ہوتی؟ یہی سوال ہے جس نے سیدنا عمرؓ کا جملہ یاد دلایا۔
آج پاکستان کی سب سے غیر محفوظ سرحد یہی ہے جو دراصل کوئی سرحد ہی نہیں ہے۔ افغانستان میں رہنے والا شاید ہی کوئی اس سرحد کو مانتا ہو، پاکستان کے دوست افغان طالبان بھی نہیں۔ اُن کا اقتدار تھا تو ہم نے چاہا کہ ڈیورنڈ لائن کو وہ سرحد مان لیں۔ وہ مان کر نہیں دیے۔ اب عملاً یہاں کوئی سرحد نہیں، قانوناً ایک لکیر ہے جسے ہم سرحد فرض کیے ہوئے ہیں۔ لیکن اگر یہاں کوئی سرحد ہوتی بھی تو بے معنی ہوتی۔ اس طرف کا جغرافیہ ایسا ہے کہ افراد کی آ مد و رفت کو روکنا کسی حکومت کے بس میں نہیں۔ تو کیا ہمیں ساری زندگی اس خوف میں گزارنی ہے کہ نہ جانے کب کسی روز کوئی یہاں سے آئے گا اور ہمارے جوانوں کو آگ اور خون میں نہلا دے گا؟
روس کو گرم پانیوں سے دور رکھنے کی خواہش میں ہم امن سے دور ہو گئے۔ امن ہی زندگی ہے۔ امن سے دوری کا مطلب فساد ہے۔ گزشتہ پینتیس سالوں سے یہ زمین فساد کا گھر ہے۔ ہماری عسکری اور مذہبی قیادت نے ہمیں افغانستان کی دلدل میں اس طرح سے دھکیلا کہ ہم ہاتھ پائوں مارتے رہ گئے۔ زندگی آج پھر وہیں کھڑی ہے جہاں 1979ء میں تھی۔ افغانستان پر پھر ایک ایسے گروہ کا اقتدار ہے جسے پاکستان سے کوئی ہمدردی نہیں۔ اس کا خیال ہے کہ پاکستان ہی ہے جس نے ان کے ملک کو مقتل بنایا۔ جواباً وہ اب اُن کا پشت بان ہے جو پاکستان کو مقتل بنا دینا چاہتے ہیں۔ ہم نے چاہا کہ یہاں ہمارا اثر و رسوخ بڑھے۔ اثر بڑھا تو، مگر ہمارا نہیں، بھارت کا۔ اب بھارت مشرقی سرحد سے نہیں، مغربی سرحد سے حملہ آور ہوتا ہے۔ اسے یہاں افراد نہیں، صرف روپے خرچ کرنا ہوتے ہیں۔ جن کے دامن پر داغ ہے، وہ بھارتی نہیں، انہیں لغتِ عام میں پاکستانی طالبان کہا جاتا ہے۔ ہم سے منسوب 'نان سٹیٹ ایکٹرز‘ اب ہمارے دشمنوں کا ہتھیار ہیں۔ یہ ہے اس حکمتِ عملی کا حاصل جو سٹریٹیجک ڈیپتھ کے نام سے، پینتیس سال پہلے ہماری قیادت کو سوجھی تھی۔
ہم نے بڑی محنت سے بھارت کو یہ راستہ دکھایا ہے۔ اگر بھارت کے ساتھ ہماری لڑائی اُس سرحد تک محدود رہتی جو اس کے ہمارے درمیان قائم ہے تو بھارت سے نبٹنا آسان تھا۔ ہم اس سرحد کی نگرانی پر قادر تھے اور بھارت کو اِس کے پار روکنے پر بھی۔ اس وقت ہمارے اور بھارت کے مابین طاقت کا جو توازن ہے، اس کو سامنے رکھیے تو یہ خارج از امکان ہے کہ وہ ہم پر حملے کے بارے میں سوچ بھی سکے۔ اگر کبھی اس سرحد پر کوئی معرکہ ہوتا ہے تو اس کا کو ئی فاتح نہیں ہو گا۔ بھارت کو یہ معلوم ہے۔ اس لیے جب تک افغانستان میں اس کے لیے حالات سازگار نہیں تھے، وہ صرف دانت پیسنے پر مجبور تھا۔ ماضی قریب سے اس کے کئی شواہد پیش کیے جا سکتے ہیں۔ اب اس کے ہاتھ بھی وہی ہتھیار لگ چکا جو ہم آزماتے رہے ہیں۔ اس ہتھیار کو 'نان سٹیٹ ایکٹر‘ کہتے ہیں۔ وہی کردار اور وہی استدلال جو ہم نے اپنایا تھا، اب ہمارے خلاف استعمال ہو رہا ہے۔
بھارت کی حکمت عملی کے بارے میں اب کوئی ابہام نہیں رہا۔ اب وہ افغانستان کو ہمارے خلاف اپنی فرنٹ لائن سٹیٹ بنانا چاہتا ہے‘ جیسے امریکہ نے سوویت یونین کے خلاف ہمیں بنایا تھا۔ جیسے جیسے افغانستان میں طالبان کے حملے بڑھیں گے، وہاں پاکستان کے خلاف نفرت کو ہوا دینا آسان ہوتا جائے گا۔ اسی نفرت کو بھارت ایک ہتھیار بنا رہا ہے۔ افغانستان میں بہت سے لوگ، غلط یا صحیح، یہ رائے رکھتے ہیں کہ پاکستان ابھی تک افغان طالبان کا پشت بان ہے۔ افغانستان میں ہونے والا ہر واقعہ اس تاثر کو مستحکم کرتا ہے۔ امریکہ میں بھی یہ سوچ ابھی تک غالب ہے۔ حقانی نیٹ ورک کے بارے میں ان کا مطالبہ ابھی ختم نہیں ہوا۔ کھیل اب لگتا ہے پوری طرح نان سٹیٹ ایکٹرز کے ہاتھوں میں جا چکا ہے۔ سیاسیات میں اب ایک نظریہ یہ بھی ہے نیشن سٹیٹ کا تصور اب قصہ پارینہ ہے۔ دنیا اب بعد از ریاست (Post State) عہد میں داخل ہو چکی۔ یہ معیشت ہو یا سیاست، فیصلے اب ریاست نہیں کرتی، وہ عناصر کرتے ہیں جو ریاست سے زیادہ طاقت ور ہیں۔ کل ریاست نے خود انہیں پالا تھا۔ آج وہ ریاست کے درپے ہیں۔ یہ تھیوری کہیں اور سچ ہو نہ ہو، پاکستان کے حوالے سے تو سچ ہے۔
اس وقت جنوبی ایشیا میں ریاست کا وجود خطرات میں گھر چکا ہے۔ ہر ریاست سفارتی فورمز اور مذاکرات کے میز پر مظلوم ہے۔ دوسری طرف وہ نان سٹیٹ ایکٹرز کے ہاتھوں اپنے مفادات کی آبیاری چاہتی ہے۔ پاکستان، بھارت اور افغانستان کو اب مل کر سوچنا ہے کہ اس حکمتِ عملی نے انہیں کیا دیا؟ کیا پاکستان میں امن ہے؟ کیا بھارت میں امن ہے؟ کیا افغانستان میں امن ہے؟ ریاست کو بچانے کا اب ایک ہی راستہ ہے: تینوں ریاستوں کے ذمہ دار مل بیٹھیں اور یہ طے کریں کہ وہ کسی غیر ریاستی گروہ کے ہاتھ میں ہتھیار نہیں دیں گے۔ وہ ملک کے مادی اور نظریاتی مفادات کی نگہبانی کسی غیر ریاستی گروہ کو نہیں سونپیں گے۔ ریاست مسابقت اور ترقی کے عمومی اصولوں کے ساتھ اپنے مفادات کا تحفظ کرے گی۔ اگر اس نے جنگ کو ناگزیر سمجھا تو یہ ذمہ داری اپنی فوج کے سپرد کرے گی۔ یہی ایک راستہ ہے جو اس خطے کے عوام کو محفوظ بنا سکتا ہے۔
لازم ہے اس ایک نکتے پر سہ فریقی کانفرنس منعقد کی جائے۔ تینوں ممالک کے حکومتی سربراہ مل بیٹھیں۔ وہ طے کریں کہ ایک دوسرے کے خلاف نان سٹیٹ ایکٹرز کو استعمال نہیں کریں گے۔ ریاستوں کی مفاداتی لڑائی میں عوام کو نشانہ نہیں بنائیں گے۔ یہ باور کرنا ممکن نہیں کہ ریاستی تائید کے بغیر کوئی غیر ریاستی گروہ ایک طویل عرصے تک اپنا مادی اور عسکری وجود برقرا رکھ سکتا ہے۔ دہشت گردی غیر ریاستی عناصر کرتے ہیں لیکن ان کی پشت پر کسی نہ کسی ریاست کا ہاتھ ہوتا ہے۔ لازم ہے کہ تینوں ممالک کی قیادت ایک دوسرے سے سچ بولے اور عوام کی زندگی کو محفوظ بنائے۔ جذباتی نعرے علمی زندگی کی صداقتوں کو بدل نہیں سکتے۔ ایک شہید کی ماں جب کہتی ہے کہ وہ اپنے دوسرے بیٹے بھی وطن پر وار د ے گی تو یہ جملہ نہیں معلوم اس کے دل پر کتنے چرکے لگاتا ہے۔ میں نہیں جانتا کہ اس لمحے ماں کا دل کس حد تک اس کی زبان کا رفیق ہوتا ہے۔
ریاست ہی عوام کے جان و مال کی حفاظت کرتی ہے۔ اس کے وجود کی بقا کا ایک ہی اصول ہے۔ کسی غیر ریاستی گروہ کے ہاتھ میں ریاست کا کوئی اختیار نہ ہو۔ پاکستان، بھارت اور افغانستان کی ریاستیں، اگر اپنے اپنے عوام کو بچانے میں سنجیدہ ہیں تو یہی راستہ ہے۔ بصورتِ دیگر سیدنا عمرؓ کی طرح خواہش کرنی چاہیے کہ ہمارے اور افغانستان کے مابین، آگ کی کوئی دیوار کھڑی ہو جائے۔