ارباب اختیار کے فکری افلاس کا ایک نیا مظہر، تعلیمی اداروں میں تبلیغی جماعت پر پابندی ہے۔ تبلیغی جماعت کی تفہیم دین اور تاریخ پر ایک سو ایک سوالات اٹھائے جا سکتے ہیں۔ تحریکِ ایمان، عالمی تبلیغی جماعت کیسے بن گئی؟ اکرامِ مسلم کے اصول کو بنیاد قرار دینے والوں نے 'فتنہ مودودیت‘ جیسی کتابیں کیوں لکھیں؟ سب سے بڑھ کر یہ کہ قرآن مجید کی موجودگی میں کسی تبلیغی نصاب کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی؟ تبلیغی نصاب بھی وہ کہ مصنف کو ڈاکٹرز نے دماغی کام سے روک دیا تو دورِ علالت میں یہ کتاب مرتب کر ڈالی۔ اﷲ تعالی نے تو اپنے آخری رسول ﷺ سے کہاکہ قرآن کو انذار کے لیے نازل کیا گیا ہے۔ کیا آج قرآن کے ساتھ انذار نہیں ہو سکتا؟ یہ سب اور ان کے ساتھ بہت سے دوسرے سوالات علم کی دنیا میں زیر بحث ہیں اور رہیں گے۔ اس تحریک پر طرح طرح کے الزامات بھی عائد کیے جاتے رہے لیکن دہشت گردی کا الزام کبھی نہیں لگا۔ دہشت گردی کی روک تھام کے لیے تبلیغی جماعت پر پابندی؟ یہ اچھوتا خیال تو کسی بہت زرخیز دماغ ہی میں جنم لے سکتا ہے۔
سبب واضح ہے۔ خدشہ تبلیغی جماعت سے نہیں، اس امکان سے ہے کہ تبلیغی جماعت کے بھیس میں دہشت گرد نہ گھس آئیں۔ خدشہ بے سبب نہیں ہے لیکن شر کبھی خیر کا لبادہ اوڑھ لے تو کیا خیرکو محبوس کر دیا جائے؟راستے بند، تعلیمی ادارے بند، تبلیغ بند۔ یہ انداز حکمرانی کیا ہے؟
تبلیغی جماعت تو خود دہشت گردی کا ہدف رہی ہے۔ ایک سے زیادہ واقعات ہیں کہ انتہا پسندوں نے انہیں مارا پیٹا۔ تبلیغی جماعت کے نہتے اور بے ضرر کارکنوںکو جان سے مار ڈالا گیا۔ وہ احتجاج کرتے ہیں نہ اخبار میں بیان چھپواتے ہیں۔ ان کی حکمت عملی میں تو سیدنا مسیحؑ کے اس فرمان کی جھلک ہے کہ کوئی ایک طمانچہ مارے تو تم دوسرا گال آگے کر دو۔ داعیانہ مزاج یہی ہوتا ہے۔ بانی تحریک مولانا الیاس کے واقعات پڑھیے تو آدمی حیرت میں ڈوب جاتا ہے۔ ایک پہلوان نما آدمی کو دعوت دی تو اس نے نظر انداز کیا۔ ایک دو بار مزید کوشش کی تو اسے غصہ آ گیا۔ دھکا دیا اور چانٹا بھی مارا۔ دھان پان جیسا آدمی گر پڑا۔ اٹھا، چہرے اور لباس سے گرد جھاڑی اور اس سے کہا: تم نے اپنا کام کر دیا۔ کیا اب تم میری بات سنو گے؟ اس کا دل پسیج گیا اور پھر یہ دل مولانا کی مٹھی میں تھا۔ ایک نہیں بے شمار واقعات ہیںجو تذکرہ نگاروں نے قلم بند کر دیے۔ دعوت کا یہ اسلوب تو انتہا پسندی کا علاج ہے۔ حیرت یہ ہے کہ دہشت گردی کے مرض کوروکنے کے لیے علاج پر پابندی لگ رہی ہے۔
حیرت در حیرت یہ ہے کہ جذبات کو مشتعل کرنے والے آزاد ہیں۔ ہر طرح کی پابندی کے خوف سے مطلقاً بے نیاز۔ جلوس برآمد کرتے ہیں تو ٹریفک پولیس ان کے لیے سہولت کار کا کام کر تی ہے۔ ان کے بیانات اخبار میں چھپتے ہیں۔ ٹیلی ویژن چینلز ان کے خطبات اور انٹرویو سناتے ہیں۔ وہ غیر مسلموں، امریکہ اور دشمنان پاکستان کے خلاف جہاد کا اعلان کرتے ہیں۔ مسلکی منافرت کو ہوا دیتے ہیں۔ وہ بیان کرتے ہیںکہ اسلام کی بقا کا واحد راستہ قتال ہے۔ داعش سے وابستہ افراد پکڑے جاتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ انہی نرسریوں میں ان کی نشو ونما ہوئی ہے۔ ملک میں یہ سب کچھ روا ہے لیکن اگر نہیں تو تبلیغی جماعت۔۔۔۔ برق گرتی ہے تو بے چارے مسلمانوں پر! واقعہ یہ ہے کہ ارباب اقتدار کا ابہام اور حکمت سے عاری حکمت عملی ہر گزرتے دن کے ساتھ بے نقاب ہو رہی ہے۔ نے ہاتھ باگ پر ہے نہ پا ہے رکاب میں!
حکومت کے ساتھ یہ صورت حال ان مذہبی طبقات کے لیے بھی لمحۂ فکریہ ہے جن کے رویے نے دین کو مذموم تصورات کا مترادف بنا دیا ہے۔ انہیں غور کرنا چاہیے کہ غلبۂ دین کا علم لہراتے لہراتے، انہوںنے دعوت دین کا امکانات کو بھی شدید نقصان پہنچایا ہے۔ آج کی غالب تعبیر دین نے اسلام کو اس کے اصل مقصد انذارِ آخرت اور تزکیۂ نفس سے الگ کر کے ایک سیاسی نظام میں کچھ اس طرح سے بدلا ہے کہ ہر کوئی غلبے کی نفسیات میں جیتا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ وہ غیر مسلم دنیا کو اپنا دشمن سمجھتا ہے۔ اس کے بر خلاف اسلام دوسروں کو مدعو قرار دیتا ہے۔ اس کا مزاج دعوتی ہے۔ وہ دنیا کو غلبے اور اقتدار کے تصورات کے تحت نہیں، آخرت کی فلاح اور خسارے کے حوالے سے دیکھتا ہے۔ وہ دنیا کے اقتدار کے لیے جد و جہد نہیں کرتا۔ مل جائے تو اسے انعام سمجھتا اور اﷲ تعالیٰ کے احکامات کو نافذ کرنے کا ایک موقع جانتا ہے۔ بعض فکری مسائل کے باوجود تبلیغی جماعت اسی تصور کو زندہ کرتی ہے۔
اس وقت مسلم سماج کو سب سے زیادہ اس بات کی ضرورت ہے کہ وہ غلبے کی نفسیات سے نکل کر دعوت کے مزاج کو اپنائے۔ وہ مزاج جو اﷲ کے آخری رسول سیدنا محمد ﷺ اور ان سے پہلے تشریف لانے والے انبیا کو مضطرب رکھتا تھا کہ لوگوں کو کیسے جہنم کی آگ سے بچایا جائے۔ اس تصورِدین کا احیا ہماری ضرورت ہے کہ دنیا کے سامنے اسلام کی وہ تصویر آئے جو عالم انسانیت کا خیر خواہ ہے۔ جو لوگوں کو واصلِ جہنم نہیں، واصلِ جنت کرنے کے لیے آیا ہے۔ جہنم واصل کرنے کا کام عالم کے پروردگار ہی کو زیبا ہے جو دلوں کے حال جانتا ہے۔
چوہدری شجاعت حسین صاحب تبلیغی جماعت کے دفاع میں دور کی کوڑی لائے۔ فرمایا، یہ اسلام کے خلاف بین الاقوامی سازش ہے۔ یہ غیرمسلم قوتوں کا کیا دھرا ہے۔ معلوم ہوتا ہے چوہدری صاحب دو عشروں سے داخلی سیاست میں کچھ اس طرح مصروف رہے ہیں کہ انہیں خارج کی خبر نہیں رہی۔ تبلیغی جماعت پر تو 9/11 کے بعد بھی امریکہ میں پابندی نہیں لگی۔ امریکہ کیا،کسی غیر مسلم ملک میں بھی نہیں۔ یہ اعزاز صرف مسلم ممالک کو حاصل ہوا کہ انہوں نے تبلیغی جماعت پر پابندی عائد کی ہے۔ 2007ء میں میرا امریکہ جانا ہوا۔ اس سفر میں، میں یوٹا ریاست کے شہر سالٹ لیک سٹی بھی گیا۔ جمعہ کا دن آیا تو مجھے مسجد کی تلاش ہوئی۔ معلوم ہوا یہاں ایک 'مسجد خدیجہ‘ ہے۔ میں نماز کے وقت سے پہلے وہاں پہنچ گیا۔ مسجد میں ادھر ادھر گھومتے پھرتے ایک الماری دیکھی جس میں قرآن مجید کے ساتھ تبلیغی نصاب بھی موجود تھا۔ ایک رجسٹر بھی رکھا تھا۔ کھول کے دیکھا تو اس میں اردو اور انگریزی میں ان لوگوں کے نام لکھے تھے جنہوں نے گشت پر نکلنے کا ارادہ کیا تھا۔ اس مسجد میں دنیا کے ہر خطے کے مسلمان نماز پڑھتے ہیں جو اس شہر یا قرب و جوار میں آباد ہیں۔ چوہدری صاحب مطمئن رہیں۔ یہ اقدام غیروں کی نہیں، اپنوں کی کارستانی ہے۔
ابہام اور خوف مل جائیں تو آدمی بد حواس ہو جاتا ہے۔ یہی معاملہ حکومت کا بھی ہے۔ بصیرت کا امتحان یہی ہے کہ بد حواسی سے بچا جائے۔ ہمیں شر کا دروازہ بند کرنا ہے تو لازم ہے کہ خیر کے دروازے کھولے جائیں۔ تبلیغی جماعت بحیثیت مجموعی خیر کی ایک قوت ہے۔ کوئی سماج اخلاقی استحکام کے بغیر اپنا وجود برقرار نہیں رکھ سکتا۔ تاریخ کی گواہی یہی ہے کہ مذہب ہی اس کی ضمانت ہے۔ اخلاق، نفس انسانی کو رزائل سے پاک کرنے سے پروان چڑھتا ہے۔ مذہب کا پیغام ہی نفس کا تزکیہ ہے۔ ہمیں مذہب کا سوئے استعمال روکنا ہے، مذہب کا دروازہ بند نہیںکرنا۔ اگر ایسا ہوا تو ہمارے پاس تعمیر اخلاق کی کوئی دوسری بنیاد موجود نہیں۔