آپ کہتے ہیں تومان لیتے ہیں کہ ہمیں اچھی حکومت نہیں مل سکی۔کیا اچھی اپوزیشن بھی ہمارے مقدر میں نہیں؟
پی آئی اے کے مسئلے پر جس طرح روایتی سیاست کا احیا ہوا ہے، وہ ایک بڑا قومی المیہ ہے۔ دو دن پہلے، میں ایک چینل پر خیبر پختونخوا کے وزیرِ صحت کی گفتگو سن رہا تھا۔ وہی لہجہ اور وہی استدلال جو پرویز رشید صاحب پی آئی اے کے لیے اپنا ئے ہو ئے ہیں۔کچھ عرصہ پہلے عمران خان بھی اسی اسلوب میں ڈاکٹرز کا ذکر کر چکے۔ کے پی کے چار بڑے ہسپتالوں میں مکمل ہڑتال ہے۔ صوبائی حکومت ان پر اپنا قانون نافذ کر نا چاہتی ہے۔ یہی پی آئی اے کے معاملے میں وفاقی حکومت چاہتی ہے۔ ایک کام آپ کریں تو درست، دوسرا کرے تو غلط۔ روایتی سیاست آخر کس چیز کا نام ہے؟ مخالفت برائے مخالفت کسے کہتے ہیں؟ افسوس کہ سب خوابِ اقتدارکی حریفانہ کشمکش میں بہہ گئے۔ رومان کا معاملہ مگر یہ ہے کہ مر کر بھی نہیں مرتا۔ وہ رقابت کی صورت اختیار کر لیتا ہے۔ اپنا گریباں چاک اور دامنِ یزداں بھی چاک!
اداروں کی تشکیل ِ نو، سب مانتے ہیں کہ آج پاکستان کے بنیادی مسائل میں سے ایک ہے۔اس کا ایک بڑا سبب ان اداروں میں حکومتی مداخلت ہے۔ سیاسی حکومت کے کچھ مسائل سوا ہوتے ہیں۔ جو لوگ برے دنوں کی تلخی کے ساتھی ہوتے ہیں، یہ چاہتے ہیں کہ اچھے دنوں کی آسودگی میں بھی شریک ہوں۔ سیاسی حلیف بھی مطالبے کی ایک فہرست لے آتے ہیں۔اقتدار میں آنے کے بعد یہ دیکھا جاتا ہے کہ کس محکمے میں جگہ ہے جہاں انہیں کھپا یا جائے۔اس طرح ریاستی اور حکومتی اداروں میں میرٹ نظر انداز ہو تا ہے اور نا اہل افراد کو یہ موقع ملتا ہے کہ وہ اس کا حصہ بن جا ئیں۔اداروں کی تشکیلِ نو کا حل یہ ہے کہ انہیں بڑی حد تک سیاسی مداخلت سے پاک کیا جا ئے۔اس کی واحد صورت یہی ہے کہ انہیں بڑی حد تک،حکومتی اثر سے نکالاجائے۔
بھٹو صاحب کی نیشنلائزیشن سے پہلے، تعلیم او ر صحت کے بہت سے ادارے مسیحی مشنری اداروں کے پاس تھے۔ان کی حسنِ کارکردگی کی آج بھی مثال دی جا تی ہے۔راولپنڈی کا گورڈن کالج ان میں سے ایک تھا۔ایک عمومی زوال ان اداروں سے لپٹ گیا۔کوئی ایک ادارہ ایسا نہیں جس کی کارکردگی سرکاری تحویل میں آنے کے بعد بہتر ہوئی ہو۔اور تو اور فوج جیسے ادارے کو بھی جب سیاست سے آلودہ کیا گیا،اس کا وجود متنازع ہو نے لگا۔جنرل مشرف کی فوج اور جنرل راحیل کی فوج میں بہت فرق ہے۔ایک کا دور تھا تو فوجی جوانوں کو وردی کے ساتھ عوامی مقامات پر جانے سے منع کر دیا گیا۔آج فوجی جوان کہیں دکھائی دے جائے تو عام آ دمی اطمینان محسوس کر تا ہے۔محبت کا ایک چشمہ بے ساختہ بہہ اٹھتا ہے۔
جدید دنیا میں اسے بطور اصول مان لیا گیاہے کہ اداروں کو نجی شعبے کے پاس ہو نا چاہیے۔حکومت اب صرف ایک کام کر تی ہے:اداروں کی کارکردگی پر نظر اور ان کی تحدید۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ عوامی استحصال میں مصروف ہو جائیں۔ تعلیمی اداروں میں فیس اتنی نہ ہو کہ تعلیم عام آ دمی کی دسترس سے باہر ہو جائے۔ صحت کی سہولتیں ایسی مہنگی نہ ہوں کہ عام آ دمی ان کے لیے ترستا رہے۔نج کاری سے یقینا مسائل پیدا ہوتے ہیں ۔اُ ن کے تدارک کے لیے ویلفیئر سٹیٹ کا تصور سامنے آیا ہے جو عام آ دمی کے مفادات کی حفاظت کر تا ہے۔ پاکستان میں ایک طرح سے اس کا لحاظ رکھا گیا ہے۔ اکثر محکموں کے ملازمین کو مختلف غیر سرکاری ہسپتالوںمیں مفت علاج کی سہولت میسر ہے۔عام آ دمی کو مگر یہ سہولت میسر نہیں۔اسے بہتر بنانا ناگزیر ہے۔
پاکستان کو آج ضرورت ہے کہ ویلفیئر سٹیٹ کے تصور کو آگے بڑھاتے ہوئے،حکومت کے کندھوں سے غیر ضروری بوجھ اتار پھینکاجائے۔یہ بوجھ بالواسطہ عوام ہی کے کندھوں پر ہے۔ پی آئی اے کواگر دس کروڑ روپے روزانہ کا خسارہ ہو رہا ہے تو یہ نوازشریف نہیں، پاکستان کے عوام کی جیب سے جائیں گے۔آج ہمارا ایک اہم مسئلہ یہ ہے کہ اداروں کی اس طرح نج کاری کی جائے کہ عوام کے بنیادی حقوق محفوظ رہیں اوران اداروں کی کارکردگی بہتر ہو۔اس لیے حکومت کے پاس جو حکمتِ عملی تھی، وہ سامنے آچکی۔اگر اپوزیشن کے پاس کوئی بہترمتبادل ہے تو اسے سامنے آ نا چاہیے۔ یہی وہ موقع ہے جہاں قوم کو اچھی اپوزیشن کی ضرورت ہو تی ہے۔
تحریکِ انصاف کے پاس کیا کوئی متبادل ہے؟پیپلزپارٹی کے پاس کو ئی متبادل ہے؟جماعت اسلامی کا میں ذکر نہیں کرتا کہ انہیں معذور جانتا ہوں۔احتجاج کوئی متبادل نہیں ہے۔یہ وہ رویہ ہے جس سے کوئی خیر وابستہ نہیں۔حکومت اگر اچھی کارکردگی نہ دکھا سکے تواپوزیشن متبادل ہوتی ہے۔یوں لوگ مایوس نہیں ہوتے۔بری اپوزیشن بری حکومت سے بڑا المیہ ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ امید کی موت ہے۔میں حیران ہوں کہ جو کام خیبر پختون خوا میں حلال ہے،وہ مرکز میں حرام کیسے ہوگیا؟ جو صوبے میں جمہوری رویہ ہے، وہ مرکز میں آ مرانہ کیسے ہوگا؟ پھر اس کے بعد احتجاج؟کیا ہم نے بے وجہ، اس ملک کو مستقل حالتِ اضطراب میں رکھنا ہے؟
آج پاکستانی سماج کی سب سے بنیادی ضرورت نفسیاتی بحالی ہے۔ دہشت گردی نے معاشرے کو مسلسل اضطراب میں مبتلا رکھا ہے۔ خوف اور اندیشے آج ہمارے مزاج کا مستقل حصہ بن چکے۔آج ٹھہراؤکی ضرورت ہے۔لوگوں کو ذہنی سکون چاہیے۔ انہیں امید دلانے کی ضرورت ہے۔ عوام کو یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ ہیجان برپا کیے بغیر بھی اصلا حِ احوال ممکن ہے۔اپوزیشن کا کام یہ تھا کہ وہ پارلیمنٹ میں کوئی متبادل پیش کر تی اور قوم کو امید دلاتی کہ اسی نظام کے تحت کسی اندیشے میں مبتلا ہوئے بغیر ہمارے پاس ایک بہتر متبادل مو جودہے۔افسوس کہ ہماری یہ آرزو پوری نہیں ہو سکی۔عمران خان نے اڑھائی سال میں قومی اسمبلی میں کوئی پالیسی تقریر نہیں کی۔جہانگیر خان نے کروڑوں روپے لگادیے، اسمبلی تک پہنچنے کے لیے۔ اس کا حاصل کیا ہوا؟اگر اسمبلی ایسی ہی غیر ضروری ہے تو یہ مشقت کیوں اٹھائی؟حلف اٹھانے کے بعد انہوں نے اسمبلی کا رخ نہیں کیا۔ پی آئی اے کے مسئلے پر حکومت نے ایک پارلیمانی کمیٹی بنائی۔تحریکِ انصاف بتائے کہ اس نے اس کمیٹی میں کیا متبادل پیش کیا ہے؟
دھرنے کے دنوں میں، میں نے عمران خان کے بارے میں لکھا تھاکہ وہ اصلاً سیاست دان نہیں، احتجاج پسند(agitator) ہیں۔ بدقسمتی سے میری یہ رائے مزیدپختہ ہوئی ہے۔چند دن انہوں نے مشکل سے گزارے۔ لگتا ہے کسی موقع کی تلاش میں تھے جو اب انہیں مل گیا۔پی آئی اے اور دوسرے مسائل پر انہوں نے ایک بار پھر احتجاج کا راستہ اختیار کیا ہے۔سب جانتے ہیں کہ اس وقت احتجاج کا کوئی مو قع نہیں ہے۔ دہشت گردی کا چیلنج ابھی ختم نہیں ہوا۔ ملک میں پہلے ہی ایک اضطراب ہے۔سکول غیر محفوظ ہیں۔ پبلک مقامات غیر محفوظ ہیں۔ اس فضا میںلوگوں کو پھر سڑکوں پر نکا لنا کون سی سیاسی حکمتِ عملی ہے؟اس میں عوام دوستی کہاں ہے؟احتجاج سے ملک کا کون سا مفاد وابستہ ہے؟
اچھی حکومت اگر نہیں،تو کیا اچھی اپوزیشن بھی ہمارے مقدر میں نہیں؟پیپلزپارٹی تو خیر بقا کی جنگ لڑ رہی ہے۔ تحریکِ انصاف کب تک جذباتی ا ستحصال کرے گی؟ رومان مر چکا۔اب صرف رقابت باقی ہے۔نوازشریف کے خلاف بے پایاں نفرت کا ہدف، پاکستان اور اس کے عوام کیوں؟